پٹھان کوٹ کا ڈرامہ اور میاں مودی

’’بھارت کبھی ہمارا دوست نہیں ہوسکتا ‘‘یہ فقرہ میں نے بہت سے تجزیہ نگار اور بزرگوں سے سنا ہے۔قیام پاکستان سے آج تک ہندوؤں نے ہماری جڑیں ہی کاٹی ہیں۔ ہر بار ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ تو اﷲ کی مہربانی سے ہم ہر بار سرخروہوجاتے ہیں۔ بہت سے بھارت پسند تبصرہ نگار اور وہ لوگ جو بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ کیا وہ کوئی ایک واقعہ بتا سکتے ہیں جہاں پر ہندوستان نے ہمارے حق میں یا ہمارے مفاد کے لیے آواز بلند کی ہو۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے حکمران بھارت سے دوستی کے چکر میں کیوں ذلیل و رسوا ہورے ہیں۔ یا تو ان کو اپنے دنیاوی آقاؤں سے اپنے اقتدار کا خطرہ ہوتا ہے یا پھر ان کا انڈیا سے کوئی ذاتی مفاد ہے۔ ہم نے تو 1947سے آج تک یہی پڑھا اور دیکھا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔

پچھلے دنوں مودی صاحب نے لاہور کا دورہ کیا ۔جس طرح انہوں نے دورہ کیا ایسے توآقا اپنے غلام کے گھر بھی نہیں جاتا۔ کیا اب دنیابھر کے حکمران سوشل میڈیا کے ذریعے دورے کیا کریں گے؟ اگر اب سوشل میڈیا نے یہ کام کرنا ہے تو پھر یہ دفتر ، سیکرٹری اور دوسرے بھاری بھر تنخواہیں لینے والے ملازمین کو فارغ کردیں۔ بس کبھی فیس بک اور کبھی ٹیوٹر پر پیغام دیکر سب کا آگاہ کردیا۔ اس طرح ملک کے خزانے کا بوجھ بھی کم ہوگا اور جو دفتر کی جگہیں بچیں گی ان کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کرلیں۔

مودی کے دورے پر میں نے بہت سے لوگوں سے سنا کہ یہ پاکستان اور بھارت کا ملاپ نہیں تھا بلکہ یہ میاں مودی کا پرسنل تعلق تھا جو ملکی خزانے پر بوجھ بنا اور فائدہ میاں صاحب نے اٹھایا۔ اگر سوچا جائے تو واقعی اس ملاقات کے بعد کوئی ایسی مشترکہ پریس کانفرنس بھی نہ ہوئی جس پر میڈیا دونوں حکمرانوں سے کچھ سوالات کرکے عوام کو مطمئن کرسکتے۔میڈیا مودی صاحب سے کم از کم یہ توپوچھتے کہ مودی صاحب آپ پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے افغانستان میں جو زبان ہمارے لیے استعمال کرکے آئے ہو وہ کیا تھی؟ میاں مودی کی ملاقات میں سوائے میاں فیملی کے اور کوئی خاص قابل ذکر شخصیت نہیں تھی۔

بھارت سے دوستی کے حق میں کوئی میاں برادران اکیلے ہی نہیں ہیں ان سے پہلے مشرف صاحب بھی امن کی آشا اڑانے چلے تھے ان کے نقش قدم پر ق لیگ، پیپلز پارٹی اور اب میاں صاحب بھی چل پڑے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات ہوں۔ میں بھی اس حق میں ہوں کہ پاک بھارت تعلقات اچھے ہونے چاہییں مگر برابری کی سطح پر۔لیکن کیا کریں یہاں توبرابری کیا زمین آسمان جتنا فرق ہے۔بھارت میں کوئی واقعہ ہوجائے اس کا فوری الزام یا گھوما پھر اکر پاکستان پرلگادیاجاتاہے۔کیا کبھی ہندؤوں نے بنگلہ دیش یا افغانستان کا بھی نام لیا۔

ابھی کل کی بات ہے جب پٹھان کوٹ پر بھارتی ایجنسیوں نے جو ڈرامہ رچایا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ یہ پٹھا ن کوٹ کیا ہے یہ بھی ذرا پڑھ لیں۔ پٹھان کوٹ (Pathankot) بھارت کی ریاست پنجاب میں ایک میونسپل کارپوریشن ہے۔ یہ ضلع پٹھان کوٹ کا صدر مقام بھی ہے۔ 1849 سے قبل یہ نوابی ریاست نورپور کا ایک حصہ تھا۔ پٹھان کوٹ آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بھارت کا جموں و کشمیر کے ساتھ جوڑنے والی نیشنل ہائی وے پر پنجاب کا آخری شہر ہے۔

ہفتے کی صبح پٹھان کوٹ ائیربیس پر 5 حملہ آوروں نے 3 اطراف سے اچانک حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 4 بھارتی فوجی ہلاک جب کہ 5 اہلکارزخمی ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 5 حملہ آوربھی مارے گئے۔ حملہ آورفوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے ایئربیس میں داخل ہونے کے لیے پولیس کی گاڑی استعمال کی تھی۔ واقعے کے بعدفوری بھارت کے وزیر مملکت برائے داخلی امور کا پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پٹھان کوٹ میں حملہ کرنے والے گروپ کو سرحد پار کے بعض عناصر سے تعاون حاصل تھا۔

بھارتی پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ کے ایئر بیس پر ہونے والے حملے کے بعد سے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ اس کا الزام پاکستان پر ڈالا جائے جب کہ بھارتی حکومت نے بھی اپنی نااہلی چھپانے کے لیے حملہ آوروں کو سرحد پار سے امداد ملنے کا الزام لگایا ہے تاہم بھارتی میڈیا نے مودی سرکار کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے متعدد سوالات اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے ایئربیس پر حملے کا معاملہ پراسرار ہوگیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق گزشتہ روز ہی ایئر بیس کے مرکزی دروازے کے سیکیورٹی بیریئر ختم کردیئے گئے تھے جب کہ قریبی علاقے میں معمول کے مطابق رات 10 بجے بند ہونے والی دکانوں کو زبردستی6 بجے ہی بند کرادیا گیا تھا۔بھارت کی ناپاک چالیں ان کے اپنے شہریوں نے ناکام بنا دیں ۔ اس سے پہلے پچھلے سال جولائی میں بھی ایسا ہی ڈرامہ رچایا گیا اور اس پر بھارتی میڈیا نے بڑا پروپگنڈا کیا اور آخر میں منہ کی کھانا پڑی۔

اب ان پاکستانی ان حکمرانوں سے پوچھا جائے جو بھارت سے پینگیں بڑھا نے میں پیش پیش ہیں۔ ابھی تو میاں مودی ملاقات کی مٹی بھی نہیں سوکھی اور بھارت نے پھر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے۔آخر ہم کب سمجھیں گے؟ کب ہماری پالیسیاں تبدیل ہونگی؟ بھارت اپنی مکارانہ چال سے ہمیں نقصان پہچانے کے در پر ہے اور ہمارے حکمران امن کی آشا کے چکر میں پاکستان کو رسوا کرارہے ہیں۔ آج سوائے چین کے ہمارے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بنگلہ دیش بھارت کے ساتھی اور ہماری مخالفت میں ہیں۔کل تک جو ہمارے اپنے بھائی تھے آج ہمارے دشمن کے ساتھ کیوں مل رہے ہیں؟ ہمارا مذہب تو غیر وں کو اپنا بنانے کا سبق دیتا ہے اور آج ہمارے اپنے ہم سے دور کیوں ہورہے ہیں؟ کیا اس سوال کا جواب ہے کسی سیاستدان یا حکمران کے پاس؟اب بھی آنکھیں کھول لوہمیں انڈیا نہیں بلکہ اپنے اسلامی ممالک عزیز ہونے چاہیے کیونکہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوسکتا ہے مگر کافرنہیں۔

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 235096 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.