پاکستانی سیاست کے چارستون،جمہوریت، آمریت، شہادت،اورکرپشن .....؟؟

اِس سے انکار نہیں کہ دنیا میں پیداہونے والا ہر اِنسان پیدائشی طور پر روتاہواتو پیداہوتاہے مگر درحقیقت اﷲ رب العزت اُسے دنیا میں امن وآشتی کا پیامبر بناکر بھیجتا ہے اِس سے یہ تو واضح ہواکہ اِنسان پیداہی زمینِ خداپرامن اور سکون اور بھائی چارگی پھیلانے کے لئے آیاہے وہ تو زمانے ،تہذیب اور معاشرے ایسے کے حالات پیداکردیتے ہیں جو اِسے کہیں کاکہیں لے جاتے ہیں اور اِس کی شخصیت جن بنیادں اور ستونوں پر قائم ہوتی ہے وہ اِنہی سے اپنی پہنچان بنالیتاہے۔

یہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرناہوگا کہ جس طرح دنیا کی بلندو بالا عمارتوں کا وجود مضبوط ستونوں پرقائم رہتاہے اور یہی ستون برسوں عمارتوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر برداشت کئے رکھتے ہیں یوں عمارتیں اور ستون ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہوتے ہیں اِس طرح جب تک دونوں اپنے باہمی اتفاق اور اتحادسے اپناوجودزمین پر قائم رکھتے ہیں یہ اقوام عالم کے لئے کارآمدثابت ہوتے ہیں اور عالمِ انسانیت کو اپنے فیض سے مستفید کرتے ہیں۔

یکدم اِسی طرح68سالوں سے میرے دیس پاکستان کی سرزمین پر ماضی میں جتنے بھی سیاستدان آتے رہے ہیں، اور جوابھی ہیں اوراِسی طرح مستقبل میں جتنے بھی آتے رہیں گے یہاں اِن سب میں ایک بات اور ایک نکتہ یہ ضرور مشترک ہے کہ اِن سب نے ہی اپنی عوامی خدمت اور مُلکی تعمیر وترقی کی سیاست سے لے کراپنی حقِ حکمرانی تک جو عمارت تعمیرکی ہے اِنہوں نے اِس عمارت کواپنے ہی بنائے ہوئے چارستونوں جن میں ’’جمہوریت، آمریت، شہادت اور کرپشن یا کمیشن و پرسنٹیج‘‘ شامل ہیں اِن پر قائم رکھاہواہے ۔

اَب آپ کو میری یہ بات بھی ضرور تسلیم کرنی ہوگی کہ میرے مُلک کے سیاست دان دعوے تو عوامی خدمت اور خوشحالی اور مُلکی تعمیر وترقی کے بہت کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ سرزمینِ پاکستان کے سیاستدانوں کے یہ دعوے ہمیشہ محض دعوے ہی رہے ہیں آج اگر یہ اپنے اِس دعوے میں سچے اور مخلص ہوتے تو میرادیس ایٹمی طاقت بن کر بھی توانائی بجلی اور گیس جیسے دیگر بحرانوں کا شکار نہ ہوتااور اِس کے عوام پینے کے صاف پانی، جدیداسپتالوں وجدید طریقہ علاج ، بہترین اور یکساں نظامِ تعلیم، جدید سفری سہولیات اور دیگر بنیادی اِنسانی ضرورتوں اور آسائشوں سے ہرگز محروم نہ رہتے اور پاکستانی عوام کبھی بھی خط غربت سے نیچے نہ ہوتے اور بھوک و افلاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑرگڑ کر اِس طرح تو نہ مرتے جیسے کہ یہ آج مررہے ہیں۔

افسوس ہے کہ میرے مُلکِ پاکستان میں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی ہی فلاح اور بہبود کا سوچا ہے، گزشتہ 68سالوں سے توسرزمین پاکستان کے کچھ مٹھی بھر خاندانوں جن میں مالدار ، زمیندار، جاگیردار، خان، چوہدری، وڈیرے اوربھٹوشامل ہیں اِنہوں نے میدان سیاست میں اپنے جیسے تیسے جتنے بھی جوہردکھائے ہیں اِن سے بھی ساری قوم واقف ہے مگراَب تو پچھلی ایک دودہائیوں سے مُلکی سیاست میں جس طرح شریفوں اور زرداریوں نے قدم رکھاہے یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اور اَب تک کی دونوں کی آپس کی مفاہمتی اور فرینڈلی سیاست سے بھی دنیا اچھی طرح سے واقف ہوچکی ہے۔

اگرچہ ..!! گزشتہ سالوں کے دوران نواز اور زرداری سیاست مُلک اور قوم کے لئے تو اتنی کارآمد ثابت نہ ہوسکی ہے جتنی کہ اِس دوران دونوں نے اپنی سیاست سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایاہے مجھے اِس سے انکار نہیں کہ نوازاور زرداری سیاست نہ صرف مُلک بلکہ خطے کی سیاست کے حوالے سے بھی ایک ایسی سیاست ہے جس کے ثمرات کئی برسوں تک محیط رہیں گے اور اِن کی آپس کی اِس مفاہمتی اور فرینڈلی سیاست کا خمیازہ قوم اور مُلک کو ہی بھگتنا پڑے گااور ایسا اُس وقت تک ہوتارہے گا جب تک صحیح معنوں میں دونوں میں سے کوئی ایک میدانِ سیاست سے کسی بھی سیاسی حربے اور شاطرانہ سیاسی چلوں اور سیاسی پینترے بازیوں سے پوری طرح ناک آؤٹ نہیں ہوجاتاہے۔

آج تب ہی تو شائد کوئی اِس حقیقت سے انکاری ہوکیوں کہ اَب اِس بات اور اِس نکتے کا بڑی شدت سے پی پی پی اور زرداری والوں کوبھی احساس ہونے لگاہے کہ ن لیگ نے میدانِ سیاست سے پی پی پی کو ناک آوٹ کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے کراچی آپریشن جو صرف سندھ اور کراچی میں شروع کیاگیاہے دراصل ’’ اِس نیشنل ایکشن پلان کے اوٹ سے ن لیگ نے سیاسی انتقام کا ایک پلان تیارکررکھاہے‘‘ آج اِس پر خاص طور پر پی پی پی اور اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات کا خام اور قوی خیال یہی بن چکا ہے کہ یہ سب کچھ اِن کے ہی خلاف کیا جارہاہے اَب اکثرمقامات پر یہ شخصیات برملا جس کا ظاہری اور باطنی طور پر کچھ اِس طرح کرنے لگی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی آپریشن کی آڑ میں اصل نشانہ پی پی پی کو ہی بنایاجارہاہے جس کا دوٹوک انداز سے اظہار پچھلے دِنوں27دسمبرکو نوڈیرو میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹونے اپنی والدہ شہید رانی بینظیربھٹوکی آٹھویں برسی کے موقع پربڑے اجتماعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں کیا کہ ’’شہیدبے نظیر بھٹونے جان دیدی مگردہشت گردوں کے سامنے سرنہیں جھکایا‘‘ ’’عوام پوچھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پرصوبوں کی خلاف سازش کب بندہوگی؟یہ وہ نیشنل ایکشن پلان نہیں جس پر سب متفق تھے..!!یہ تون لیگ کا ایکشن پلان ہے...!!؟؟نیشنل ایکشن پلان سیاسی انتقام کے سِواکچھ نہیں...؟؟!!‘‘اِس موقعے پر اِن کا مطالبہ تھاکہ’’ ایکشن پلان کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیشن بنایاجائے ‘‘اِن کا یہ بھی کہنا تھاکہ’’ کیا ماڈل ٹاؤن میں دہشت گردی نہیں ہوئی، چودہ انسانوں کے قاتل کدھر ہیں؟پولیس کس کی آوازپر سہولت کارتھی؟آج پھر سیاسی انتقام کی روایت ڈالی جارہی ہے ، قومی اداروں کو ماں کا زیور سمجھ کر بولی لگائی جارہی ہے،عوام کے معاشی قتل کی اجازت نہیں دیں گے،ہمیں دھمکاکر خاموش نہیں کیاجاسکتا، پارلیمنٹ میں آواز نہ سنی گئی تو عوامی عدالت میں جائیں گے اور پھردمادم مست قلندرہوگا‘‘اِسی طرح وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ ’’ہم ڈرنے والے نہیں ، کوئی سندھ کی طرف آنکھ نہیں اُٹھاسکتا، ایک آدمی جو خود کو چوہدری سمجھتاہے اِس کے فیصلے مسلط نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

جبکہ پی پی پی اور زرداریوں کی اِن ساری باتوں اور دمادم مست قلندر والی دھمکی کا جواب اِس کے اگلے روز کراچی تشریف لا کر وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ایک مقامی ہوٹل میں وفاق ایوانِ ہائے صنعت و تجارت کے تحت منعقدہ39ایکسپورٹ ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں دیاکہ’’ کراچی آپریشن ہم نے شروع کیا، ادھورا نہیں چھوڑیں گے، دہشت گردی کا خاتمہ اور کراچی میں مکمل بحالی امن ہمارامشن ہے، تین سال پہلے کا کراچی دیکھیں اور آج کا فرق نظر آئے گا،ـ صوبائی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں،سندھ میں مداخلت کا تاثر غلط ہے، سندھ حکومت کے تحفظات قانون اور آئین کے مطابق حل کریں گے‘‘ جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ قبل ازیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی کراچی آمدپر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اِن کا استقبال کیا اور اِسی دوران اپنی مختصرترین ملاقات کے دوران ہی وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے شکوہ بھرے انداز سے وزیراعظم نواز شریف سے کہاکہ’’وفاق رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت کے تحفظات کو سُن نہیں رہاہے، اِس موقع پر اِن کا یہبھی کہنا تھاکہ ’’ وزیراعظم صاحب! وفاقی وزیرداخلہ براہ راست سندھ حکومت کے امورمیں مداخلت کررہے ہیں، آپ بھی ہماری نہیں سُن رہے ہیں،اَب آپ ہی یہ بتائیں کہ ہم کیا کریں؟اِس پر وزیراعظم نے صرف یہ کہاکہ’’ آپ اسلام آباد آجائیں مل بیٹھ کرمسئلے کا حل نکال لیں گے‘‘ ۔

اَب ہم دیکھتے یہ ہیں کہ 30دسمبرکو سندھ کے وزیراعلیٰ سیدقائم علی شاہ اسلام آباد جارہے ہیں اِن کے وہاں پہنچنے کے بعد وفاق اور اِن کے درمیان رینجرز اختیارات کا معاملہ کتناسلجھتاہے یا مزید الجھ جاتاہے یہ تو شاہ صاحب کے اسلام آباد پہنچنے اور وہاں سے واپسی کے بعد ہی پتہ چلے گاکہ سندھ اور وفاق کے درمیان متنازع ہوتاہوارینجرز اختیارات کا معاملہ کیسے حل ہوتاہے۔

بہرحال، یہ مسئلہ آج نہیں تو کل کہیں نہ کہیں پہنچ کر توضرورحل ہوہی جائے گا مگر ہمیں اِس حقیقت سے کبھی بھی انکار نہیں کرناچاہئے کہ جب تک سیاستدان اپنی جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچائیں گے اور خود ہی جمہوری دیوی کے پوجاری بنے رہیں گے اور عوام کو یکسر نظر انداز کرکے جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کر جمہوریت کے سارے کا ساراسو فیصد فائدہ اپنے ہی دامن سمیٹتے رہیں گے تو پھر لامحالہ اِنہیں کنٹرول کرنے کے لئے آمرکا ڈنڈاچلے گااور مُلک پر آمریت کے اقتدارکا جھنڈالہرادیاجائے گاپاکستانی قوم یہ بات خوب جانتی ہے کہ دورِ آمریت میں عوام کو روپے میں چارآنے اور آٹھ آنے جتناتو فائدہ ضرورپہنچاتاہے جبکہ دروِ جمہوریت میں عوام کو آٹے میں نمک جتنابھی فائدہ نصیب ہیں ہوتاہے ۔

آج پاکستانی قوم کا ہر فرد اِس سوچ اور فکر میں مبتلاہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوریت کا نعرہ لگاکر سیاست کرتے ہیں اور اقتدار بھی اِسی کے سہارے لے لیتے ہیں مگر جب یہ اِس حد سے بے قابو ہوکر آگے نکل جاتے ہیں تو یہ خود ہی اپنے کرتوتوں اور حرکتوں (جیساکہ اِن دِنوں سندھ میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوابرائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور کرپشن کے بڑھتے ہوئے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے وفاق نے رینجرزکو خصوصی اختیارات دیئے ہیں توکرپشن میں ملوث ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری پر سندھ حکومت سینہ کوبی کرتے اور چیخ چیخ گلے پھاڑتے احتجاج کرتے پھررہی ہے آج اگر یہ معاملہ سیاسی طور پر حل نہیں ہوجاتاہے تو پھرحالات دونوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے) کی وجہ سے آمر کے ڈنڈے اور آمریت کو مسلط کرلیتے ہیں پھر آمر کے ہتھے جو چڑھتاہے آمر اُس کے اعمالوں کی وجہ سے الٹادیتاہے جِسے سیاستدان شہید کا ررجہ دے دیتے ہیں اور پھر شہید کی پارٹی اِس کی شہادت پر اپنا سیاسی قد اُونچے سے اُونچا کرتی چلی جاتی ہے جیساکہ اِن دِنوں مُلکی سیاست میں سیاسی جماعتیں اپنے شہداٗ کے تذکرے کرکرے عوام سے ووٹ لیتی ہیں پھر اِن ہی ووٹوں کی بدولت اقتدار حاصل کرلیتی ہیں یا اقتدار کی کُرسی پر بیٹھ جاتی ہیں اور جب یہ ایسا کرلیتی ہیں تو پھر یہ اور اِن کے سرگرداں لوگ اور وزراء یہی کچھ کرتے ہیں آج جس کرپشن میں ڈاکٹرعاصم حُسین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یعنی کہ ہماری مُلکی سیاست میں یہی وہ چارعناصر ’’جمہوریت، آمریت، شہادت اور کرپشن /کمیشن وپرسنٹیج ہیں جس پر ہماراہر بڑاچھوٹااور پرانااور نیاسیاستدان اپنی سیاست کرتاہے۔
 

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889470 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.