اکھنڈ بھارت کا خواب یا ایک خوفناک سازش

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیکریٹری جنرل رام مدھیو نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی اس دیرینہ خواہش او ر خواب کا اظہار کیا ہے کہ ایک دن بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان پھر متحد ہو جائیں گے اور دنیا کے نقشے پر ایک مرتبہ پھر اکھنڈ بھارت ابھرے گا۔ رام مدھیو بھارتی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کی نیشنل ایگزیکٹو ممبر بھی ہیں اور پارٹی کے سابق ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔بھارت میں اکثر انتہا پسند ہندو اسی سوچ کے حامی ہیں اور وہ اپنی اس سوچ کا اظہار کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں۔انتہا پسند ہندو جماعت آر ایس ایس کی طرف سے اکھنڈ بھارت کا نعرہ اور خواب بھی بہت پرانا ہے بلکہ اس خواب نے انتہا پسندوں کی آنکھوں میں اسی روز سے چکاچوند کرنا شروع کر دیا تھا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ در اصل اکھنڈ بھارت کا خواب اس امر کی بھی غمازی کرتا ہے کہ بھارتی انتہا پسندوں نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کی تخلیق میں بھارت نے نمایاں بلکہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا اعتراف موجودہ بھارتی وزیراعظم گزشتہ دنوں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کر چکے ہیں ۔ دوسری طرف یہ بھی کڑواسچ ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد اسے اپنے ملک کا ہی حصہ سمجھا ہے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کا پاکستان کے خلاف رویہ اس سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ بنگلہ دیش اب محض ایک علامت کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے،تاہم عملاً وہ بھارت کا ہی حصہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ موجودہ بنگلہ دیشی حکومت ہر وہ کام کرتی ہے کہ جو بھارت کو پسند ہو اور ہر وہ عمل کرتی ہے کہ جس سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو اوربین الاقوامی سطح پر پاکستان متاثر ہو۔ لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ بنگلہ دیشی اپوزیشن کی سوچ حکمراں جماعت سے بہت مختلف ہے اور وہ کسی طور بھی بھارت کی ریاست بن کر یا بھارت کا دست نگر بن کر نہیں رہنا چاہتی۔اکھنڈ بھارت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھارتی انتہا پسند ہندو وقتاً فوقتاً اپنے نظریات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اورسازشی انداز میں جہاں موقع ملے اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔بھارت جو اب ایک ارب بیس کروڑ نفوس کا ملک ہے اس میں انتہا پسند ہندوؤں کی تعداد5 فیصد سے زیادہ نہیں لیکن جب دوسرے ممالک کی خود مختاری تسلیم نہ کرنے اور دوسرے ملکوں کو اپنے ملک کا حصہ بنانے کی بات ریاست یا حکومت کی سطح پر سامنے آنے لگے تو پھر ان تمام ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے کہ جن کیلئے اسطرح کے عزائم کا اظہار کیا جائے۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما مسٹر رام مدھیو نے الجزیرہ کو دیئے گئے انٹرویو میں اکھنڈ بھارت کی بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اکھنڈ بھارت کی تکمیل باہمی رضا مندی سے ہو گی اور اس کے لئے کسی جنگ و جدل کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اس کے با وجود ایک ایسے ماحول میں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی امید بن چلی ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ’’اچانک‘‘ دورہ پاکستان کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ کی 15 جنوری 2016 کو پاکستان آمد کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے ، اس ماحول میں حکمراں جماعت کے سیکریٹری جنرل کی طرف سے اکھنڈ بھارت کی بات آنا سب کوبہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بھارت کہ جہاں کم از کم29چھوٹی بڑی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی اور سماج اور سیاست میں برابر کا حصہ نہ ملنے پر درجنوں قومیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہوں تو وہاں کی حکمراں جماعت کے سیکریٹری جنرل کواکھنڈ بھارت کی بات پی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ کو مزید تقویت دیتی ہے اور پاکستان کو نریندر مودی سے خیر کی توقع نہ رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت میں جاری 29 سے زائد آزادی کی تحریکوں کو بھارت ریاست اور حکومت نے طاقت کے زور پر دبایا ہوا ہے اور زبردستی اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے لہذا اس صورت حال سے جڑا ایک سوال ہر وقت موجود رہے گاکہ بھارتی حکومت طاقت اور بندوق کے زور پر کب تک آزادی کی تحریکیں چلانے والی قوموں کو یکجا ر کھ سکے گی؟ پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے اعلان کے موقع پر اکھنڈ بھارت کے خواب کی تجدیدی اعلان در اصل ایک سازش ہے جس کے تانے بانے بننے میں انتہا پسند ہندو ہر وقت مصروف رہتے ہیں اور پاکستان اور کبھی کبھی بنگلہ دیش کی خلاف بھی زہر اگلنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ایک ایسے ماحول میں کہ جب دنیا میں اقتصادی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات ہو رہی ہو اکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا عجیب بلکہ نا قابل قبول اور نا ممکن نظر آتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنے چاہیے کہ سازش کرنے والے ہر ماحول کوسازش کے پتے پھینکتے رہتے ہیں اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لہذا پاکستان کے ریاستی اداروں اور حکومت کی ہر صورت سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور نریندر مودی اگر اچانک مذاکرات کے لئے تیار ہو گئے ہیں لیکن ان کے اس اچانک ’’یو ٹرن‘‘ کا باریک بینی سے تمام پہلوؤں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے یعنی ’’بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہیــ‘‘۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68410 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.