جماعت اسلامی پاکستان پون صدی سے
زائد عرصہ سے ملک میں اقامت دین کے لیے سیاسی طور پر کوشاں ہے ۔ جماعت
اسلامی سیاست میں خدا فراموش اوردین بیزارلیڈروں کی بجائے امین و صالحین
افراد پر مشتمل قیادت کو اقتدار سونپنے پریقین رکھتی ہے تا کہ اسلامی نظام
سیاست کے ذریعے خیراورسچائی کوفروغ مل سکے اورایک صالح معاشرہ عمل میں آسکے
اور اسلامی نظام کی خیر وبرکت سے رعایامستفید ہو سکیں۔ جماعت اسلامی میں
موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت
اپنے اندر نظم و ضبط، اعلیٰ سیاسی اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت
رکھنے کے باعث دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی
برصغیرکی نظریاتی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید
ابوالاعلی مودودی، جو عصرحاضر میں اقامت دین کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے
جاتے ہیں نے قیام پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ھ بمطابق 26اگست 1941ء کو
لاہور میں کیا تھا۔ جماعت اسلامی میں اعلی ترین تنظیمی ذمہ داری یا عہدہ
امارت کہلاتا ہے۔امیر جماعت کو جماعت کے اراکین آزادانہ رائے سے منتخب کرتے
ہیں۔ یہ انتخاب کسی بھی قسم کے نسلی، خاندانی اور علاقائی تعصب سے بالاتر
ہوتا ہے۔اگست 1941ء تا4 نومبر 1972ء تاسیسی اجتماع میں سید ابوالاعلی
مودودی کو جماعت اسلامی کا امیر بذریعہ آزادانہ انتخاب کیا گیا۔ سید
ابوالاعلی مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی
کی امارت سے مستعفی ہوگئے۔ ان کے بعد اراکین جماعت نے نومبر 1972ء تا
اکتوبر 1987ء میاں طفیل محمد اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد اکتوبر1987ء تا
اپریل 2009ء قاضی حسین احمد کو امیر جماعت منتخب کیا۔قاضی حسین احمد نے
جنوری 2009 ء میں عارضہ قلب اور خرابی صحت کی بنا پر مجلس شوریٰ کے اجلاس
میں معذرت کرلی تھی کہ ان کانام ان تین ناموں میں شامل نہ کیاجائے جو مرکزی
شوریٰ امیر جماعت کے انتخاب کے لیے ارکان جماعت کی راہنمائی کے لیے منتخب
کرتی ہے۔قاضی صاحب کی معذرت پر اراکین جماعت اسلامی نے آزادانہ رائے شماری
کے ذریعے مارچ 2009 میں سید منور حسن کو امیر منتخب کیا،آپ جماعت کے چوتھے
امیر منتخب ہوئے تھے، لیکن اپریل 2014میں ایک امیرکی موجودگی میں اراکین
جماعت نے دوسرے امیرجناب سراج الحق کوجماعت اسلامی کاامیرمنتخب کیا۔اس
انتخاب پرمیڈیانے یہ طعنہ دیاکہ سیدمنورحسن کوان کی بعض پالیسیوں کے نتیجے
میں بری طرح شکست ہوئی۔جماعت اسلامی نے 1958ء میں آمریت کی بھرپور مخالفت
کی۔جنرل ایوب نے آمریت کو جمہوری چولہ پہنانے کے لیے صدارتی الیکشن کا
ڈھونگ رچایا۔ اس وقت محترمہ فاطمہ جناح نے وطن عزیز کی خاطر الیکشن میں حصہ
لینے کا فیصلہ کیا اور ملک کی جمہوریت پسند قوتوں کو جابر فوجی آمر کے خلاف
مدد کے لیے پکارا تواسکے باوجودکہ عورت کوشریعت میں حق حکمرانی حاصل ہے کہ
نہیں جماعت نے وطن عزیز کو آمریت سے بچانے کی خاطر مادر ملت کا ساتھ دینے
کا اصولی فیصلہ کیا۔6 جنوری 1964ء میں ایوب خان نے تنگ آکر جماعت اسلامی کو
خلاف قانون قرار دے دیا اور نمایاں کارکنان جماعت اسلامی کو سید ابوالاعلی
مودودی سمیت پابند سلاسل کر دیا۔ سید ابوالاعلی مودودی اور جماعت کے65
راہنماؤں نے 9 ماہ تک ثابت قدمی سے قید کی صعوبتیں برداشت کیں۔1971ء میں
بھارت اور مجیب الرحمان نے باہمی گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے خلاف علم بغاوت
بلند کیا اور مکتی باہنی بنائی۔ یحییٰ خان نے بغاوت کچلنے کے لیے فوج کو
آپریشن کا حکم دیاتو کارکنان جماعت نے پاکستان کو سلامت رکھنے کے لیے پاک
فوج کی بھرپور معاونت کی۔ جس میں جماعت کے بے شمار کارکن مکتی باہنی کے
ہاتھوں وطن عزیز پر شہید ہوئے بعد ازاں مغربی پاکستان میں ’’ادھر ہم ادھر
تم ‘‘کا نعرہ لگانے والوں نے ازلی تعصب کے باعث جماعت کے کردار کو تنقید کا
نشانہ بنایا گیا اور خود بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر قبول کر لیا۔
سوویت یونین نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو جماعت اسلامی نے سوویت یونین
کے خلاف راے عامہ کو ہموار کیا۔جہاد افغانستان میں بھرپور کردار ادا کیا
اور وطن عزیز کی طرف بڑھتے ہوے ’’سرخ طوفان ‘‘ کو واپس اسی بل میں دھکیل
دیاجہاں سے یہ بے قابوہوکرنکل چکاتھا۔وقت نے یہ ثابت کیاکہ جماعت اسلامی
دوسری مذہبی جماعتوں سے اتحادکرتے ہوئے سیاست میں اہم رول اداکرسکتی ہے
لیکن تنہاہرگزنہیں۔جماعت کی کوششوں کے نتیجے میں’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘
قائم ہواجسکے ذریعے وطن عزیز میں نظام مصطفی نافذ کرنے کے عزم کا اعادہ
کیاگیا۔ مگر اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بعد ازاں انتخابی منشور پر
عملدرآمد پر تیار نہ ہوئی اور جماعت اسلامی کو اس اتحاد سے علیحدہ ہونا پڑا۔
جماعت نے ملک کی دیگر مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر’ اسلامک فرنٹ‘‘ قائم
کیا تاکہ وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا
جاسکے، ان انتخابات میں اسلامی فرنٹ ووٹ کے لحاظ سے تیسری بڑی جماعت ثابت
ہوئی مگر اسلامک فرنٹ صرف دو یا تین نشستیں حاصل کر پائی۔تاہم متحدہ مجلس
عمل کے قیام کاتجربہ جماعت کے لئے بڑاسودمندثابت ہواجس کے نتیجے میں قومی
اسمبلی میں خاطرخواہ نشستوں کے علاوہ اسکے ہاتھوں میں صوبہ پختونخواہ کی
زمام کارآئی۔یہ الگ بات ہے کہ بدقسمتی سے وہ اس منڈیٹ کی قدرسمجھ نہ
سکی۔جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ جماعت انتخابی سیاست کے ذریعے سے اقامت دین
پریقین رکھتی ہے اس لئے روزاول ہی سے جماعت قومی، صوبائی، اور بلدیاتی
انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے مگرہمیشہ دیکھنے میں آیاکہ اسے محض چندنشستوں
پرہی کامیابی نصیب ہوتی رہی ہے۔ تاہم دیگر سیاسی جماعتوں باالخصوص جمعیت
علمائے اسلام سے اتحاد نے جماعت اسلامی کو انتخابات اور ملکی سیاست میں
بڑافائدہ بخشا۔ قاضی صاحب مرحوم آخری ایام میں اس نکتے کوسمجھ چکے تھے
اوروہ آخری ایام میں جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کرمتحدہ مجلس عمل کی
بحالی کے لئے نہایت مضطرب دکھائی دے رہے تھے تاہم انکی زندگی وفا نہ کرسکی
جس کے باعث وہ اسے دوبارہ بحال نہ کرسکے۔متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے
سیدمنورحسن صاحب کی اپروچ قاضی صاحب سے مختلف تھی مگروقت نے ثابت کردیاکہ
قاضی صاحب مرحوم کی اپروچ پارلیمانی سیاست کے حوالے سے جماعت کے لئے
بہترتھی۔اس پس منظرمیں جناب سراج الحق صاحب متحدہ مجلس عمل کی بحالی کواپنی
ترجیحات میں شامل رکھ کرپارلیمنٹ میں جماعت کے کردارکونمایاں کرسکتے ہیں ۔بلاشبہ
جماعت اسلامی کی امارات ایک مشکل مرحلہ ہے بالخصوص ان حالات میں جب ملک میں
مذہبی انتہا ء پرستی عروج پر ہے اور اغیار مذہب کے نام پرملک و قوم کو
انتشار اور خلفشار میں مبتلاء کیئے ہوئے ہیں، اور ان حالات میں قوم ان
چہروں کو ڈھونڈ رہی ہے جو اغیار کے منصوبے ناکام بنا کر ملک میں امن و
سلامتی اور حقیقی اسلامی نظام کی بالا دستی کے لیے خصوصی کاوشیں بروئے کار
لائیں۔ جناب سراج الحق صاحب جماعت اسلامی کی امارات کے فرائض منصبی اچھے
طریقے کے ادا کررہے ہیں ، ان میں وہ تمام قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں جن کی
جماعت کو ضرورت ہے ۔ ان کی شخصیت میں موجود عاجزی و انکساری ان کو ملک کی
دیگر سیاسی شخصیات سے ممتاز کرتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی
دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحاد قائم کرے ، اس طرح جماعت
اسلامی جہاں نمایاں اقتدار حاصل کرسکتی ہے وہاں ملک میں حقیقی نظام مصطفےٰ
کے قیام کے لئے موثر کاوشیں بروئے کار لا سکتی ہے۔ |