جاناں تیرے شہر میں

کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ نئی مُسافتوں پر جانے والا مسافر جہاں ایک طرف بے پناہ صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور دُکھ، درد، جدائی اور بیماری میں صرف تنہائی ہی اُس کی عیادت کو آتی ہے وہیں دوسری طرف یہی مسافتیں اسے انسانی رویوں کے متعلق بہت کچھ سکھلانے کے ساتھ ساتھ خود اس کے اندر مخفی صلاحیتوں سے بھی روشناس کرواتی ہیں جن سے اپنے گھر اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے متعارف ہونا ممکن نہیں ہوتا کہ ایک پرندہ بھی اُڑان تب ہی سیکھتا ہے جب اسے گھونسلے سے نکال باہر کیا جائے۔ میرے ایک دانشور دوست کہتے ہیں کہ پردیس Learn, earn & return کے اُصول کے تحت ہی جانا چاہیے۔ وہ صحیح کہتے ہیں مگر دُور دیسوں میں جا بسنے والوں سے میری بس اتنی سی گزارش ہے کہ لوٹ آنا ہو تو پورے کے پورے لوٹنا لیکن اگر دل وہاں چھوڑ کے آنا پڑے تو بھلے ہی مت آنا کہ دِل کے بِنا زندگی یوں ہی ہے جیسے آنکھ بِنا بینائی کے اور جسم جیسے بغیر روح کے ہو۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

سینکڑوں لوگوں میں سے پہلے پچاس میں آنے والوں کو ہی انٹرویو کے لیے اندر جانے کا موقع ملتا تھا۔ اور اتنے بڑے ہجوم میں سے پہلی 50 پوزیشنوں میں سے ایک پوزیشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے ’’مترادف‘‘ ہی تھا۔ مگر ’’مرتے کیا نہ کرتے‘‘ کے مصداق اس کمپٹیشن (Competition) میں حصہ تو لینا ہی تھا۔ نہ صرف یہ کہ حصہ لینا تھا بلکہ کامیابی حاصل کرنا بھی ناگزیر تھا۔ ورنہ وقت گزر جاتا تو’’یُوکے‘‘ یاترا کا خواب اُدھورا رہ جاتا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

پندرہ مئی 2002ء کی صبح کچھ نہیں بہت عجیب تھی کہ یہ صبح صبحِ اڑان تھی جس نے مجھے میرے اپنوں، میرے پیاروں، میرے سائبان جیسے باپ، میری محفوظ پناہ گاہ میری ماں کی گود، میرے بھائیوں اور میرے بے انتہا پیارے دوست سائل شبیر سے دُور بہت دُور اجنبی فضاؤں میں لے جانا تھا۔ یہاں کی سب گلیاں مجھے جانتی تھیں۔ پہنچانتی تھیں۔ اور وہاں کا ہر راستہ اجنبی، لاہور کی راتیں، چاند، ستارے، سب مجھ سے مانوس تھے اور وہاں دیکھو مقدر نے میرے لیے کیا رکھا ہے۔ بے پناہ یادیں تھیں جو ابھی سے اُمنڈتی چلی آرہی تھیں۔ کچھ کھٹّی، کچھ میٹھی، تلخ و شیریں یادیں۔ اَن دیکھی منزل، نہ جانے میرے شہر کی طرح مجھے پناہ دے گی یا نہیں۔ ماں کی منتظر آنکھیں راہ نہیں تک رہی ہوں گی۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

ایمریٹس ایئرویز کا بوئنگ ہوا میں اٹھ رہا تھا۔ بے نیاز اس سے کہ کچھ آنسو اس کی زمین کو بھگو رہے ہیں۔ اس کی منزل بحرین انٹرنیشل ایئرپورٹ تھی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے میرے ہمسفر کا سفر بحرین میں ہی تمام ہونا تھا۔ وہ بحرین میں ٹیلرنگ کا کام کرتا تھا۔ جب اُس نے بتایا کہ وہ وہاں کون سی جگہ رہتا ہے، کیا کرتا ہے، میں نے سوچا کہ اسے اپنے بارے میں پتہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور مَیں۔۔۔ جو اس وقت ’’ہوا‘‘ میں ہوں اور میرا ’’مستقبل‘‘ بھی ہوا میں! میں نے سوچا کاش میں اس کی جگہ پر ہوتا لیکن یہ خواہش صرف سوچ ہی رہ سکتی تھی۔ حقیقت بننااس کے نصیب میں نہ تھا۔ سارا وقت بیتی زندگی اور آنے والی زندگی کے درمیان گو مگو کی کیفیت میں گزر رہا تھا۔

اب میرے سامنے ایک اور مرحلہ تھا امیگریشن کا اور دوسرا مجھے بار بار میرے گھر والوں کا خیال آرہا تھا کہ مجھے تقریباً ۱۵ گھنٹوں سے زیادہ ہو چکے تھے۔ میرے گھر والے میرے لیے پریشان ہوں گے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں جب رات کو دیر سے گھر آتا تھا تو میری امی باہر گیٹ کے پاس میرا انتظار کر رہی ہوتی تھیں جیسے ہی میری موٹر بائیک کی آواز آتی، جھٹ سے گیٹ کھولتیں اور قبل اس کے کہ مَیں کپڑے بدلتا میرے لیے گرم کھانا تیار کر کے لاتی تھیں اور میرے ابو بتاتے تو کچھ نہ تھے مگر اندر سے پریشان تو وہ بھی ہوتے تھے۔ مجھے ان کو خبر کرنے کی فکر بس کھائے جا رہی تھی۔

چوبیس گھنٹوں بعد رات کے کھانے (جو کہ پہلا باقاعدہ کھانا تھا) میں چکن کے سالن کے ساتھ روٹی کی جگہ ہاتھ کی شکل کی ایک چیز پیش کی گئی۔ مجھے سمجھ نہ آسکی کہ یہ کیا ہے؟ کسی ستم ظریف نے بتایا کہ یہ ’’پیٹا بریڈ‘‘ ہے یہاں روٹی کی جگہ پردیسی یہی کھاتے ہیں۔ یہاں رہنا ہے تو اس سے دوستی کرنی پڑے گی۔ پیٹا بریڈ کا پہلا نوالہ جیسے ہی منہ میں رکھا۔ آنسو چھلک کر سالن کی پلیٹ میں آ گِرا۔

ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی، الگ ہی خوشبو والی روٹیاں، پیچھے بہت پیچھے کہیں چُھوٹ گئی تھیں۔ خیر پیٹا بریڈ کو ہونٹوں سے لگانا ہی تھا کہ یہاں کھانا نہ کھایا تو کوئی پوچھے گا نہیں کہ بیٹا، کھانا تو کھا لو، کھانے سے کیا دشمنی
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

بھاری سامان کے بوجھ کے ساتھ سڑکوں پر مٹر گشت کرتے کرتے بدن تھکن سے چُور ہو چکا تھا۔ اور خُنکی بڑھ رہی تھی۔ مَیں نے اپنے بیگ میں سے دو گرم سوئیٹر نکال کر پہنے اور رات کے دس بجے ہی ایک بس اسٹینڈ پر بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار شروع کر دیا۔ رات لمبی تھی۔ سو ایک چھوٹی بوتل دودھ اور ایک بریڈ خرید لی۔ ساری رات یا تو ٹھنڈ کھائی یا پھر ٹھنڈا دودھ اور بریڈ کھائی۔ آنکھ لگنے کو ہوتی تھی تو کسی انجانے خوف سے کھل جاتی تھی کیونکہ لندن پہنچتے ہی یہ غلط فہمی دور کر دی گئی تھی کہ یہاں چوری، ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں نہیں ہوتی ہوں گی۔ لہٰذا اپنی کل متاع چھن جانے کا خوف سونے بھی نہیں دیتا تھا اور پھر کہتے ہیں کہ ’’نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے‘‘ لہٰذا کبھی کبھی سر لڑھک جاتا تھا تو جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ بس یونہی سوتے، جاگتے، جاگتے، سوتے یہ رات گزر تو گئی لیکن میرے ہاتھ، ناک اور کان یوں لگتا تھا جیسے ساتھ نہیں ہیں میرے جسم کے تار تار دکھ رہا تھا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

لیٹن کے جس علاقے میں مَیں تھا یہاں کالوں کی اکثریت تھی اور یہ کونسل کے فلیٹس تھے جو کہ یہاں کے ’’ویلے لفنٹروں‘‘کو رہنے کے لیے دیئے گئے تھے۔ اور یہ فلیٹ ایک پاکستانی ’’مولوی رنگیلا‘‘ کو ملا ہوا تھا جس نے کونسل سے مفت میں لے کر آگے امین قصوری کو کرائے پہ دے رکھا تھا۔ مولوی رنگیلا کے متعلق مجھے خبردار کر دیا گیا تھا کہ اگر یہ کوئی بدتمیزی کرے تو ’’اگنور‘‘ کرنا ہے۔ مولوی رنگیلے کا اصل نام تو کچھ اور تھا پر اس کو مولوی رنگیلا اس کی رنگین طبیعت کے باعث کہا جاتا تھا۔ مولوی گھر سے نماز پڑھنے کے لیے نکلتا تھا تو پھر رات گئے تک یہاں ڈیرے جمائے رکھتا تھا۔ اس نے ایک گوری میم سے ’’لو‘‘ لگا رکھی تھی۔

آج مجھے احساس ہو رہا تھا کہ پردیسی اور نئی نویلی دلہن میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کیونکہ دونوں کو ہر حال میں ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنا ہی ہوتا ہے کہ کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں ہوتی۔ اب میں دنیا بھر کی ان لڑکیوں کی مشکلوں کو محسوس کر سکتا تھا جو اپنا گھر چھوڑ کر ’’پیا گھر‘‘ سدھارتی ہیں۔ دیور کیسا، ساس کیسی، جھیٹانی، نند، سب کو سہنا ہوتا ہے لیکن وہیں رہنا ہوتا ہے۔ میری حالت ان سے الگ نہ تھی۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس
Wasif Malik
About the Author: Wasif Malik Read More Articles by Wasif Malik: 6 Articles with 6084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.