میں یہ آرٹیکل دل پر پتھر رکھ کر
لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ نہ میں ایک لکھاری ہو اور نہ ہی اچھی اردو بول اور لکھ
سکتا ہوں۔ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں دن دہاڑے بلوچستان یونیورسٹی کی
شعبہ ابلاغیات کی ایک خاتون پروفیسر ناظمہ طالب کو یونیورسٹی سے گھر جاتے
ہوئے رکشے میں شہید کردیا گیا۔ جن کا تعلق کراچی سے تھا اور عرصہ پندرہ سال
سے بلوچستان میں درس وتدریس کی فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ مقتولہ کی شہادت
سے بلوچستان کے عوام کو دھچکا لگا۔ سٹوڈنٹس اور پرفیسرز نے حکومت سے شدید
احتجاج کیا۔ کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔
سوات میں جب وہاں کے عوام کی خوہش کا احترام کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا
کی حکومت نے اسلامی نظام کی نفاذ کا معاہدہ کیا۔ تو یہود و نصاریٰ اور ان
کے پاکستانی غلاموں کو کیسے یہ بھاتا۔ تو ایک سٹیج تیار کیا گیا۔ اور وہ
بھی ہمارے پاکستانی این جی اوز کی مدد سے۔ ایک ویڈیو بنائی گئی جس میں ایک
سترہ سالہ لڑکی کو کوڑے مارتے ہوئے دکھایا گیا۔ اور اسے ہمارے میڈیا اور
سیاست دانوں نے اس کو خوب اچھالا۔ طالبان کو ظالم دکھایا گیا۔ انسانی حقوق
کی تنظیموں نے سوات کی چاند بی بی کی جعلی ویڈیو پر آسمان سر پر اٹھالیا۔
آزاد میڈیا نے بھی مسلسل کئی دنوں تک اس جعلی ویڈیو کو ٹیلی کاسٹ کیا۔ یہاں
تک کہ عوام کو ویڈیو بند کرانے کیلئے خود فون کرنا پڑیں۔ تجزیہ نگار حضرات
گھنٹوں اس پر بولتے رہے۔ اور طالبان کی ظلم کی داستان سناتے رہے۔ سیاستدان
اس پر اپنی سیاسی دکانداری چمکاتے رہے۔ این جی اوز اس پر کئی دنوں تک
سیمینارز کرواتے رہے۔ الطاف بھائی لندن سے اس جعلی ویڈیو پر اپنا غصہ
نکالتے رہے۔ اور پھر سوات پر ایک ایسی جنگ کو مسلط کیا گیا جو ہماری اپنی
نہیں تھی لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔
ان دونوں واقعات میں زمیں اسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ وہ جعلی واقعہ سوات میں
جہاں پر ظالم طالبان کا راج تھا۔ اور انکا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ امریکا
کے سخت ترین مخالفین میں سے ہیں۔ اور ہمارے ان نام نہاد انسانی حقوق کی
تنظیموں کو فنڈنگ امریکا اور یہودی تنظیمیں کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تو امریکا
کی بولی ہی بولیں گیں۔
اب ایک پروفیسر صاحبہ کو بلوچستان میں قتل کردیا گیا۔ لیکن یہ سیاستدان اب
کیوں خاموش ہیں کیا ان کے بھاشن ختم ہو گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں
کوئی سمینار نہیں بلاتیں۔ کالم نگاروں کے قلم کی سیاہی کیوں خشک ہو گئی۔
ایسا تو نہیں کہ یہ سب اپنا اپنا ایمان امریکہ اور یہود و نصاریٰ کے ڈالروں
کے عوض بیچ چکی ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ہم کو ان سے کوئی گلا نہیں ہے۔ لیکن
اگر وہ اب بھی اپنے آپ کو محب وطن کہتے ہیں تو پروفیسر صاحبہ کا لہو ہم کو
پکار رہا ہے اور انکی روح اپنے خون کا حساب مانگ رہی ہے۔ |