’’اب تو یہ آنا جانا لگا رہے گا‘‘وزیراعظم نریندر مودی
نےیہجملہ کس کس سے کہا یہ شمار کرنا تو مشکل ہے مگر آخری بارجس کوکہا اسے
سب جانتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشیل میڈیا پر ایک کارٹون چل پڑا تھا جس میں
اوبامہ کومودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوتن سےیہ کہتے دکھایا گیا تھا کہ
خبردار اس آدمی سے ہوشیار رہنا۔ یہ تم کو اپنے ملک میں آنےکی دعوت دے گا
اور اگر جواب میں تم نے بھی تکلفاً اسےاپنے یہاں بلا لیا تو فورا بوریا
بستر باندھ کر آدھمکے گا۔ یہ لطیفہ یوں ہی نہیں بنا۔ مودی جی پہلی مرتبہ
بن بلائے ہی جرمنی پہنچ گئے تھے مگر انجیلا مرکل ان سے جان چھڑا کر ورلڈ کپ
دیکھنے کیلئےبرازیل چلی گئیں۔ غیر ملکی دوروں کایہ سلسلہ سلور جوبلی منا
چکا ہے مگر اس کی کیفیت میں ہنوز کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ۔ مودی جی کا
سنکٹ وموچن منجن غیر ملکی سفر ہے ۔ دہلی کی شکست کے بعد اپنا غم غلط کرنے
کیلئےوہ سیشلیس نامی نامعلوم جزیرے سے ہوکر ماریشس پہنچے اور سری لنکا سے
ہوتے ہوئے واپس آگئے ۔ بہار کی ہار کے بعد برطانیہ کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔
اب جبکہ کیرتی آزاد نےان کے منظور نظر ارون جیٹلی کی گردن دبوچ لی تو مودی
جی نے روس کی طرف راہِ فرار اختیار کی۔ اس کےبعد جب دادری معاملے کی فردِ
جرم داخل ہونے کا وقت آیا جس میں بی جے پی کےمقامی رہنما کا بیٹا اور
بھتیجا دونوں نامزد ہیں تو وہ افغانستان کی پناہ میںروپوش ہوگئےاورسجن ّجندل
کی احسانمندی میںپاکستان ہوتے ہوئے لوٹے ۔
پولس والوں کو جب کسی جرم کا سراغ نہیں ملتا تو وہ اس سوال پر غور کرنے
لگتے ہیں کہ اس سے کس کو خطرہ تھا یااس میں کس کا فائدہ ہے ؟ اسی طرح ذرائع
ابلاغ کے کاغذی رہنماوں کی خبروں کے پس پردہ ان واقعات کو تلاش کرنا ضروری
ہوتا ہے کہ جو خبر بن کرانہیں نقصان پہنچاسکتے تھے ۔ اس منطق کا اگر حالیہ
واقعات پر انطباق کیا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی نے کانگریس کو
ایوان بالا میں راہ پر لانے کیلئے نیشنل ہیرالڈ کا قضیہ اچھال دیا لیکن ان
سے غلطی یہ ہوگئی کہ انہوں نے اسی دوران کیجریوال پر بھی ہاتھ ڈال دیا جبکہ
اس کی فی الحال ضرورت نہیں تھی ۔ کانگریسی تو خیر بیان بازی سے آگے نہیں
بڑھے لیکن کیجریوال چونکہ سیاست سے پہلے ایک احتجاجی تحریک کے کارندے ہیں
اس لئے انہوں نے اپنی مدافعت کے بجائے الٹا بی جے پی پر ہلہّ بولتے ہوئے
ارون جیٹلی کو نشانے پر لے لیا ۔ اس سے کانگریس کا بھلا ہوگیا عوام یہ
سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ بی جے پی اپنے مخالفین کو بدلے کی نیت سے بلاوجہ
پریشان کررہی ہے ۔
دہلی سرکار کےڈی ڈی سی اے بدعنوانی کی تفتیش کے فیصلے پرارون جیٹلی کی بے
چینی نے ثابت کردیا کہ دال میں کالا ہے۔کیجریوال پر چونکہ ان کا زورنہیں
چلتاتھا اس لئے دس کروڈ کی ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک کر ڈرانے دھمکانے کی
کوشش کی گئی اور کیجریوال کا نزلہ کرکٹ کھلاڑی اور بی جے پی کے رکن
پارلیمان کیرتی آزاد پر اتارا گیا۔ کیرتی آزاد کا مطالبہ نیا نہیں ہے
بلکہ گزشتہ دس سالوں سے وہ یہ الزام لگا رہے ہیں لیکن کانگریس نے انہیں نظر
انداز کررکھا تھا ۔ کیرتی آزاد کی حمایت میں پہلے تو شتروگھن سنہا آئے
اور اس کے بعد سبرامنیم سوامی بھی آگئے۔ سوامی جی اپنی عمر کے اس آخری
پڑاؤ میں کسی سرکاری عہدے کیلئے ہاتھ پاوں ماررہے ہیں ۔ پہلے تو انہیں
امید تھی کہ اگر وزیرخزانہ نہ سہی تو کم از کم وزیر مملکت کا قلمدان ہاتھ
آجائیگا لیکن جب وہ بھی نہیں ملا تو مایوس ہوگئے ۔ اس کے بعد جے این یو کے
وائس چانسلر کا جھنجھنا دکھا کر انہیں بہلایا گیا مگر پھر ٹھینگا دکھا دیا
گیا۔ ایسے میں سوامی کو لگا کہ اگر جیٹلی کی چھٹی ہو جائے تو ان کے وارے
نیارے ہوسکتے ہیں اس لئے وہ آزاد کے حامی بن گئے ۔
ارون جیٹلی ایک زمانے میں وزیردفاع اور وزیر خزانہ دونوں عہدوں پر فائز تھے
بعد میں ان سے وزارتِ دفاع کا قلمدان لے کر منوہر پریکر کو دے دیا گیا اور
اب حزب اختلاف کی جانب وزارت خزانہ سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا جارہا تھا
اس لئے جیٹلی کی پریشانی بھی بجا ہے۔بی جے پی نےاول توکیرتی آزاد کو بھی
شتروگھن سنہا کی طرح نظر انداز کیا مگر جیٹلی نے اسے وقار کا مسئلہ بنا لیا
۔ کیرتی آزاد نے جیٹلی پر باقائدہ الزام تراشی کرنے کے بجائےصرف بدعنوانی
کی بات کی تھی اس کے باوجود جیٹلی نے امیت شاہ سے کہہ دیا کہ اگر آزاد کو
پارٹی سے نہیں نکالا جاتا تو وہ وزارتِ خزانہ کے علاوہ پارٹی کے سارے عہدوں
سے مستعفی ہو جائیں گے۔جیٹلی کی اس دھمکی نے پارٹی صدر اور وزیراعظم دونوں
کو تشویش میں مبتلاء کردیا۔ اس طرح گویاپارٹی کے ایک پروہت نے کالے دھن کے
مرگھٹ پرکیرتی آزادکو بلی کا بکرہ بنادیا ۔بی جے پی اس سے قبل یہی سلوک
رام جیٹھ ملانی اور ارون شوری کے ساتھ کرچکی ہے ۔ ان دونوں کا قصور صرف یہ
تھا کہ انہوں نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر وزیراعظم پر تنقید کی جرأت
رندانہ کا مظاہرہ کیا تھا ۔
کیرتی آزاد کے پروانۂ آزادی پر مہر ثبت کرکے مودی جی روس روانہ ہوئے اور
اُدھر اتر پر دیش کی عدالت میں دادری معاملے کی فردِ جرم داخل کردی ۔اس کے
اندر ۱۵ لوگوں کے نامموجود ہیں اور مزید دو لوگوں کو شامل کیا جانا باقی
ہے۔محمد اخلاق کی بیٹی شائستہ کی شکایت پر جو پورے سانحہ کی چشم دید گواہ
ہے یہ چارج شیٹ تیار کی گئی۔ قاتلوں نے شائستہ کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے
خلاف زبان کھولنے کی غلطی نہ کرے ورنہ اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو اس کے باپ
اور بھائی کا ہوا ہے۔ بزدل قاتل یہ بھول گئے تھے کہ شائستہ مسلمان ہے اور
مسلمان خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ شائستہ نے نہ صرف اپنا تفصیلی بیان
درج کروایا بلکہ ملزمین کی شناخت بھی کرلی ۔ ان میں اہم ترین ملزم بی جے پی
رہنما سنجےرانا کا بیٹا وشال اور بھتیجا شیوم ہے جس نے اپنے جرم اعتراف
کرلیا ہے ۔ وشال نے پولس سے کہا ہےکہ جب اسے یہ خبر دی گئی کہ محمد اخلاق
نے گائے ذبح کرکے اس کا گوشت کھایا ہے تو اس کا خون کھول گیا اور اس نے
مندر سے اعلان کروانے کی بعدہجوم کو جمع کرکےحملہ کردیا۔
اس فردِ جرم کے بعد قوی امکان تھا کہ پھر ایک بار ذرائع ابلاغ میں عدم
برداشت اور نارواداری موضوع بحث بن جاتے۔ اس لئے کہ روس کے اندر وزیراعظم
کااسلحہ خریدنے کے علاوہ جوواحد کارنامہ اپنے ہی ملک کےقومی ترانے کے دوران
چل پڑنا تھا ۔ روسی افسران چونکہ اس کو قومی ترانے کی توہین سمجھتے ہیں اس
لئے انہیں مودی جی کو کندھا پکڑ کر واپس لانا پڑا جو اپنے آپ میں ایک
توہین تھا خیر اس کی ویڈیو کو قومی ذرائع ابلاغ نے خوب اچھالا اور یہ عوام
کی تفریح کا سامان بنی ۔غیر ملکی دوروں پر اس طرح کی دلچسپ حرکات سے مفت کی
تفریح فراہم کرنامودی جی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس پر سوشیل میڈیا میں جو
تبصرے ہوئے وہ بہت دلچسپ ہیں ۔ کسی نے لکھا کہ وزیراعظم اپنے قومی ترانے کو
پہچان نہیں سکے۔ کسی نہ کہا مودی جی کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر قومی ترانہ
بجانے والوں کو اپنا کام بند کردینا چاہئے تھا گویا وہ وزیراعظم کی نہیں ان
لوگوں کی غلطی تھی۔ یا کم ازکم اس افسر کو عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے
بجائےاس معمولی سی غلطی کو برداشت کرکے اسے نظر انداز کردینا چاہئے تھا ۔
شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ وزیراعظم اس سے قبل الٹے پرچم کے ساتھ تصویر
کھنچوا چکے ہیں بلکہ ایک بار اس سے اپنا پسینہ بھی پونچھ چکے ہیں۔
مودی جی کی جلدبازی دیکھ کرروسیوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہوگی کہ انہیں
افغانستان جانے کی جلدیہے۔ ایسے میں ممکن ہے ان لوگوں نے کوی بھرت ویاس کے
انداز میں انہیں سمجھانے کی بھی کوشش کی ہو’’اتنی جلدی کیا ہے گوری ساجن کے
گھر جانے کی، سکھیوں کے سنگ بیٹھ ذرا کچھ باتیں سمجھانے کی ‘‘۔ افغانستان
کے بارے میں روسیوں سے زیادہ کون جانتا ہے اس لئے کہ ان کو افغان مجاہدین
نے جو زخم دیا ہے وہ اسے قیامت تک بھول نہیں سکتے لیکن روسیوں کو کیا پتہ
کہ ہمارے وزیراعظم کے پاس سمجھنے سمجھانے پر ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہے
وہ تو بس ’’کرم کئے جا پھل کی اِچھاّ مت کر انسان ، جیسے کرم کرے گا ویسے
پھل دے گا بھگوان‘‘ میں وشواس کرنے والے بھلے مانس ہیں۔ خیر آگے چل کر پتہ
چلا کہ وزیراعظم ایسے بھولے بھالے بھی نہیں جیسا کہ روسی سمجھتے تھے وہ
افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں اپنے ساجن سے ملنے کیلئے بے چین تھے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ جب وہ اقتدار سے محروم ہوتی
ہے اسے پاکستان وِلن نظر آتا ہے اور جب وہ انتخاب میں کامیاب ہوجاتی ہے تو
پاکستان اچانک اس کا ساجن بن جاتا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب راج ناتھ
سنگھ نے منموہن سنگھ کے یوسف رضا گیلانی سے مصافحہ کرنے پر اعتراض کیا تھا
اور اب یہ حالت ہے کہ معانقہ تو درکنار یہ لوگ قدموں تک کو چوم رہے ہیں ۔
اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کہ جب نواز شریف نے اپنی والدہ کا تعارف
مودی جی سے کرایا تو انہوں نے چرن چھوئے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اٹل جی کے بعد
پاکستان کا دورہ کرنے کا شرف مودی جی کو حاصل ہوا ہے۔ جب کوئی کانگریسی
رہنما پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی بات کرتا ہے تو انہیں سرحدپر بہنے
والا فوجیوں کا لہو یاد آتا ہے۔ ممبئی دھماکے ، کارگل کی فوج کشی، تاج کی
دہشت گردی اور ایوان ِپارلیمان پر حملہ نظر آتا ہے لیکن جب وہ خود پاکستان
سے پینگیں بڑھاتے ہیں تو انہیں اکھنڈ بھارت کے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
یہ لوگ ٹائگر میمن ، داؤد ابراہیم، حافظ سعید اور ذکی الرحمٰن لکھوی وغیرہ
کی پاکستان میں موجودگی کو یکسر فراموش کردیتے ہیں ۔ نام نہاددہشت گردی کی
کمین گاہ یکلخت ان کیلئے امن کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔
بی جے پی کیلئے پاکستان دشمنی ایک انتخابی ضرورت ہے اسی لئے انتخاب سے قبل
پاکستان کو اس کی اپنی زبان میں جواب دینے کی وکالت کرنے والے مودی جی کو
اپنی حلف برداری میں مہمان خصوصی کے طور پر سب سے پہلے نواز شریف کا خیال
آتا ہے ۔ اس کے بعد جموں کشمیر میں انتخاب کے وقت اچانک سرحد پر گولہ باری
تیز ہوجاتی ہے۔حریت سے پاکستانی سفارتکار کی ملاقات کو وقار کا مسئلہ بنا
کر مذاکرات منسوخ کردئیے جاتے ہیں۔ بہار کے انتخاب سے قبل کشمیر پر بات چیت
نہ کرنے کی شرائط ڈال کر کڑا رخ اختیار کیا جاتا ہے اور بہار میں بی جے پی
کی شکست پر پاکستان میں دیوالی منائے جانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے
بعد موسم کے بدلتے ہی گرگٹ اپنی جلد کا رنگ تبدیل کردیتا ہے۔ ایک خبر تو یہ
بھی ہے کہ نیپال میں سجنّ جندل کے کمرے میں ملاقات کے دوران مودی جی نے خود
یہ کہا تھاکہ جموں کشمیر کے انتخاب کے باعث وہ کوئی اہم پیش رفت نہیں
کرسکتے نواز شریف نے بھی فوج کے دباو کا ذکر کرکے وقت مانگا ۔ خیر اب ممکن
ہے آئندہ سال پنجاب کے انتخاب تک یہ خوشگوار ماحول رہے اس کے بعد کیا ہوگا
یہ کہنا مشکل ہے؟
پاکستان کے حوالے سے مودی جی نہ صرف داخلی دباو بلکہ خارجی خوشنودی کے پیش
نظر بھی بیان بازی کرتے رہے ہیں مثلاً بنگلہ دیش کے اندر عوامی لیگ کو خوش
کرنے کیلئے انہوں نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یمن کے بعد چونکہ
امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اس لئے دبئی کے اندر بھی
مودی جی نے پاکستان کے خلاف خوب زہر افشانی کر کےمقامی حکمرانوں کی خوش
کردیا ۔ افغانستان کے اندر بھی وہ بلاواسطہ پاکستان کو برا بھلا کہنے سے
نہیں چوکے مگر اس کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان میں جاکر’’ملے سرُ میرا
تمہارا‘‘ کا راگ الاپنے لگے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی کرنا تھا وہ درمیان
میں اس ناٹک کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر یہ ڈرامہ ہے تو حقیقت کیا ہے؟اس سے
اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی نوٹنکی سے مستحکم بنیادوں پرہمسایہ ممالک
کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار ہوسکتے ہیں؟ کیامل جل کرسالگرہ کا کیک کاٹنے
سے دل بھی آپس میں مل جاتے ہیں ؟ اگر یہ کام اسی قدر آسان ہے تو مودی جی
کیرتی آزاد، رام جیٹھ ملانی اور ارون شوری کے ساتھ سالگرہ کیوں نہیں مناتے؟
ویسے بہار کے انتخابی نتائج والے دن لال کرشن اڈوانی کے ساتھ مودی جی نے یہ
حربہ آزمانے کی کوشش تو کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔
اڈوانی جی فی الحال اپنے دیرینہ شاگرد ِ رشید ارون جیٹلی کے بجائے ان کے
دشمن کیرتی آزاد کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
پاکستانی دورے کے متعلق یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ
فیصلہ اچانک ہوگیا تھا حالانکہ یہ بالکل بچکانہ بات تھی ۔ اخبار جنگ نے یہ
راز فاش کردیا کہ لاہور ہوئی اڈے کو ایک دن قبل ہی پروازوں کی تحدید کے
احکامات جاری کردئیے گئے ۔ اس کے علاوہ مودی جی نواز شریف اور ان کے اہل
خاندان کو جو نواسی کی شادی کے موقع پرجو تحفے تحائف دئیے ان کا اہتمام
فوراً کیوں کر ہوسکتا تھا ؟ یہ حسن اتفاق ہے کہ شام۴ بج کر ۲۰ منٹ پر جب
مودی جی کاجہاز لاہور ہوائی اڈے پر اترا توگھڑی کے کانٹے اس من گھڑت کہانی
کی چارسوبیسی پر مسکرا رہے تھے۔ اب تو یہ بات تھیلے سے باہر آگئی ہے کہ
ہندوستانی فولاد بنانے والےصنعتکاروں کاایک ادارہ افغان آئرن اینڈ اسٹیل
کنسٹوریم بامیان (افغانستان )سے معدنیات درآمد کرتا ہے ۔ اس میں سجنّ جندل
نامی سرمایہ دار کے ۱۶ اور اس کے عم زاد بھائی کے ۴ فیصد حصص ہیں ۔ یہ لوگ
فی الحال روس کے راستے اپنا مال لاتے ہیں لیکن اگر یہی فراہمی پاکستان کے
راستے کراچی سے ہونے لگے تو وقت اور سرمایہ کی بڑی بچت ہوسکتی ہے ۔ نواز
شریف چونکہ خود بھی فولاد کے بہت بڑے تاجر ہیں اس لئے جندل سے ان کے
خاندانی مراسم ہیں اسی لئے جندل کی تحریک پر مودی جی نے پاکستان جانے کا
قصد فرمایا۔
وزیراعظم کاکھل کر اڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ داروں کو طرفداری کرنا ان
کے عہدے کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔ اس پرجہاں حزب اختلاف کو اعتراض ہے وہیں
عام لوگوں کو بھی تشویش ہے ۔ لیکن اپنی دیش بھکتی پر ناز کرنے والی بی جے
پی کے نزدیک یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ ویسے تو بی جے پی معاشی شعبے کے
سربراہ نریندر تنیجا اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنی ملاقات
طے کرنے کیلئے کسی تاجر کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے وزیراعظم براہ راست
نواز شریف سے بات کرسکتے ہیں اور حال میں دونوں سربراہ پیرس میں مل بھی چکے
ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ تنیجا نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس دور میں ۲۰۰۰ کے
کارگل کے زمانے کی سفارتکاری ممکن نہیں ہے ۔ آج کل ۸۰ فیصد سفارتکاری کا
فیصلہ تاجر حضرات کرتے ہیں ۔ تنیجا کے مطابق تجارت و حرفت کو مرکزی حیثیت
حاصل ہو گئی ہے اور مودی اس خیال کے بہت بڑے حامیہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سجنّ
جندل دہلی میں نواز شریف کو چائے کی دعوت دیتا ہے ۔ ان کے لڑکے کو اپنے
ساتھ کھانے پر لے کر جاتا ہے ۔ نیپال میں اپنے کمرے کے اندر دونوں سربراہان
کی ملاقات کرواتا ہے اور مودی کی آمد سے قبل لاہور پہنچ جاتا ہے۔ قوم کی
حالت زار پر’’راجہ بیوپاری جنتا بھکاری‘‘کی مثل صادق آتی ہے ۔
گزشتہ انتخابی مہم کے دوران اچھالے جانے والے نعروں میں ’’ اچھے دن‘‘ اور
’’کالادھن‘‘ کے علاوہ ’’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ ضرب المثل بن گئے
تھے۔ یہ تینوں وعدے مودی جی نے ڈیڑھ سال کے اندر پورے کردئیے۔ اڈانی اور
امبانی تو کجا کانگریسی جندل تک کے اچھے دن آگئے۔ کالا دھن جتنا کچھ بھی
واپس آیا عوام کے بجائے بھکتوں میں تقسیم ہوگیا۔ جہاں تک کھانے کھلانے کا
سوال ہے مودی جی نے اپنی پارٹی والوں کو بھی اس کا موقع نہیں دیا بلکہ خود
ہی سب کچھ ہڑپ کرگئے ۔ اس نعرے کے مطابق انسان کھلانے سے پہلے کھاتا ہے اور
چونکہ وزیراعظم سارے سرمایہ داروں کو جی بھر کے کھانے کا موقع فراہم کررہے
ہیں بلکہ عملاً ان کے سرپرست بن گئے ہیں ۔ آسٹریلیا میں انہوں نے اڈانی کو
نہ صرف ٹھیکہ دلوایا بلکہ فوراً سرکاری بنک سےقرض بھی مہیا کروا دیا۔
افغانستان سے معدنیات کابرآمد کرنے والوں کے لئے پاکستان کی راہ ہموار
کردی ۔ تو کیا مودی جی یہ خدمت بلاقیمت کررہے ہوں گے ؟ اگر ایسا ہے تو اس
کے سب سے زیادہ حقدار وہ رائے دہندگان ہیں جنہوں نے انہیں اقتدار کی کرسی
پرفائز کیا ہے لیکن وہ بیچارہ اس کی قیمت تو ادا نہیں کر سکتا نہیں سرمایہ
دار ضرور اس کی بھرپور قیمت چکا سکتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت کی یہی سب سے
بڑی خوبی ہے کہ اس میں سیاستداں ایک سےووٹ اور دوسرے سےنوٹ لے کر خود عیش
کرتا ہے۔ |