بھارت کے و زیر اعظم کے سر پرائز دورہ پر
زیا دہ حیران ہو نے کی ضرورت نہیں کیو نکہ طر یقہ وردات و ہی پر انا ہے منہ
میں رام را م اور بغل میں چھری بہر حال ایک با ت خو ش آ ہند ہے کہ مو دی کے
دو رہ پا کستان سے اگلے ما ہ حکو متی سطح پر بحال ہو نے والے جا مع مذاکرات
کی را ہ ہموار ہو گئی یہ با ت در ست ہے کہ و اضح طو ر پر دونوں ممالک کے
تعلقات کی بر ف پگھلی ہے ورنہ اس سے پہلے تو بھا رتی و زیر اعظم ڈ ٹے ہو ئے
تھے من مون سنگھ و عدہ کر نے کے با و جو د پا کستان کے دو رہ پر ، نہیں آئے
آخری با ر اٹل بہا ری و اجپا ئی2004 میں سارک سر براہ کا نفر نس کیلئے پا
کستان تشر یف لا ئے تھے،اب مو دی کی پا کستان کے ساتھ محبت اچانک ہی جا گ
پڑی ہے اور وہ خو د فو ن کر کے خو د ہی یہاں آ ئے ہیں تو ظا ہر ہے اس کے پس
منظر میں بھی د با ؤ بھی ہو گا اور ڈپلو میسی بھی یقینا کا ر فر فا ہو گی
اور کچھ دو سرے مقا صد بھی لا زما ہو ں گے ہمیں بہرحال زیا دہ خو ش فہمی
میں نہیں ر ہنا چا ہے کہ ہما را د با ؤ کا ر گر ثا بت ہو ر ہا ہے۔ بنیا بے
حد چا لا ک ہے اور ہمیشہ دو ر کی سو چتا ہے اور ہے کھلی حقیقت ہے کے اس میں
بنیے کا اپنا ہی مفا د ہے اب تصو یر کے دو سرے رخ پر بھی نظر ڈالیے اصل
عزائم واضح ہو جا ئیں گے ۔ہند پاک تعلقات کا اتار چڑھاؤ ہر دور میں نہ صرف
برصغیر کے کروڑوں عوام میں زیر بحث رہتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی دو نوں
ممالک کے باہمی تعلقات کی نشست وبرخواست بہت ہی دلچسپی سے دیکھی اور تاڑی
جاتی ہے۔ وجہ ایک نہیں کئی ایک ہیں۔ تقسیم ہند کا فارمولہ اگر چہ دو قومی
نظریہ کی بنیاد پر وقت کی سیاسی قیادت نے اختیار کیا لیکن اس کے نتیجے میں
قیام ِپاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اکثریتی فرقے نے
کبھی بھی دل سے قبول سے نہیں کیا۔ کہاجاتاہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی
ضد پر وقتی طور پاکستان کے قیام کو برداشت کیا گیا ۔ ان کی نیت ہمیشہ یہی
رہی کہ نوزائید مملکت خداداد کی نظریاتی ا ور جغرافیائی بنیادوں کو اتنا
کمزور کردیا جائے کہ مختصر مدت میں ناکام اسٹیٹ کی صورت میں یہ از خود اپنے
وجودکو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہندوستان میں ضم کردے۔ مگرایسا نہیں ہوا اور نہ
خرابی بسیار کے باوجود ممکن ہے۔ اپنی ہزارہا کمزوریوں کے باوجودپاکستان
کچھوے کی چال چل کر ایک ایسے مقام پرجاکھڑا ہوا جہاں دنیا اب اس ملک کو
واحد مسلم ایٹمی طاقت کی حیثیت سے جان رہی ہے۔حتی کہ اب امریکی تھینک ٹینک
کا دعوی ہے کہ پاکستان اگلے چند سا لوں تک دنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی طاقت
بن جائے گا۔ امریکیوں کے اس دعوے کے مطابق پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی
تعداداگلے دس برسوں میں 113 سے بڑھ کر 1250 تک پہنچ جائے گی۔ گویا جس
پاکستان کے عدم استحکام اور ناکام ریاست ثابت ہونے کے لئے دن گنے جا تے رہے
ہیں ، اس نے اپنے قیام کے بعد چھ دہائیوں میں نہ صرف اپنے وجود کا لوہا
پوری دنیا سے منوا لیا ، بلکہ ایک ایسی طاقت کے طور پر بھی ابھر کرسامنے
آگیا جس پر براہ راست کوئی حملہ آور ہونے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ فوجی
وعسکری قوت ابھرنے کے ساتھ ہی ساتھ عالمی تجارتی منڈیوں کے لیے پاکستان کی
جغرافیائی پوزیشن ایسی بن رہی ہے کہ سنگاپور، دبئی کی طرح اب مستقبل قریب
کا پاکستان عالمی تجارتی مرکز کے طور پر ابھرکرسامنے آ نے کا امکان روشن
ہورہاہے۔ چین کے اقتصادی رہداری منصوبہ سے پاکستان کی اقتصادی و تجارتی
اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔اس مسلم اکثریتی مملکت کی شکل میں مغرب کا
متبادل ایک ایسا معاشی بلاک وجود میں آسکتا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیاپر
امریکی چودھراہٹ ختم کرنے پر منتج ہو بلکہ خطے کے لیے امن و خوشحالی کے
ساتھ ساتھ مسلم دنیا کو از سر نوجوڑنے کی نوید لے کر بھی سناسکتا ہے۔ مغرب
پاکستان کی اس اہمیت کو بخوبی سمجھ رہا ہے اور اسے چین، روس ، ایران اور
پاکستان کے ممکنہ تجارتی اتحاد کے نتائج کا بھی احساس بھی سکون سے بیٹھنے
نہیں دے رہا ۔ اس لیے پاکستان کو دیگر بہت سارے طور طریقوں سے الجھانے کی
کوششوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کو داخلی وخارجی مسائل و مشکلات کا شکار بنائے
جانے کی ہر ممکن سازشی کاوشیں کی جارہی ہیں۔ امریکہ بوجوہ اپنے اتحادیوں
اور علاقائی حلیفوں کی وساطت سے پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی
کروارہا ہے۔ بلوچستان میں علاحدگی پسندگروپوں کی سرپرستی اسی گیم پلان کا
ایک حصہ ہے۔ افغانستان میں حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف عسکری گروپوں کو
پاکستان کے خلاف محاذ گرمانے کے لیے مالی و عسکری امداد فراہم کرنے کے
علاوہ انہیں تربیت و لاجسٹک سپورٹ بھی اسی بنا پر فراہم کی جاتی ہے۔سب سے
بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر مختلف ریاستی وغیر ریاستی ایکٹروں کو
اپنا معاون و مدد گار بناکر انہیں مملکت خداداد کمزور کرنے کے مشن پر لگا
دیا گیا ہے۔ سیاسی انارکی، اتھل پتھل اور ہنگامہ آرائیوں کے ذریعے سے
پاکستان کی تعمیروترقی اور اس کے عالمی کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں کی
جارہی ہیں ۔ ظاہر ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مترادف اندرون خانہ کی یہی
بے وفا طاقتیں سب سے زیادہ اپنے وطن کونقصان پہنچا سکتی ہیں۔پاکستان کے کئی
سیاسی لیڈر اور میڈیائی شخصیتیں پاکستانی ہوکر بھی امریکہ سمیت بھارت ،
افغانستان کے وکیل بن بیٹھے ہیں۔
بھارت نے نہرو کے زمانے سے کبھی بھی خوش دلی اور نیک نیتی کے ساتھ پاکستان
کو بہ حیثیت ہمسایہ تسلیم کیا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کوئی ایسا موقع ہاتھ
سے جانے دیا جو پاکستان کی سا لمیت اور وجود تک کے واسطے خطرناک تھا۔ سقوطِ
ڈھاکہ بھارت کی عسکری ا ور سیاسی سپورٹ سے ہی ممکن ہوسکا۔ افغانستان کے
راستے پاکستان تحریک طالبان کو مدد وحمایت میں بار بار بھارت کا نام آجاتا
ہے۔ شرم الشیخ میں ایک ملاقات کے دوران اس وقت کے وزیراعظم یو سف رضا
گیلانی نے اپنے ا س وقت کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ا س بارے
میں باضابطہ دستاویزی ثبوت فراہم کئے ۔ دنیا کے ہر فورم پر بھارت نے
پاکستان کی مخالفت کرتا رہاہے۔ بالخصوص 9/11 کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے
خلاف جنگ کے نام سے دلی کے ہاتھ ایسا ہتھیار لگ گیا جسے اس ملک نے بڑی
مہارت سے استعمال میں لاکر پاکستان کو عالمی فورموں پر شدید دھچکوں سے
دوچار کردیا۔ حکومت ہند کی داد دیجئے کہ اس نے انڈو پاک ایجنڈے میں سر
فہرست دہشت گرد ی رکھ پر اصل اور مرکزی مسائل سے جزوی طوردامن چھڑالیاہے ۔
بھارت کے ان عزائم کا امریکہ بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں لگا
ہوا ہے۔ چونکہ انکل سام چین کی ترقی اور طاقت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے
لیے ہرا وچھاطریقہ اختیار کرتاجارہا ہے ۔ ماضی میں پاکستان کو جس طرح سودیت
یونین کے خلاف استعمال کیا گیا ، آج اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کو
سبو تاژ کرنے کے لیے بھارت کو پاکستان اور چین کے خلاف مہرے کے طور پر
استعمال کیاجارہا ہے۔امریکہ گزشتہ ایک دہائی سے بھارت کے کافی قریب آگیا ہے،
یہاں تک کہ دونوں ممالک میں عالمی قوانین کو طاق ِ نسیاں میں رکھتے ہوئے
نیوکلیر معاہدہ ہوا ہے، فوجی اور تجارتی تعاون بڑھایا جارہا ہے اور پاک
بھارت کے درمیان متنازعہ مسائل میں امریکہ اور اس کے اتحادی بھارت کے پلڑے
میں اپنا وزن ڈال کر پاکستان کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کررہے
ہیں۔امریکہ کی کبھی بھی یہ نیت ہی نہ رہی کہ دلی اور اسلام آباد کے مابین
تمام حل طلب مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر حل ہوجائے کیونکہ اگر ایسا کبھی
ہوجاتا ہے تو دونوں ممالک کے اندرونی مسائل میں امریکہ کوٹانگ اڑانے کا
موقع میسر نہ ہوگا ۔یہ تو مسئلہ کشمیر اور دیگر مسائل ہی ہیں جن کی آڑمیں
دونوں ممالک کو ہانک کر یہ اپنا الو سیدھا کرنے کی تاک میں لگارہتاہے۔یہ
امریکی مفادات اور ان کی کارستانیوں کا ہی کمال ہے کہ ہند پاک سیاسی لیڈروں
کا مزاج سال کے موسموں کی طرح تبدیل ہوتارہتا ہے۔وائٹ ہاوس میں بٹن دب جانے
سے کبھی دونوں ممالک کی فوج سرحدوں پر ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے آجاتی
ہے تو کبھی بیرونی ممالک کی کانفرنسوں کے دوران دونوں ممالک کے سربراہ ایک
دوسرے سے گلے مل جاتے ہیں،کبھی دہشت گردی کا بہانہ بناکر بات چیت سے صاف
انکار کیا جاتا ہے تو کبھی پاکستان کے ساتھ خراب تعلقات کی ترقی کی راہ میں
رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔یہ امریکی عیاری کاہی کمال ہے کہ پاکستان کے ساتھ
تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے ہمیشہ شدت پسند رہنے والی مودی سرکار راتوں
رات اپنا لب و لہجہ اس قدر نرم کرتی ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار بھی حیران و
پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا جادوہوا۔حالانکہ یہ بات چیت تعلقات کی استواری
کا سوانگ نہ برصغیر میں قیام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتاہے اور نہ
ہی ہند و پاک کے درمیان دیرینہ حل طلب مسائل حل کرسکتاہے کیونکہ اس کے
پیچھے نہ خلوص نیت ہے اور نہ برصغیر کے کروڑوں عوام کی امن آرزوں کا کوئی
عمل دخل ہے۔ یہ دو طرفہ ٹیبل بیرونی دباو یا ڈکٹیشن پر میں سجائے جاتے ہیں
اور الٹے بھی جاتے ہیں۔ ایجنڈا وہاں سے طے ہوکر آتا ہے اور ہندپاک کے سیاست
دان شطرنج کے مہروں کی طرح اپنی مرضی سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ اپنی مرضی
سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں کیونکہ ان کا ریموٹ کنڑول واشنگٹن کے پاس موجودہو تو
یہ وہی کہاوت ہوئی کہ دو بلیوں نے ایک بندر کو روٹی کی تقسیم پر مامور کیا۔
واشنگٹن جس طرح سے بھی اس سیاسی گیم پلان کو کھیلانا چاہے گا، کھیل سکتا ہے
اور یہ واضح رہے کہ اس کا مفاد مسئلہ کشمیر حل ہونے میں نہیں بلکہ اسے
زیادہ سے زیادہ الجھانے سے وابستہ ہے۔اس لیے ماضی کی طرح کسی بھی سطح کی
ہند پاک بات چیت محض تماشہ ہی ثابت ہونی ہے۔ اس لئے کوئی خوش امید ی اور
خیر مقدمی بیانات کی ضرورت ہے اور نہ ہی واہ واہی کرکے لوگوں کو بے وقوف
بنایا جاسکتا ہی سوائے ا س کے کہ بیان برائے بیان داغنے والے چالاک لوگوں
کی روزی روٹی چلتی رہے-
ماہ دسمبر میں ہی بھارت پاکستان کے وزرائے اعظم کی مختصر ملاقات پیرس میں
منعقد ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر ہوئی۔ اس کے فورا بعد
یہ انکشاف ہوا کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی مشیران نے بھی ایک دوسرے کے
ساتھ بنکاک میں طویل بات چیت کی۔پھر اچانک پاکستان میں منعقد ہونے والیقلب
ایشیاء کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج اسلام
آباد پہنچ جاتی ہیں اور اعلان کیا جاتا ہے کہ بھارت پاکستان دوطرفہ بات چیت
کا آغاز از سر نوکیا جائے گا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہندوستانی
پارلیمنٹ کو اپنے دورے کی تفصیلات دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ
دہشت گردی اور کشمیر سمیت دیگر متنازعہ مسائل پر بات چیت ہوگی۔اس برس روس
کے شہر اوفا میں نواز شریف اور مودی کے درمیان ملاقات ہوئی اور اس بات کا
فیصلہ لیا گیا کہ مسائل کے حوالے سے گفت و شنید شروع کی جائے گی۔ خارجہ
سیکریٹری سطح کی بات چیت کا آغاز ہونے سے پہلے ہی بھارت نے اس وقت اس سے
انکار کردیا جب پاکستان نے حریت لیڈران کو دلی آنے کی دعوت دی۔بھارت نے
حریت سے پاکستانی عہدیداروں کی بات چیت کابہانہ بناتے ہوئے اس سلسلہ کو
دفعتا منقطع کردیا۔اب چند ہی ماہ بعد پھر سے بات چیت کا ڈھول پیٹا گیا اور
لب و لہجے کا انداز ایسا ہے کہ شاید کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہے ، پھر
اچانک کچھ ہوگا کہ ا س کا بریک ڈاو ن ہوگا۔ حاصل زیرو، البتہ پردے کے پیچھے
جو ہاتھ اس مشق کے لیے دونوں ممالک کو آمادہ کررہے ہیں ان کے مفادات کی
ہانڈی بھر دی جائے گی۔ایک بات طے ہے کہ برصغیر میں قیام امن کا خواب اس وقت
تک کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا جب تک کہ کشمیر حل نہ ہوگا
۔ مسئلہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے اہم اور بنیادی فریق
کشمیری ہیں۔ کشمیریوں کے بغیر اس مسئلے کو حل کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی
گئیں، وہ ناکام ثابت ہوئیں۔پاکستانی حکمران آج کے مخصوص حالات میں بیرونی
دباو کو ٹالتے ہوئے اگر کشمیر کو سائڈ لائن کرکے دوسرے ایشوز پر بات چیت کے
لئے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں تو نتیجہ ہر صورت میں دلی کی سیاسی وسفارتی جیت
میں برآمدہوگا۔ بھارت نام نہاد دہشت گردی کی بات چیت سے پاکستان میں مذہبی
جماعتوں پر لگام کسنا چاہتا ہے جس طرح بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے خلاف
اقدامات کرائے جاتے ہیں۔ نیزبھارت پاکستان کے راستے سے سنٹرل ایشیاتک پہنچ
جانا چاہتا ہے۔ ایران بھارت گیس پائپ لائن ہندوستانیوں کا دیرینہ خواب ہے۔
مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت کریں گے لالی پاپ پاکستانیوں کے منہ میں رکھ کر
بھارت پاکستان سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ تجارتی اعتبا ر سے
بھارت پاکستان کے لیے زیادہ نفع بخش نہیں ہے۔الغرض اگر پاکستان کشمیر پر
کمپرومائز کرکے اس دیرینہ اور بنیادی مسئلہ کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور
امریکی دباو میں بھارت کے ساتھ دوسرے مسائل پر بات چیت کرتا ہے تو مطلب یہ
ہوگا کہ بھارت کو جیت کا موقع دے کر پاکستان اپنی دہائیوں کی محنت اور اہل
کشمیر کی قربانیوں پر پانی پھیر دے گا۔حیران کن امر یہ ہے کہ بعض لوگ پاک
بھارت بات چیت پر بغلیں بجارہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ غو ر سے دیکھتے تو سمجھ
جاتے کہ اس پوری مشق میں کشمیر یوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔بر تھ ڈے ڈپلو
میسی پر ز یا دہ خو ش ہو نے کی ضرورت نہیں اس میں پا کستان کا نہیں دو بڑوں
کا ہی مفا د نظر آ ر ہاہے۔ |