بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمیین، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
یہ دنیا کس طرح دوڑ رہی ہے کہ مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر
رہے ہیں۔ ہمیں احساس بھی نہیں ہورہا اور ہماری زندگی کے ایام کم ہوتے جارہے
ہیں اور ہم برابر اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی دنیاوی زندگی
میں ایسے مصروف اور منہمک ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم اسی دنیا میں ہمیشہ ہمیش
رہیں گے۔ حالانکہ عقلمند اور نیک بخت وہ ہے جو دنوں کی تیزی سے جانے اور
سال وموسم کے بدلنے کو اپنے لئے عبرت بنائے، وقت کی قدر وقیمت سمجھے کہ وقت
صرف اس کی وہ عمر ہے جو اس کے ہر سانس پر کم ہورہی ہے اور اچھے اعمال کی
طرف راغب ہوکر اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔ وقت کا تیزی کے ساتھ
گزرنا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب
نہ ہوجائے(یعنی شب وروز کی گردش بہت تیز نہ ہوجائے) چنانچہ سال مہینے کے
برابر، مہینہ ہفتہ کے برابر، ہفتہ دنوں کے برابر اور دن گھنٹے کے برابر
ہوجائے گا۔ اور گھنٹے کا دورانیہ بس اتنا رہ جائے گا جتنی دیر میں آگ کا
شعلہ یکدم بھڑک کر بجھ جاتا ہے۔ (مسند احمد، ترمذی)
اﷲ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت
ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی
کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اور اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے
تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی
طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس
ہوجاتی ہیں۔ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اﷲ کی
ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، بعض عنفوان شباب میں
اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے
ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں
معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
اس حقیقت کو بار بار ذکرفرمایا ہے: تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت
تمہیں جا پکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ (سورۃ
النساء ۷۸) (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے
آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ ۸)
جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں
ہوسکتے۔ (سورۃ الاعراف ۳۴) اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس
حصہ میں اُسے موت آئے گی۔ (سورۃ لقمان ۳۴)
مختلف مواقع پر علماء کرام وداعیان اسلام وعظ ونصیحت کرتے ہیں تاکہ ہم
دنیاوی زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر وقتاً فوقتاً اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے
رہیں اور زندگی کے گزرے ہوئے ایام میں اعمال کی تلافی زندگی کے باقی ماندہ
ایام میں کرسکیں۔ لہٰذا ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے
جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اﷲ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش
کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے
کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ
امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپہ آنے سے قبل جوانی سے ۔ مرنے سے قبل
زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے
قبل صحت سے۔ (مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ) اسی طرح حضور اکرمﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اﷲ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ
نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟
جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے
یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اﷲ اور بندوں کے حقوق ادا
کئے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟ میرے عزیز بھائیو! ہمیں اپنی زندگی کا
حساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب
ہے، جو پوری کائنات کا پیدا کرنے والا اور پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا
چلا رہا ہے۔
ہمیں گزشتہ ۳۶۵ دن کے چند اچھے دن اور کچھ تکلیف دہ لمحات یاد رہ گئے ہیں
باقی ہم نے ۳۶۵ دن اس طرح بھلادئے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ غرضیکہ ہماری قیمتی
زندگی کے ۳۶۵ دن ایسے ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ ہمیں سال کے
اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور
کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک
اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے
لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے
ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی
کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اﷲ کی اطاعت میں
بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ
سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر
وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اﷲ کا
خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا
خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی
اکرمﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں
کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی
کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی
سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں
پہنچائی یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کئے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی
مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو
حقوق ہیں وہ ادا بھی کئے یا نہیں؟ ہم نے اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا
نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین،
پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟
جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں
حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے
اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔ نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے
اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح میرے
دینی بھائیو! آخرت کے تاجروں کو سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی
ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی
وکامرانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ
ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا
باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد ، ہمارے دوست واحباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن
کرکے قبرستان کی اندھیرے میں چھوڑکر آجائیں گے، توکس طرح ہم قبر میں منکر
نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟ کس طرح ہم پل صراط سے بجلی کی طرح گزریں
گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامہ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ کس طرح
حوض کوثر سے نبی اکرم ﷺکے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے ملے کہ جس کے بعد
پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؟ جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب
وکتاب کے ہمیں جنت الفردوس میں مقام ملے گا؟ آخرت کی کامیابی وکامریانی ہی
اصل نفع ہے جس کے لئے ہمیں ہرسال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ
کرنا چاہئے۔
ابھی وقت ہے۔ موت کسی بھی وقت اچانک ہمیں دبوچ لے گی، ہمیں توبہ کرکے نیک
اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے مومنو! تم سب اﷲ کے
سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃ النور ۳۱) اسی طرح اﷲ تعالیٰ
کا فرمان ہے: کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر
رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اﷲ
سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان
ہے۔ (سورۃ الزمر ۵۳) یقینانیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں۔ (سورۃ الہود ۱۱۴)
یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور
آخری موقع ہے، اﷲ تعالی فرماتا ہے: یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت
آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجئے تاکہ
جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ
تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک
برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔ (سورۂ المؤمنون ۹۹ و ۱۰۰) لہذا
ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل اس دنیاوی زندگی
میں ہی ا پنے مولاکو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے بدن سے ہماری روح
اس حال میں جدا ہو کہ ہمارا خالق ومالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف
فانی زندگی کے عارضی مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور
دنیاوی زندگی کے عیش وآرام اور وقتی عزت کے لئے جد وجہد کرتے ہیں۔
لہٰذا نماز وروزہ کی پابندی کے ساتھ زکوٰۃکے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی
کریں۔قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔ صرف حلال روزی پر اکتفا کریں خواہ
بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر وکوشش کریں۔
احکام الٰہی پر عمل کرنے کے ساتھ جن امور سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے
باز آئیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے اپنے آپ کو اور بچوں کو دور
رکھیں۔ حتی الامکان نبی اکرم ﷺ کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرنے کی
کوشش کریں اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری
نگاہ سے دیکھیں اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کریں۔ اپنے معاملات کو
صاف ستھرا بنائیں۔ اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ غیر مسلم حضرات ہمارے
اخلاق سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔
نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر Happy New Year کے نام سے
متعدد پروگرام کئے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی ہے،
حالانکہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح وبہبود کے بڑے بڑے کام کئے جاسکتے ہیں،
انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر
چشم پوشی سے کام لیتی ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ ان پروگراموں کو منعقد کرنے والے
نہ ہماری بات مان سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس وقت ہمارے مخاطب ہیں۔ لیکن ہم
مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہئے؟ یہ اس مضمون کو لکھنے کا بنیادی
مقصد ہے۔ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت اسلامیہ میں کوئی مخصوص عمل
اس موقع پر مطلوب نہیں ہے اور قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضور اکرم
ﷺ ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، مفسرین، محدثین اور فقہاء سے Happy
New Year کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اس طرح کے مواقع کے لئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی
ہے: (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں، یعنی
جہاں ناحق اور ناجائز کام ہورہے ہوں، اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے اُن میں شامل
نہیں ہوتے ہیں۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ
گزر جاتے ہیں۔ یعنی لغو وبے ہودہ کام میں شریک نہیں ہوتے ہیں، بلکہ برے کام
کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان ۷۲)
عصر حاضر کے علماء کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ عمل صرف اور صرف غیروں کا
طریقہ ہے، لہٰذا ہمیں ان تقریبات میں شرکت سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور
اگر کوئی شخص Happy New Year کہہ کر ہمیں مبارک باد پیش کرے تو مختلف
دعائیہ کلمات اس کے جواب میں پیش کردیں، مثلاً اﷲ تعالیٰ پوری دنیا میں امن
وسکون قائم فرمائے، اﷲ تعالیٰ کمزوروں اور مظلوموں کی مدد فرمائے۔ اﷲ
تعالیٰ برما، شام، عراق اور فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، اﷲ
تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں لائے۔ اﷲ تعالیٰ ۲۰۱۶ کو اسلام اور
مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنادے۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا
پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے
کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔ غرضیکہ ہم خود Happy New Year کہہ کر پہل
نہ کریں بلکہ اس موقع پر حاصل شدہ پیغام پر خود داعی بن کر مختلف انداز سے
مثبت جواب پیش فرمائیں۔ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی مختلف کیلنڈر رائج
تھے، اور ظاہر ہے کہ ہر کیلنڈر کے اعتبار سے سال کی ابتداء بھی ہوتی تھی۔
ہجری کیلنڈر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں شروع کیا گیا ہے،
اور چاند کے نظام سے چلنے والے ہجری کیلنڈر کے سال کی ابتداء محرم الحرام
سے شروع کی گئی۔ سورج کے نظام سے عیسوی کیلنڈر میں ۳۶۵یا ۳۶۶ دن ہوتے ہیں،
جبکہ ہجری کیلنڈر میں ۳۵۴ دن ہوتے ہیں۔ہر کیلنڈر میں ۱۲ ہی مہینے ہوتے ہیں۔
ہجری کیلنڈر میں مہینہ ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے جبکہ عیسوی کیلنڈر میں سات
مہینہ ۳۱ دن کے، چار ماہ ۳۰ دن اورایک ماہ ۲۸ یا ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ سورج
اور چاند دونوں کا نظام اﷲ ہی نے بنایا ہے۔
شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں ہجری کیلنڈر سے مربوط ہیں۔ دونوں کیلنڈر
میں ۱۰ یا ۱۱ روز کا فرق ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص عبادتوں کا وقت ایک موسم
سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اﷲ تعالیٰ
کی نشانی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ موسم کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں اور
دوسروں کو بھی اس پر غور وخوض کرنے کی دعوت دینی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف
اور صرف اﷲ کا حکم ہے جس نے متعدد موسم بنائے اور ہر موسم میں موسم کے
اعتبار سے متعدد چیزیں بنائیں، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:بیشک آسمانوں اور
زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے
بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اﷲ کو یاد
کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ
کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمار پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں
کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے)پاک ہیں۔ پس دوزخ کے عذاب سے بچالیجئے۔ (سورۃ آل
عمران ۱۹۰ و ۱۹۱)
نئے سال کے موقع پر عموماً دنیا میں سردی کی لہر ہوتی ہے، سردی کے موسم میں
دو خاص عبادتیں کرکے ہم اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک عبادت وہ ہے
جس کا تعلق صرف اور صرف اﷲ کی ذات سے ہے اور وہ رات کے آخری حصہ میں نماز
تہجد کی ادائیگی ہے۔ جیسا کہ سردی کے موسم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ
سردی کا موسم مؤمن کے لئے موسم ربیع ہے، رات لمبی ہوتی ہے اس لئے وہ تہجد
کی نماز پڑھتا ہے۔دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے۔ یقینا سردی میں
رات لمبی ہونے کی وجہ سے تہجد کی چند رکعات نماز پڑھنا ہمارے لئے آسان ہے۔
قرآن کریم میں فرض نماز کے بعدجس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا
گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔
سردی کے موسم میں دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہئے وہ اﷲ کے بندوں کی خدمت
ہے اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم غرباء ومساکین ویتیم وبیواؤں وضرورت
مندوں کو سردی سے بچنے کے لئے لحاف، کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کریں۔ محسن
انسانیت کے ارشادات کتب احادیث میں موجود ہیں: میں اور یتیم کی کفالت کرنے
والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی
ہیں۔ (بخاری) مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے راستے میں
جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم) جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے
وقت کپڑا پہنائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی
مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل
کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اﷲ
تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ (
ابوداود، ترمذی)
خلاصۂ کلام: موت یقینی شی ہے لیکن اس کا وقت اﷲ کے علاوہ کسی بشر کو معلوم
نہیں ہے، ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ سال کے اختتام پر ہماری عمر کتنی ہوگئی،
لیکن زندگی کے کتنے سال، مہینے، دن یا لمحات باقی رہ گئے، وہ کسی کو معلوم
نہیں۔ موت کے فرشتہ کے آنے پر ہمارے گھر والے، خاندان والے بلکہ پوری
کائنات مل کر بھی ہمیں نہیں بچا سکتی۔ لہٰذا عقلمندی اور نیک بختی اسی میں
ہے کہ ہم اس فانی دنیاوی زندگی کو اخروی وابدی زندگی کو سامنے رکھ کر
گزاریں جیسا کہ محسن انسانیت حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا میں اس طرح
رہو جیسے مسافر ہو یا راستہ چلنے والا ہو۔ (بخاری)
Happy New Year کی مناسبت پر بے تحاشہ رقم کے خرچ سے ہونے والی تقریبات میں
شرکت سے بچ کر اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ سردی کے موسم میں دیگر
اعمال صالحہ کے ساتھ ان دو اعمال کا خاص اہتمام کریں۔ ایک حسب توفیق نماز
تہجد کی ادائیگی اور دوسرے ضرورت مندوں کی مدد کرنا تاکہ غرباء ومساکین
ویتیم وبیوائیں وضرورت مند حضرات رات کے ان لمحات میں چین وسکون کی نیند
سوسکیں جب پوری دنیا خرافات میں اربوں وکھربوں روپئے بلاوجہ خرچ کررہی ہو۔
نیز پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا جائے کہ غرباء ومساکین ویتیم وبیوائیں
وضرورت مند کا جتنا خیال اسلام میں رکھا گیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی،
بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں مذہب صرف اور صرف اسلام ہی ہے،
باقی تمام مذاہب میں صرف روایت باقی رہ گئی ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگ اپنے
مذہب پر عمل تو درکنار اپنے مذہب کی کتابوں کو بھی نہیں پڑھتے۔ ۱۴۰۰ سال
گزرنے کے باوجود مسلمانوں کا آج بھی قرآن وحدیث سے جیسا تعلق اور شغف ہے اس
کی کوئی مثال دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی
دنیامیں غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے جو ہمیشہ فضول خرچی کی مذمت اور انسانوں
کی مدد کی ترغیب دیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دنیا
سے سرمایہ داروں کی اجارہ داری ختم کی جاسکتی ہے۔ |