نیا سال۔۔امیدیں اور عزم نو

سال 2015 اختتام پزیر ہوا اور نئے سال کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ گزشتہ سال اپنے دامن میں کئی تلخ یادیں لئے رخصت ہوا۔ عیسوی سال کی بنیاد سورج کی گردش سے ہے جبکہ ہجری سال کا انحصار چاند کے طلوع و غروب پر ہوتا ہے۔ قرآن عزیز نے ’’ الشمس والقمر بحسبان‘‘ ارشاد فرماکر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ سورج اور چاند کے مقاصد وجود میں سے ایک مقصدمعاملات زندگی چلانے کیلئے کیلنڈر مرتب کرنا ہے۔ بہر کیف ایک ہندسہ تبدیل ہونے سے تاریخ کے اک نئے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصا اہالیان پاکستان کو نئے سال کی مبارک باد۔ اس موقع پر نیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ کچھ امیدوں بھرے خیالات شیئر کرنے کا ارادہ ہے۔ جب ایک سال ختم ہوتا ہے اور نئے سال کا کیلنڈر سامنے آتا ہے تو ہر باشعور شخص پچھلے سال کی کوہتاہیوں اور بے ترتیبیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ ارادہ کرتا ہے کہ آئندہ اس کمی کو پورا کروں گا۔ کچھ تو وہ ہیں جو عزم مصمم کے ساتھ اپنے ارادوں کو حقیقت کا روپ دے دیتے ہیں ۔ لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو چند دن گزرنے کے بعد پھر پہلی ہی روش کو اختیار کرلیتے ہیں۔ حالات حاضرہ کے تناظر میں بحیثیت مسلمان ہمارا سال غموں سے شروع ہوتا ہے اور قربانیوں پر ختم ہوتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان، یمن اور دیگر مقامات پر مسلمان ہونے کے ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر ظلم و ستم کے پہاڑ دھائے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو شہید اور عزت مآب ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں کی چیخ و پکار اور زخموں سے چھلنی وجود بھی ظالموں کے دلوں کو نرم نہیں کر پاتے ۔ جوں ہی نیا سال شروع ہوتا ہے تو مسلمان ممالک میں بھی ایک ہنگامہ بپا ہوجاتا ہے اور جشن منائے جاتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ امت مسلمہ پر بیتنے والے ان تکلیف دہ حالات کا احساس بھی دم توڑ چکا ہے۔ جن اقوام کی تہذیب کا یہ حصہ ہے وہ جو چاہیں کریں لیکن بد قسمتی سے دیگر مسلمان ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مسلما ن نوجوان لڑکے لڑکیاں اس جشن کو منانے کیلئے لادینیت اورفحاشی و عریانی کی تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب اور رقص و سرود کی محافل ہوتی ہیں۔اس موقع پر حکومتیں بھی مجرمانہ خاموشی اختیار رکھتی ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر جشن بالادست اور مقتدر حلقوں کی طرف سے غریبوں، محنت کشوں ِ اور ہاریوں کے استحصال سے بربادی کا اک نیا تماشہ ہوتا ہے۔ پچھلا سال بھی عریانی و فحاشی کے پھیلاؤ اوراونچے طبقے کی طرف سے نچلے طبقے کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو تارتار کرنے کا سال تھا۔جرائم کے صفحے پراخبار کی ہر خبر تکلیف دہ اور ہر سرخی پریشان کن تھی۔ سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے کچھ تبدیلیاں آئیں لیکن ان کے اثرات ابھی تک نچلے طبقے تک دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتے۔ صرف سال گزرنے اور بدلنے سے کچھ تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ ہم خود عزم مصمم کے ساتھ تبدیل ہونے کا ارادہ نہ کریں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سوچیں کہ کہ پچھلے سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ہم نے غریبوں کی مدد کی ہے اور اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کا رویہ رکھا ہے؟ ہمیں اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سال ہمارے کون کون سے عزیز واقارب اور دوست ہم سے بچھڑ کر اگلے جہان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جو چلے گئے انہیں دعائے مغفرت میں یاد رکھیں ۔ خود بھی فکر آخرت کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ گزاریں کیونکہ عنقریب ہم نے بھی اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی طرف کوچ کرنا ہے۔ نئے سال کیلئے نئی امیدوں، امنگوں اور ارادوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی فرصت کے لمحات میں ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ پچھلا سال کیسے گزرا؟ حسن اتفاق کہ یہ نیا سال اس مبارک اسلامی مہینہ ربیع الاول شریف میں شروع ہو رہا ہے جس میں مرشد قلب و نظر جناب محمد رسول اﷲﷺ کی ولادت با سعادت ہے۔ ہمیں اس نئے سال کے شب و روز کو گزارنے کیلئے آپﷺ کی اتباع اور اطاعت کا پختہ ارادہ کرنا چاہیے۔ برائی برائی ہے جب اور جس مہینے بھی میں ہو۔ لیکن اس ماہ مبارک کے تقدس کو پامال کرنا اور بھی حد درجہ قابل افسوس ہے۔مسلمانوں کو قطعا زیب نہیں دیتا کہ نیو ائر نائٹ ہوائی فائرنگ، شراب نوشی ،بدکاری یا نشے کی حالت میں قومی اثاثوں کی توڑ پھوڑ میں گزاریں۔ ہمیں تو اس رات تجدید عہد کرنا چاہیے کہ ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے عہد شکنی نہیں کریں گے۔ کیونکہ سال تو نیا ہے لیکن یہ عہد تو پرانا ہے جو ہمیں روز قیامت تک نبھانا ہے۔ ہمارے معاشرے اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے بیشمار مسائل نے جنم لیا۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزم کے ساتھ تہیہ کر لیں کہ ہم نے جھوٹ، مکر و فریب، تنگ نظری، فرض ناشناسی، بدخواہی اور بہتان تراشی کا اپنے رویوں سے خاتمہ کرکے اپنے آپ کو اوصاف حمیدہ سے متصف کرنا ہے۔ دعا ہے کہ سال 2016 ہمارے لئے خیر وعافیت کا سال ثابت ہو۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219810 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More