دسمبر15کا آخری دن جہاں ایک سال بچھڑجانے کی خبر دے رہا
ہے وہیں نئے سال میں نئے جذبوں،نئی امنگوں،نئی کامیابیوں کی نوید بھی سنا
رہا ہے لیکن کچھ کر دکھانے کا جو جذبہ اور ولولہ سال کے آغاز میں ہوتا ہے
وہ ابتدائی ماہ گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات و سیاسی گردش دوراں کی دھول میں
کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر گذرنے والے سال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی
جائے تو احساس ہوگا کہ یہ سال بھی خوشیاں کم ،مگر غموں کی بھرمار دے کرگذر
گیا اگرچہ کراچی کی صورتحال میں ایک خوشگوار تبدیلی تو آئی ہے مگر کئی خونی
واقعات اور حادثات دل پر گہرے نشان چھوڑ گئے ہیں جن میں رمضان المبارک میں
شدید گرمی کے عالم میں عوام کی بے بسی ،بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،اور ارباب
اختیار کی بے حسی ،حج کے دوران بھگدڑ میں شہادتیں ،محرم میں دہشت گردی کا
واقعہ اور ابھی 26اکتوبر کو پشاور زلزلے کا ہولناک سانحہ جو 2005ء کے زلزلے
کی یاد تازہ کرگیا جسکے متاثرین آج بھی حکومتی امداد کے منتظر اور اپنی
تباہی پر نوحہ کناں ہیں تاریخ گواہ ہے کہ سینکڑوں قومیں ان آفات کے ہاتھوں
مٹ گئیں جبکہ قران وحدیث میں قدرتی آفات کو انسانی عمال کا نتیجہ قرار
دیاگیا ہے اس روشنی میں ہمیں توبہ استغفار کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر
توبہ،استغفار اور شکر بھی اس وقت ادا ہوتا ہے جب انسانی اپنی معاشی
مجبوریوں سے آزاد ہواسے زندگی کی تمام سہولیات میسر ہوں یا دوسری صورت میں
معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں غلط کام پر مجبور ہونے والے جب کبھی کسی کی پکڑ
میں آجائیں تب وہ توبہ استغفار کی طرف راغب ہوتے ہیں انسان کو برائے سے
روکنا اور اسکی زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اسے معاشی خطرات
سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے یہاں حکمرانوں کو سیاسی بازار کی
سرگرمیوں سے فرصت ملے تو وہ عام آدمی کی طرف توجہ دے یہاں پر انصاف کے حصول
کے لیے بھی خود کشی کرنا پڑتی ہے یا پھر جنازوں کو بیچ چوراہے لاکر رکھنا
پڑتا ہے پھر کہیں جاکر قانون کے کان پر جوں رینگنا ں شروع کرتی ہے ہماری
موجودہ حکومت سمیت پچھلی تمام حکومت نے ملک اور قوم کے نام پر ایسے ایسے
فراڈ کرڈالے عوام کو ناکوں چنے چبوادیے کرپشن ،کمیشن ،اقربا پروری ،لوٹ مار
اور عہدوں کی بندر بانٹ نے ملک میں زلزلہ پیدا کررکھا ہے غریب قوم کے اربوں
روپے لوٹ لیے گئے امداد ،بھیک اور قرضوں نے جہاں سیاستدانوں کے بنک اکاؤنٹ
بھردیے وہیں ہمارے سرکاری افسران نے بھی اپنی جھولیاں بھر لی میرٹ اور
انصاف کے نام پر محنتی ،قابل اور مستحق افراد کو مہنگائی ،بے روزگاری اور
غربت کی دلدل میں دھکیل کرصرف اپنے سے اوپرکے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہر
وہ غیر قانونی اور غیر آئینی کا کیا گیا کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا
اختیار اپنے ووٹ کے زریعے دوسروں کودینے والا ووٹر آج بھی چند ہزاراجرت
کیلیے نوکریوں کی تلاش میں سرکاری دفاتروں کے چکر کاٹنے پر مجبورہے ہمارے
حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے جب ضرورت پڑی
بالوں سے پکڑ کر کھینچ لیا اور جب دل بھر گیاتو کسی قید خانے میں دھکا
دیدیاحکمرانوں نے تو معذوروں کو بھی نہیں چھوڑا انہیں بھی سڑکوں پر لاکر
پولیس کے ڈنڈوں سے نچواتے رہے جو حکمران آئین اور قانون کے مطابق معذوروں
کو انکے حقوق نہیں دے سکتی وہ عام آدمی کا کیا بھلا چاہے گی حکمران اپنے
ذاتی معاملہ میں تو آئین اور قانون کو گھسیٹ کر درمیان میں لے آتے ہیں مگر
جہاں پر پاکستان کا آئین آرٹیکل 38 (d) اس بات کی تشریح کرتا ہے کہ ریاست
کی ذمہ داری ہے کہ معذوروں کو عام آدمی کے بربابر زندگی کی تمام سہولیات
فراہم کرے جن میں انسان کی بنیادی ضروریات روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم اور صحت
کی سہولیات ہر پاکستانی کو بلاکسی تفریق، رنگ ونسل ،مذہب فراہم کرے مگر بات
پھر وہی پر ختم ہوتی ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون تو حکمرانوں کا
کھلونا ہے سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے 1981میں ایک آرڈیننس کے زریعے ایک
قانون متعارف کروایا تھا کہ سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں معذور افراد کو
دو اور تین فیصد کوٹہ کے حساب سے ملازمتیں فراہم کی جائیں گی اور جو ادارے
معذور کو انکے کوٹہ کے مطابق ملازمت نہیں دینگے وہ ہر ماہ ایک ہزار روپیہ
حکومت کوجمع کروائیں گے تاکہ اس طرح اکھٹی ہونے والی رقم کو معذورافراد کی
فلاح وبہبود پر لگایا جاسکے اور اب 18ویں ترمیم کے زریعے معذور افراد کی
ذمہ داری صوبوں پر آچکی ہے جو انہیں مسلسل نظر انداز کرکے انہیں بھیک
مانگنے پر مجبور کررہے ہیں ان معذور افراد میں BAاور MAتعلیم تو عام ہے ہی
ان میں سے بعض پی ایچ ڈی بھی ہیں مگر بے روزگاری کا جو طوق حکومت نے انکے
گلے میں فٹ کررکھا ہے وہ اترنے کا نام نہیں لے رہا پاکستان میں اس وقت کل
آبادی کا 19.2فیصد طبقہ معذوری کی زندگی گذار رہا ہے جن میں گونگے ،بہرے،جسمانی
معذور اور ذہنی معذور افراد شامل ہیں جبکہ ان معذور افراد میں 58.4فیصد مرد
اور 41.6فیصد خواتین شامل ہیں اور ان معذور افراد کی سب سے زیادہ تعداد
پنجاب میں 55.9فیصد ،28.4فیصد سندھ میں آباد ہے جبکہ ہر سال2.65فیصد سے ملک
بھر میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور انکے لیے ملک بھر میں
کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے اور نہ ہی انکا کوئی والی وارث ہے 2015میں جب
کلب چوک مال روڈ پر ان معذور افراد پر ڈنڈے برسائے جارہے تھے تو اس وقت
مجھے عبدالقیوم بہت یاد آئے جنکی بدولت معذور افراد کبھی بھی وزیراعلی کے
دفاتر سے مایوس نہیں لوٹتے تھے اور جنکے اسلام آباد جانے کے بعد معذوروں پر
وزیراعلی دفاتر کے دروازے بند کردیے گئے انہیں سرعام سڑکوں پر گھسیٹا گیا
ڈنڈے برسائے گئے مگر انہیں انکا حق نہیں دیا گیا جس پر معذور افراد یہ کہنے
پر مجبور ہوگئے تھے کہ وہ قیوم صاحب کے تبادلے کے بعد یتیم ہوگئے ہیں دعا
ہے کہ نئے سال میں اﷲ تعالی حکمرانوں کو صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرنے
کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔ |