جمہوریت کے نظام میں ووٹ کو ایک مقدس امانت
سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک گواہی کے طور پر لیا جاتا ہے جس پر روز محشر
دامن پکڑنے کی دھمکی بھی دی جاتی ہیں۔ دنیا بھرمیں جمہوریت کے نام پر جو
کچھ ہو رہا ہے اس پر اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتا ، لیکن ماہ دسمبر کا مہینہ
انتخابات کا سال رہا اور میں اپنی ذاتی دلچسپی کے تحت مختلف انتخابات کے
موقع پر بذات خودد ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر نام نہاد جمہوریت کا یہ تماشہ
دیکھتا رہا ۔ بلدیاتی الیکشن میں تقریبا 50سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر گیا
اور ان پولنگ اسٹیشنوں پر بھی گیا جہاں الیکڑونک میڈیا کے پَر جلتے
ہیں۔علاقے کا نام سنتے ہی ان پر ایک ماضی خوف طاری ہوجاتا ہے۔لیکن کراچی کے
جتنے پولنگ اسٹیشن دیکھے وہاں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ کراچی
کے الیکشن شفاف نہیں تھے ، میں باقاعدہ الیکشن کمیشن سے رابطے میں رہا ، بے
قاعدگیوں ، لاقانونیت اور ٹھپے بازی کی تصاویر واٹس ایپ پرمیڈیا اور ارباب
اختیار کو اس قدر زیادہ بھیجیں کہ میڈیا کے احباب کو مجھ سے التجا کرنا پڑی
کہ بس کردو بھائی ، میں نے ان سے کہا کہ مجھے بلاک کردو تاکہ آپ ڈسٹرب نہ
ہوں۔کچھ ناراض بھی ہوئے لیکن میں کئی سالوں بعد جب ایسے علاقوں میں گیا
جہاں صرف بکتر بند گاڑیاں جاتی تھیں تو مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ
رینجرز نے کمال کردہکھایا ہے اور امن اس طرح قائمکیا ہے کہ اگر آپ میں اپنا
ذاتی ڈر نہ ہو تو اب وہ علاقے نو گو ایریا نہیں رہے۔بہرحال بلدیاتی
انتخابات میں سیاست دانوں ، امیدواروں کے جھوٹے وعوی سن سن کر دل چاہا کہ
زمین پھٹ جائے اور زمین مجھے نگل لے ، پیرس بنانے کے دعوے ،پہاڑی پر واٹر
پمپنگ اسٹیشن کے دعوے ، نہ جانے ایسے ایسے دعوے سننے کو ملے کہ اوباما نے
بھی امریکی صدر نے بھی اپنی عوام سے نہیں کئے ہونگے ۔ الیکشن کمیشن مکمل
طور پر غیر فعال رہا ، تھانے فروخت ہوئے اور بد انتظامی کی اتنی بھیانک
صورتحال میں نے ، اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ، بڑے بڑے سیاسی بتوں کو
گرا دیا گیا ۔اختیارات کی جنگ اب شروع ہونے والی ہے۔ متحدہ ایک نئی طاقت کے
ساتھ آئے گی اس بار مسلم لیگ ن نے بھی کراچی میں اپنا حصہ ڈالا ہے اب
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کراچی کے عوام کیلئے وفاق سے کیا حصہ
لاتی ہے۔پی پی پی کا کراچی میں پتہ صاف ہوگیا ہے، میں اکثر مقامی چھوٹے
اشاعت والے اخبارات بغور دیکھتا ہوں کیونکہ اس میں مقامی عہدے داروں کو جگہ
ملتی ہے ۔ ایک مقامی اخبار میں پی پی پی کے عہد داروں کے خلاف ایک دل چسپ
مہم چلی ، مسلسل کئی روز کی اس مہم میں پی پی پی کے کراچی ڈویژن کے جنرل
سیکرٹری سمیت ان کے رفقا کوئی جواب نہیں دے سکے۔جو ثابت کرتے ہیں کہ الزمات
میں سچائی کچھ نہ کچھ ہوگی ، ڈسٹرکٹ کے بڑے عہدے دار نے میرے آگے ہاتھ جوڑے
، کہ قادر بھائی خدا کیلئے اس مصیبت سے جان چھڑائیں ورنہ میں اخبار مالک کو
یونی سینٹر جا کر گولی مار دونگا ، میرے کارکنان اس دفتر پر حملہ کردیں گے
۔ میں نے ان کو دلاسہ دیا کہ بھائی آپ کی پارٹی میں اتنے گروپ ہیں سب ہی
اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں لیکن میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ کوئی آپ کو
پانی چور ، زکوۃچور اور قلفی بیچنے والا نہ کہے ۔بہرحال میں نے اس اخبار کے
ذمے داران سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ کہ یہ پریس ریلیز ہیں اپنی جانب
سے تو نہیں ہم نہیں لکھتے کوئی الزام لگا رہا ہے تو یہ پی پی پی والے جواب
کیوں نہیں دیتے، ہم نے کئی مرتبہ ان کو بلوایا ہے تو یہ گینگ وار کی
دھمکیاں دیتے ہیں ۔میں نے پی پی پی کے مختلف مخالف گروپوں سے بات کی تو ان
کا بھی یہی کہنا تھا کہ اربوں روپے کے فنڈ کہاں گئے ، سینکڑوں نوکریاں کہاں
گئیں ، زکوۃ کے نام پر ملنے والی رقم کس کو دی گئی ، بے نظیر اسکیم کے پلاٹ
دوسری پارٹیوں کے افراد میں کیوں تقسیم ہوئے ، ووٹ کیلئے علاقے کی بجلی بند
کرادی گئی ، پانی کی لائن منظور شدہ منصوبے کے 17کروڑ روپے کھا لئے گئے
کیوں علاقے کو پانی میسر نہیں آرہا ، گھر گھر سے پانی کے نام پر بھتہ کیوں
لیا جارہاہے ، جہاں روڈ بنے ہوئے ہیں وہاں دوبارہ روڈ کیوں بنائے جار رہے
ہیں ، جہاں ضرورت ہے وہاں اس لئے کام نہیں کرائے جاتے کیونکہ انھیں وہاں
کوئی ووٹ نہیں دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔ پی
پی پی کو ایسے عہدے داروں کو فارغ کردینا چاہیے جو عوام کے فنڈز کھا گئے
اور ان کا کام نہیں کیا۔میں خاموش ہوگیا اور مجھے مز بتایا گیا کہ 7کروڑ
روپے مزید منظور کرالئے گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ نوکر شاہی کے ساتھ ملکر
علاقے کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا وہ قابل مذمت ہے۔ میں نے اپنی تئیں
سمجھانے کی کوشش کی لیکن مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ چلو ہم سب مان لیتے ہیں
بس یہ بتا دیں کہ پرچون فروش یا قلفی بیچنے والا کروڑوں کی جائیداد کا مالک
کیسے بن گیا ، میں نے ان کو غصے میں کہا کہ اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے
سیاسی اختلاف اپنی جگہ، لیکن کسی کردار کشی میں اخلاقیات کو سامنے رکھیں ۔میں
بلدیاتی انتخابات کے بعد آرٹس کونسل کے سالانہ انتخابات میں مصروف ہواور
آرٹس کونسل میں وہ کچھ ہوا جو اس سے قبل نہیں ہوا تھا ، میں نے اپنے چند
احباب سے کہا کہ پولنگ اسٹیشن میں اگرآرٹس کونسل اور اصل شناختی کارڈ کے
ہمراہ اند آنے کی اجازت ہوتی تو ایسا ہڑبونگ کبھی نہیں ہوتا ، متنازعہ
انتخابات ہوئے اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ فنکار بھی سیاسی ہوگئے ، اپنی
جیت کیلئے عوامی پسندیدگی کے بجائے سیاسی جماعتوں کا سہارا لینے لگے ہیں ۔نعرے
، بد انتظامی کی وہ مثال قائم ہوئی کہ الاامان الحفیظ ، مجھے کم ازکم
فنکاروں سے اس بات کی توقع نہیں تھی ۔یقینی طور پر آرٹس کونسل کو اس مسئلے
پر غور کرنا ہوگا۔ میں بلدیاتی انتخابات میں اتنا حیران نہیں ہوا جتنا پڑھے
لکھے فنکاروں کی اور ان کے سیاسی کارکنان کی حرکات دیکھ کر ہوا ۔ بہرحال
آرٹس کونسل بھی اب سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ بن چکی ہے ۔ یہاں ایسا نہیں
ہونا چاہیے تھا ۔ سیاسی نمائندوں کو پہلے ہی میڈیامیں بہت کوریج ملتی ہے
یہاں سیاست چمکانے کی ضرورت نہیں تھی ۔مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما آتے
رہے اور بالا آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور میرا کہا درست ثابت ہوا کہ
مبارک ہو فنکار بھی سیاسی ہوگئے ہیں۔آرٹس کونسل کی تاریخ کے بدترین
انتخابات تھے,پھر 26تاریخ کو کراچی پریس کلب کے انتخابات دیکھے ، پر سکون
ماحول ، ہنسی مذاق ، ایک خوشگوار ماحول میں انتخابات دیکھے خوشی ہوئی ۔ صدر
تو اپنا ہونا چاہیے کا سلوگن بہت مشہور ہوا اور دو پینل کے مقابل میں ایک
فرد واحد کی کوشش نے ہلچل مچا دی ، ان کا جملہ ضرور لکھوں گا کہ صدر جیتے
یا ہارے ، صدر ، صدر ہی ہوتا ہے۔
میں ایک شش و پنچ میں مبتلا رہا کہ سات سال ایک ہی پینل مسلسل کیوں کامیاب
ہو رہا ہے اس کی ایسی کارکردگی کیاہے کہ کراچی کی تمام صحافی برادری اس
پینل کو کامیاب کراتے ہیں۔ حیرت کا پہاڑ ٹوٹا کہ یہاں بھی آمریت ہے ، کم
جگہ کا بہانہ بنا کر تقریباََ 9سال سے نئے ممبران کو رکنیت ہی نہیں دی جاتی
، جعلی ممبر شپ اور صحافیوں کا سرکاری نوکریوں کا اسکینڈل بھی سامنے آیا ،
مجھے بتایا گیادو پینل بن کر ایک پینل بنتا ہے ایک کے 400اورا یک کے
300ممبران ہیں ، یہ دو پینل اتحاد کرکے ایک پینل بن جاتے ہیں او ر کلین
سوئپ کرلیتے ہیں ، کلین سویپ کے نام پر پوری باڈی ایک ہی پینل کی ہوتی ہے
اس لئے اس میں شفافیت نہیں ہے جو فیصلے میڈیا ہاوس مالکان کرائیں وہ اپنی
نوکریاں بچانے کیلئے ماننے پر مجبور ہیں ، ویج ایوارڈ اس کی بڑی مثال ہے ۔
صحافیوں کو مہنیوں مہنیوں تنخواہ نہیں ملتی لیکن پریس کلب کا کردار انتہائی
منفی ہے ۔ سال میں صرف دو ایونٹس میں اراکین شریک ہوتے ہیں ایک فیملی
پروگرام ہے اور ایک الیکشن ، لیکن ہر سال ووٹ کا ٹرن آؤٹ بھی کم ہوتا جارہا
ہے۔24سال بعد جب کراچی پریس کلب میں مشاعرے کا انعقاد ہو تو کارکردگی سامنے
آجاتی ہے۔ پریس کانفرنس کے نام پر آٹھ ہزار روپے لیتے ہیں لیکن پریس
کانفرنس کرنے والے میڈیا کا انتظار کرتے رہتے ہیں چیدا چیدا چند صحافی ہی
ہوتے ہیں ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ سموسہ اور نمک پارے آٹھ ہزار کے ہیں توپھرفیس
کیوں لیتے ہیں ہم کھانے پینے کا اچھا انتظام کرسکتے ہیں ا۔57سال کی تاریخ
میں پہلی بار دو شاعر کراچی پریس کلب کے عہدوں پر ہیں لیکن مجھے ایک صحافی
نے بتایا کہ نئے صدر بچارے اپنیصفوں میں موجود کالی بھیڑوں سے نا واقف ہیں
۔عبدالحمید چھاپرا جب پریس کلب کے صدر تھے یہ جگہ اپوزیشن کی پناہگاہ اور
جلسہ گاہ بنی رہی۔1500کے کم و بیش ممبران ہیں۔ تقریباََ9 سال سے رکنیت سازی
بند ہے۔صحافتی مارشل نافذ ہے،آرٹس کونسل میں 5000سے زائد ممبران ہیں کیا ہر
وقت 5000 ممبران ہی آتے ہیں بھونڈی تاویل ہے۔ یہ صرف اجارہ داری کا وہی
اصول ہے کہ جس طرح سیاسی جماعتیں الیکشن کیلئے پلاننگ کرکے حلقہ بندی بناتی
ہیں ۔کیا پیشہ ور اہل صحافیوں کا ممبر شپ میں کوئی حق نہیں ۔کراچی پریس کلب
اعزازی ممبر شپ لاکھوں روپوں کی گرانٹ پر فروخت کردیتا ہے حالاں کہ وہ شخص
صحافی نہیں ہوتا یعنی یہاں بھی پیسہ ہی سب کچھ ، مجھے سیاست ، فنکاروں اور
صحافیوں کی جمہوریت میں قدر مشترک یہی نظر آیا کہ سب ڈھونگ ہے۔ |