ذوالفقار علی بھٹو بھی شرمندہ ہیں……؟؟؟

ذوالفقار علی بھٹو کی آج 87ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، اخباری بیانات میں بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں، کارکنان کے نام پر اٹھائی گیروں کو گڑھی خدا بخش بھی لے جایا رہا ہے وہاں تقاریر بھی ہوں گی قراردادیں بھی منظور کی جائیں گی لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا، پیپلز پارٹی جو آج کل سابق عدالتی آمر اور فوجی ڈکٹیٹر کی طرح غیر فعال ہے اور اسکی لے پالک پیپلز پارٹی پارلیمنٹینئرین بھی غیر موثر ہو چکی ہے البتہ ان دونوں جماعتوں میں قدر مشترک پی پی پی کے نام پر سندھ اور سینٹ میں برسراقتدار ہے۔اور پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقعہ پر سابق صدر اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو مخدوم امین فہیم کا جانشین منتخب کرلیا ہے اس طرح زرداری صاحب زوالفقار علی بھٹو کے بعد مخدوم آف ہالہ امین فہیم مرحوم کے بھی جانشین ہوگئے ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب کے معاملات سے کوسوں دور ہے جیسے زرداری صاحب پانچ سال اقتدار کے مزے اڑانے کے بعدآج پیپلز پارٹیاور پاکستان کے عوام سے دور دبئی جا بسے ہیں۔بھٹو خاندان کے نام پر جان چھرکنے والے کارکنان ضیا آمریت اور اسکے بعد بھی یہ نعرہ مستانہ بلند کیے رہتے تھے ’’ بھٹو ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘ پھر یہ نعرہ 2008 سے آج تک یوں لگتا رہا ہے کہ’’ بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘نعرے لگتے رہے لیڈر ان نعروں کی لذت سے محظوظ ہوتے رہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو،ان کے فرزند میر مرتضی بھٹو اور ان کی سب سے پیاری اور لاڈلی دختر نیک اختر بلکہ جان ذوالفقار علی بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید عالم برزخ سے مسلسل سرزمین پاکستان پرنگاہیں گاڑھے ہوئے ہیں کہ نہ جانے کب ان کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور وہ اس منظر کانظارہ کرنے سے محروم رہ جائیں۔

ذوالفقار علی بھٹو ،بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو عالم برزخ سے اپنے کارکنان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’ اے ہمارے جانثارو!ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارے قاتل زندہ ہیں‘‘وہ اس بات پر بھی متفکر ہیں کہ بھٹو ازم کو زرداری ازم یا پھر ڈاکٹر عاصم ازم میں تبدیل کردیا گیا ہے ، اور انکے نام کو محض اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،زوالفقار علی بھٹو شہید ،بی بی بے نظیر بھٹوگلہ کرتے ہیں کہ’’مرد حر‘‘ کا خطاب رکھنے والے ،اور نان سیاسی ایکٹروں کو للکارنے اور انکی اینٹ سے اینٹ بجانے اور خیبر تاکراچی کو بندکرنے کے دعوے کرنے والے اب طالبان کی طرح ’’ بلوں‘‘ یعنی دبئی میں جا بسے ہیں اور بی بی بے نظیر بھٹو کو اپنی قائد قرار دیتے نہ تھکنے والے ان کی برسی میں بھی شریک نہیں ہوئے۔یہ پی پی پی کا بہت بڑا المیہ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ شبہ اس ارض پاک کے لیے قدرت کی جانب سے ایک نادر قیمتی عطیہ تھا وہ بلا کے ذہین، فطین معاملہ فہم اور اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن ،اور بڑے سے بڑے سیاستدان اور زیرک حکمرانوں کو مذاکرات کی میز پر بچھاڑنے کی قدرت رکھتے تھے۔انہوں نے جس برق رفتاری سے پاکستان اور اسکے عوام کو اپنے سحر کا زیر اثر بنایا وہ دنیا کی تاریخ میں بہت کم سیاستدانوں کے حصہ میں آیاہے۔ان کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 1971 کی جنگ میں ایک ہارے ہوئے فریق کی حثیت سے بھارت کو اپنی شرائط پر مزاکرات کی میز پر بچھاڑا، اپنا مقبوضہ علاقہ بھارت سے واپس حاصل کیا اور بنا مقدمات چلائے اپنی جنگی قیدی بھی بھارت کی قید سے واپس لائے۔یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں ……شام اور دیگر عرب ممالک اسرائیل سے اپنے علاقے آج تک واپس نہیں لے پائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں ان پر طرح طرح کے الزامات لگانے والے ہزار جتن کرنے کے باوجودان پر کرپشن اور بدعنوانی کا الزام نہ لگا سکے اور دنیا کی حالت زار خصوصا اسلامی ممالک حکمرانوں کی زبوں ھالی اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اگر بھٹو صاحب کو چند سال اور مل جاتے تو اسلامی دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔لیکن اﷲ تعالی نے جو کام ذوالفقار علی بھٹو سے لینا تھا وہ انہی چند برسوں میں لے لیا۔ پاکستان کو دستور اور وہ بھی متفقہ دستور، ان کے نام لکھا تھا سو وہ انہوں نے ارض پاک کو عطا کیا، عالم اسلام کے قلعہ پاکستان کو ایٹمی قوت ان کے ہاتھ سے بنوانا تھا سو یہ کام بھی قدرت نے ان سے سرانجام دلوایا۔دنیا بھر کے بے زبان غریب عوام کو جرآت اظہار عطا کرنا ان کے سپرد تھا۔ آج کوئی جتنے مرضی دعوے کرے کوئی روک نہیں سکتا مگر حقیقت حقیقت ہوتی ہے اور حقائق کو جھٹلانا ممکن نہیں،آج پاکستان کو دہشت گردی کی جس دلدل سے نکالنے کے آپریشن ضرب عضب کیا جا رہا ہے اور جس کراچی آپریشن کی کامیابی کا کریڈت لینے کے لیے حکمران سینے پر ہاتھ مار کر دعوے کر رہے ہیں یہ سب مسائل پاکستانی قوم کو بھٹو دشمنی میں دئیے گئے ہیں، بھٹو صاحب نے تو ضیاء ٹولہ کے کہا تھا کہ ملک میں موجود بحران کی چابی ان کی جیب میں ہے اور وہ چابی فوری انتخابات تھے لیکن ضیائی تولہ اپنے غیر ملکی آقاوٗں کی منشاء کے لیے بھٹو صاحب کی فتح کے خوف سے انتخابات کروانے سے انکاری ہو،ااور ملک کو طالبان اور ایم کیوایم جیسی مصیبت سے دوچار کرگیا،

پاکستان میں جو عزت ،محبت ،چاہت اور پیار اور وقار پاکستان عوام سے ذوالفقار علی بھٹو کو ملا وہ بلا شعبہ قائد اعظم محمد علی جناح کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوا،زرد صحافت کے علمبردار صحافیوں ،دانشوروں اور فوجی آمروں نے ان کی کردار کشی کے لیے تمام اخلاقی حدود کو عبور کیا، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو تک کے متعلق اخلاقی سے گری باتیں (قصے کہانیاں) تراشی گئیں لیکن پاکستانی عوام نے انہیں شرف قبولیت بخشنے سے انکار کیا اور تمام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو فتح سے ہمکنار کیا……یہ کوئی معمولی بات نہیں ایک تاریخ ہے اور تاریخ روز روز نہ بنتی اور لکھی جاتی ……بھٹو صاحب کے مقابلے میں دشمن ہمیشہ اتحاد کی صورت میں سامنے آئے کیونکہ اکیلے اکیلے بھٹو صاحب کا مقابلہ کرنا ان بے چاروں کے بس میں نہیں ،ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ بھٹو صاحب جیسا مقدر دنیا میں نہیں تو کم از کم پاکستان میں کوئی سیاستدان لکھوا کر نہیں آیا……مخالفت اور محبت دونوں میں ذوالفقار علی بھٹو اپنی نظیر خود تھے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.