خدا کا مذہب امن اور محبت کا مذہب ہے ۔ یہ جو تمہارے دلوں
میں مذہب کے نام پر نفرت بھرتے ہیں ، خدا کے نہیں شیطان کے نمائندے ہیں ،
باچا خان باچا خان عبدالغفار خان کا یہ کہنا تھا۔پاکستان میں جب بد امنی کا
عفریت دیکھتے ہیں تو واقعی نظر یہی آتا ہے کہ یہاں خدا کے نمائندوں کے ساتھ
شیطان کے نمائندوں کی جنگ جاری ہے،پاکستان کو پاکستانی سیاست نے گہنا دیا
ہے۔ سول ہسپتال میں لیاری کی دس ماہ کی بچی اپنے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ
رہی تھی اس کی جسم سے جان نکل رہی تھی اور ارباب اختیار بے شرمی سے کہہ رہے
تھے کہ ہمیں بھٹو فیملی کی زندگی عزیز ہے ، ان کے نزدیک جیسے بسمہ انسان
نہیں تھی ، اس کا باپ ، اپنی لخت جگر کو جیل سلاخوں کی طرح تھامے سیکورٹیز
کی منت سماجت کرتا رہالیکن پاکستان میں منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے آنے والوں
کو اس سے کیا پرواہ کہ روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ خیرات ، کفن اور قبر دے
کر پورا کیا جائے۔؛لیکن جب ہم پی پی پی کی مجموعی سیاسی حکومت کا تجزیہ
کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ہر شہری ہاتھ میں دس ماہ کی بسمہ کا لاشہ اٹھائے
چلا جا رہا ہے لیکن سندھ حکومت کو فکر ہے تو ان لوگوں کی جنھوں نے پاکستان
کو لوٹا ، قومی خزانوں کو اپنی جاگیر سمجھا۔عوامی امانتوں کو اپنا مورثی حق
سمجھا۔تھر کے ریکستانوں میں مرغ مسلم کھانے والے کیا جانیں کہ درد عوام کیا
ہوتا ہے ۔ مولا بخش چانڈیو فرماتے ہیں کہ" بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی
غریب عوام کے حقوق کی جنگ لڑے گی"-۔ عبدل سمیع قائم خانی شکوہ کرتے ہیں کہ
کوئی چانڈیو صاحب سے پوچھے ۔۔۔۔بلاول کو غربت کا پتا ہے کیا ہے ؟۔۔۔اسے پتا
کہ لارکانہ کا مچھر کیسے کاٹتا ہے اور رتو ڈیرو کے نلکے کا پانی کیسا ہوتا
ہے ؟۔۔موٹر سائیکل کا پیٹرول ختم ہوجائے تو اسے لیٹا کر پمپ تل کیسے لیکر
جاتے ہیں ْ۔دادو کی گرمی اور جام شورو کی لو کیسی ہوتی ہے ؟کراچی کی ڈبلیو
گیارہ میں کھڑے ہوکر سفر کیسے ہوتا ہے ؟ اور حیدرآباد کی منی ٹیکسی کا شور
کیسا ہوتا ہے ؟۔
بسمہ اپنے والد کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی توکیا صرف معافی سے کام چل جائے
گا یا پھر یہ قسمت میں لکھا سمجھا جائے گا ۔ پیرآباد کراچی کی آٹھ سالہ
لائبہ کا سینہ گولیوں سے چھلنی آج بھی مجھے نہیں بھولتا کہ وہ توحفظ قرآن
کیلئے گھر سے باہر مدرسے کیلئے نکلی اور لسانیت کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ ماں باپ
کی منتوں سماجت سے مانگی گئی کئی سال بعد پیدا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی
اکلوتی بچی کراچی کے امن کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ جوان توانا ، بوڑھے دہشت گردی
کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ رینجرز کو 30سال بعدسیاسی مصلحتوں سے باہر نکال کر کچھ
کام کرنے کو دیا گیا تو اسے سیاسی بنا دیا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک
جانب کراچی کی مسلح سرکاری پولیس ہے جو ہفتوں ہفتوں چیل چوک لیاری میں داخل
نہیں ہوسکتی تھی تو دوسری جانب رینجرز ہے جس نے اپنی پیشہ وارنہ ذمے داری
پوری کی اور کراچی کو دوبارہ امن لوٹایا۔بذات خود سالوں بعد رات گئے گھر سے
اس طرح نکلا جیسے امن کے عرصے میں نکلتا تھا ۔ نہ کوئی ڈر ، نہ کوئی خوف ،
لیکن اختیارات کی نئی جنگ نے کراچی کو بسمہ بنا دیا ہے ، وہ رحم کی گود میں
تڑپ رہی ہے کہ ایک شخص کو بچانے کیلئے دو کروڑ انسانوں کی زندگیوں کو خطرے
میں مت ڈالو۔ کراچی بسمہ بن کر تڑپ رہی ہے لیکن پی پی پی کا غرور آسمانوں
کو چھو رہا ہے کہ ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دکھائے ۔ پی پی پی سیاسی شہید
بن کر آخر کیا چاہیتی ہے یا سیاسی شہید بن کر کسی نئے این آر اور کی چھتری
میں پناہ لیکر کراچی کو آگ میں مسلسل جھونک کر کیا ملے گا۔ پارلیمنٹ سینٹ
میں پی پی پی اور اے این پی نے واک آؤٹ کیا ۔ ایم کیو ایم غیر جانبدار بن
کر بیٹھے رہی ۔ لیکن کھیل کا دوسرا راونڈ تو ابھی باقی ہے کہ میری ذاتی
رائے کے مطابق متحدہ نے جلد بازی اور جذبات میں کراچی کیلئے ایسے میئر کو
نامزد کردیا ہے ،جو وقتاََ فوقتاَ انتہائی متنازعہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں
، مشرف دور میں بارہ مئی کے واقعے جیسے سانحے اور حال ہی میں انسداد دہشت
گردی کی عدالت سے الطاف حسین سمیت نامزد میئر کے وارنٹ گرفتاری کا جاری
ہونا اور رینجرز کے ساتھ نامزد مئیر کا لب و لیجہ خود متحدہ کیلئے پریشانی
کا سبب بنے گا ۔ عوامی رائے کے مطابق نامزد میئر غصے کے تیز ، متعصب کہلائے
جانے والے متنازعہ شخصیت کہلاتے ہیں۔ان میں سوائے اس بات کی کوئی خوبی نظر
نہیں آتی کہ رینجرز کو قربانی کی کھالوں کا چور کہہ کر کراچی کی فضا کو
مزید پرگندا کردیا ہے ۔ لوگ ابھی تک ان کے شہباز شریف کو مسٹر بین اورلاہور
کے باسیوں کے متعلق قابل اعتراضات جملوں کو نہیں بھولے ۔نامزد مئیر متوازن
اور تحمل مزاج شخصیت کی حامل نہیں ہیں۔ حالاں کہ وہ معافی مانگ چکے ہیں ،
لیکن کمان سے نکلاتیر اور زبان سے نکلے الفاظ واپس نہیں آتے ۔ اب بھی وقت
ہے کہ متحدہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ،ایک نیا ڈاکٹر عشرت
العباد پیدا کرنے کے بجائے متحدہ میں ایسی تحمل اورقابل شخصیات کی کمی نہیں
ہے جو شہر کراچی میں مصطفی کمال سے بڑھ کر کام کرسکے لیکن رینجرز کے ساتھ
براہ راست محاذ آرائی کے مقاصد سے کراچی میں مزید مشکلات بڑھیں گی ۔ ہمیں
کراچی کا امن عزیز ہے ۔ ہمیں متحدہ کا مینڈیٹ تسلیم ہے ، اس سے انکار نہیں
، لیکن کراچی اس وقت لاچار باپ کی گود میں بسمہ کی طرح بے یار ومددگار ہے ،
مداوے کا وقت ہے محاذ آرائی میں ضائع نہ کیجئے کیونکہ یہ ہم سب کا کراچی ہے
۔ صرف مئیر ہی نہیں کراچی بھی سب کا ہونا چاہیے۔ |