آسمان چھونے دو

محترم قارئین!

حال ہی میں نوجوانوں میں اُبھرتے ہوئے ممتاز صحافی جناب واصف امین ملک جو اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یورپ اور پاکستان میں اپنا ایک خاص مقام بنا چکے ہیں۔ اُن کی پہلی کتاب ”جاناں تیرے شہر میں“ کے دونوں ایڈیشن منظرعام پر آ چکے ہیں، خوش قسمتی سے مجھے بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، گو کہ یہ ایک یادگار سفرنامہ ہے لیکن اس کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ شاید قاری کوئی افسانہ پڑھ رہا ہے۔ اس کتاب کا عنوان یعنی ”جاناں تیرے شہر میں“ ہر کتاب شناس کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ پردیس میں اُن کے تجربے کا ہر واقعہ اور اُس کے کردار ایک مخصوص پیرہن میں آتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی محبت کا جذبہ جو ”مانو“ کے لئے تھا اُسے چھپا کر نہیں رکھا اور بڑی دلیری سے اس کا برملا اظہار کیا ہے۔ یہ کہہ جانا بے جا نہیں ہے کہ واصف امین ملک صحافت کی دنیا اور اردو کے افق پر ایک ایسا روشن ستارہ ہے، جس کی روشنی پوری اردو دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ اُنہوں نے نئی نسل کے لئے جن کا تعلق صحافت سے ہے مشعلِ راہ بن کر یہ ایک مجاہدانہ کام کیا ہے جو قابل ستائش ہے، موجودہ حالات کے پیشِ نظر پاکستان کا وہ نوجوان جو تارکین وطن بننے کا خواہشمند ہے ان کے لئے یہ کتاب ایک نسخہ اکسیر ہے۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جناب واصف امین کو جنہوں نے دور حاضر کے نام نہاد مفاد پرست قلم کاروں اور سیاسی لوگوں کی بغیر تھپکی کے انہی کے میدان میں رہ کر یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ آج کا مصنف خواہ وہ پاکستان میں ہو یا بیرون ملک مسائل میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی کی فکر نے ہی مار دیا ہے اور واصف ملک نے اُن تمام مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے پردیس کی اُن تمام سچائیوں کو خوب بیان کیا ہے۔ جو واقعی ہی قابل داد ہیں۔ ایسے لوگ جو سچے جذبے کے ساتھ اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور اُن کے اندر آسمان چھونے کی خواہش ہر وقت تلملاتی رہتی ہے اور اُسی کی بنیادپر وہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ جیسے کہ واصف صاحب نے کر دکھایا۔

محترم قارئین! کتابیں وہی لکھتا ہے۔ جس کو اللہ نے تخلیقی قوت سے سرفراز کیا ہے۔ جس کو تنقیدی و تحقیقی صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ سب کے بس کی بات نہیں ہے، لہٰذا جن کے پاس یہ صلاحیت و قوت ہے وہ کتابیں لکھنے پر مجبور ہیں، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر فنکار اپنے فن کی داد چاہتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس سے انکار کرنے کی کس میں جرات ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کوئی قلمکار اپنی کسی علمی و ادبی تخلیق مسلسل محنت کے بعد صفحہ قرطاس پر لے آتا ہے تو وہ اُسے اپنے دوستوں کو دکھانے یا سنانے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ اُسے اس کے کام کی داد ملتی ہے تو خوش ہوتا ہے خاموشی دیکھتا ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے لئے کم اور معاشرے کے لئے زیادہ فکرمند ہوتے ہیں وہ معاشرے کے مسائل اور اُس کی خوبی و خرابی کو نگاہ میں رکھ کر انتہائی خلوص اور دیانتداری سے نیک مقصد کے تحت اپنے تخلیقی عمل میں مصروف رہتے ہیں اور تصنیف و تالیف کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں، واصف امین ملک کا شمار انہی قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ انہیں سود و زیاں سے کوئی مطلب نہیں بلکہ وہ اخلاص و قربانی کے جذبے کے سہارے اپنے مقصد کی تکمیل کرتے ہیں اور اُنہی جذبات کے تحت کتاب بھی وجود میں آتی ہے، لہٰذا اس کے زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر سماج کے لوگوں تک پہنچانا مصنف کے نزدیک لازمی ہے تاکہ اُس کی روح کو تسکین مل سکے۔ واصف امین سے میری پہلی ملاقات (نیو کاسل) انگلینڈ میں ایک مذہبی تقریب میں ہوئی۔ انتہائی تپاک اور پیار سے ملے 2007ء میں یہ اُس وقت روزنامہ اُردو ٹائمز لندن کے بیورو چیف کی حیثیت سے نیو کاسل میں مقیم تھے، میرے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ان کی صحبت کے فیض سے میرے اندر بھی لکھنے کا شوق و جذبہ اور زیادہ اجاگر ہونا شروع ہو گیا اور میں آج انہی کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو کر منزل کی طرف رواں دواں ہوں۔ واصف ملک ایک بہترین صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ صاف گو قلمکار بھی ہے جس نے اپنی اس کتاب ”جاناں تیرے شہر میں“ میں جن سخت تجربوں کا ذکر کیا ہے اور جس خوبصورت انداز میں پردیس کی غمی اور خوشی کا تذکرہ انہوں نے کیا ہے وہ مکمل افسانوی رنگ ہے۔ پریشانی میں ماں کی یاد اور خوشی میں ”مانو“ کا ذکر قاری کے لئے بڑی دل گداز کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ جیسے پروین شاکر کو نسائی جذبات کو زبان دینے والی شاعرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واصف کی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک من چلا اور چُلبلا دِل پھینک رائٹر کہنے کو دل چاہتا ہے اُن کو ہم اس ادبی کاوش پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نیو کاسل انگلینڈ کے میرے اور ان کے تمام دوست اُن کے بہتر مستقبل کے لئے دعاگو ہیں۔ مجھے امید ہے کہ واصف صاحب ہمیشہ اسی سچے جذبے کے ساتھ اپنی قلم کے ذریعے حق سچ کے پیغام کو عام کرتے رہیں گے۔ ہم سب اُن کے لئے دعاگو ہیں۔
Yawar Hussain
About the Author: Yawar Hussain Read More Articles by Yawar Hussain: 6 Articles with 6085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.