پٹھان کوٹ ائیر بیس ڈرامائی حملہ یا محض ڈرامہ

بھارت میں خودساختہ حملوں کے بوگس ڈراموں کی تاریخ نئی نہیں پرانی ہے۔ ہر دفعہ ان بوگس ڈراموں کے تحت فلمائے گئے حملوں کے مقامات تبدیل کر دیئے جاتے ہیں تاہم کہانی کمزور نکلتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کے بعد ہوابھارتی میڈیا نے حسب روایت پاکستان پر الزام لگانے میں ذرا دیر نہ لگائی لیکن بھارتی میڈیا کے ہی ایک حصے نے تمام تر واقعات پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے۔ گزشتہ روز ایئر بیس کے مین گیٹ سے بیریئر ہٹا دئیے گئے تھے اور قریبی دکانیں بھی جلد ہی بند کروا دی گی تھیں۔ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ بھارتی حکام کا رچایا ہوا ڈرامہ نکلا۔ بھارتی شہریوں نے اپنی حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، گزشتہ روز ایئر بیس کے مرکزی گیٹ کے باہر لگے حفاظتی بیرئیر ہٹا دئیے گئے تھے اور قریبی دکانیں بھی جلد بند کروا دی گئی تھیں۔ پاکستانی سرحد کے قریب رچائے گئے اس بھارتی ڈرامے میں حملہ آور ملٹری یونیفارم میں ملبوس اور سرکاری گاڑی میں سوار تھے۔ سوال یہ ہے کہ حملہ آور اگر پاکستانی تھے تو ان کے لئے بھارتی سرکاری گاڑی اور فوجی یونیفارم کا اہتمام کیسے ہوا۔ حملے کے دوران ہی کال ٹریس بھی ہو گئی۔ حملہ آوروں کے شناختی کارڈ بھی مشکوک نکلے۔ بھارت اور پاکستان میں جب بھی مذاکرات کا آغاز ہونے لگتا ہے، اچانک بھارت میں دہشت گرد حملہ ہوتا ہے اور سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ بھارتی وزیر اعظم نے حسب سابق پاکستان پر الزامات نہیں لگائے۔ آخر ہر دفعہ ایسے واقعات سرحد کے قریب ہی کیوں پیش آتے ہیں؟۔ ان واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کیوں کم ہوتی ہے۔ کیسے ہر دفعہ آسانی کے ساتھ فون کالز پاکستان سے ٹریس کرلی جاتی ہیں جبکہ پاکستانی شناختی کارڈ بھی بوگس نکلتے ہیں؟۔

پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی حملے کے ڈرامے بھی بوگس نکل چکے ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر ستیش ورما نے جو آج کل پولیس ٹریننگ کالج جوناگڑھ کے سربراہ ہیں عشرت جہاں قتل کیس میں بیان دے کر چونکا دیا تھا۔ ستیش ورما اعتراف کرتے ہیں کہ ممبئی اور پارلیمنٹ پر حملے بھارتی حکومت نے خود کرائے تھے اور ان کا مقصد دہشت گردی کے خلاف سخت قانون بنانا تھا نیز یہ بھی کہ حملوں کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کر کے دبا ؤمیں اضافہ کیا گیا ہے۔

دہلی اور ممبئی حملے بھارت میں مقیم مسلمانوں اور پاکستان سے بغرض ملاقات جانے والے ان کے عزیز و اقارب کے لئے اذیت کا سبب بن گئے تھے۔ 13دسمبر 2001کو پارلیمنٹ پر حملے کے بعد P.T.A ایکٹ اور26 نومبر 2011 کو ممبئی حملوں کے بعد یو اے پی اے قوانین میں ترامیم کے بعد بھارت کی مسلم آبادی اور عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا سید علی گیلانی سمیت ہزاروں افراد گرفتار ہوئے اور اتنے ہی ان پر مقدمات بنے۔ بھارتی پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دونوں قوانین کی من مانی تشریح کا اختیار مل گیا جسے چاہو پکڑو تدد خوف اور لالچ دے کر جو چاہو اگلوا اور ملبہ پاکستان پر ڈال دو سخت تنقید عوامی احتجاج اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبے پر 2004میں پوشا کو منسوخ کرنا پڑا لیکن یو اے پی اے کے تحت آج بھی وہاں بھارتی مسلمان آئے روز نشانہ بنتے ہیں۔بھارت کی موجودہ حکومت ہو یا ماضی کے حکمران ان کی پاکستان مخالف پالیسیاں ایک طے شدہ ایجنڈے کا تسلسل ہیں وہ حکومت کے مخالفوں کو ریاست کا باغی قرار دے کر ماورائے آئین اقدامات کرتی رہیں اور تمام ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا ۔

2004میں بھارتی انٹیلی جنس بیورو اور گجرات پولیس نے ملی بھگت کر کے ممبئی کی طالبہ عشرت جہاں سمیت چار مسلمانوں کو قتل کر کے لشکر طیبہ کے جنگجو قرار دے دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہ یہ بھارتی گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی کو قتل کرنے کے ارادے سے جا رہے تھے۔ کہ مقابلے میں مارے گئے لیکن 9 برس بعد ثابت ہوا کہ عشرت جہاں بے گناہ تھی اور سے جعلی مقابلے میں نشانہ بنایا گیا یہ کیس بھارتی عدالت میں زیر سماعت ہے ایسا ہی ایک اور معاملہ سمجھوتہ ایکسپریس کی آتشزدگی کا تھا جس کا الزام لشکر طیبہ پر عائد ہوا لیکن بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر ملوث نکلا تحقیقات ہوئیں تو بہت سے ایسے معاملات سامنے آئیں گے۔

اس سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کو بم دھماکوں سے اڑانے کے سنگین واقعے میں بھی پاکستان پر الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ لیکن بھارت کی لیڈر شپ پاکستان کے خوف سے باہر نہیں نکلتی۔ اپنے عوام کو پاکستان سے ڈرانے کے لئے وہ پارلیمنٹ پر حملے، سمجھوتہ ایکسپریس اور دھماکا خیز مواد سے بھری کشتی کے ڈرامے رچاتی رہتی ہے۔

بھارت میں 2 جنوری 2015 کو وزارتِ دفاع نے جب یہ خبر پاکستانی کشتی کو اڑا دیا گیا ہے تو بھارتی اخبارات اور چینلوں نے اپنے طور پر اس میں زیب داستاں کے لئے خود کافی بڑھایا اور کہا کہ اس خطرناک دہشت گردی نے چھ سال پہلے ممبئی میں بم دھماکوں کی المناک یادیں تازہ کر دی ہیں جس میں 160 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وہ پاکستانی دہشت گرد بھی اسی طرح سمندر سے ممبئی میں داخل ہوئے تھے۔ اس لانچ میں سوار دہشت گردوں کے بھی ایسے ہی ارادے تھے۔ وہ کشتی بھی کراچی سے آئی تھی۔ یہ کشتی بھی کراچی سے آئی تھی۔ ساتھ یہ بھی کہ تیز سمندری ہواؤں اور گھپ اندھیرے کے باعث یہ کوسٹ گارڈ کے ہاتھ نہیں لگ سکے۔ اگلے ہی مہینے انڈین ایکسپریس نے ایک وڈیو جاری کی جس میں انڈین کوسٹ گارڈز کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل بی کے لوشالی یہ دعوی کرتے دکھائی اور سنائی دئیے۔

ہم نے اس پاکستانی کشتی کو اڑا دیا۔ ہم نے انہیں اڑایا۔ میں گاندھی نگر میں تھا۔ مجھے اس کی اطلاع دی گئی۔ میں نے حکم دیا کہ اس کشتی کو اڑا دو اور کیا ہم ان کی بریانی سے تواضع کرتے۔اس انکشاف کے بعد بھارتی حکومت نے کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ وزارتِ دفاع نے پھر اپنے 2 جنوری والے بیان کا اعادہ کیا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل کوسٹ گارڈ کی طرف سے بھی تردید جاری کی گئی۔

اس سے پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کو بم دھماکوں سے اڑانے کے سنگین واقعے میں بھی پاکستان پر الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ لیکن بھارت کی لیڈر شپ پاکستان کے خوف سے باہر نہیں نکلتی۔ اپنے عوام کو پاکستان سے ڈرانے کے لئے وہ پارلیمنٹ پر حملے، سمجھوتہ ایکسپریس اور دھماکا خیز مواد سے بھری کشتی کے ڈرامے رچاتی رہتی ہے۔

Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 43925 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.