ادب انسانی زندگی کا عکاس اور ترجمان ہے یہ کسی بھی قوم
کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی ارتقاء کی نشاندہی کرتا ہے ہمارے درمیان موجود
تکنیکی و ذہنی ہم آہنگی انہی تحریوں کا طلسم ہے جسکے حصار سے باہر جانا
ممکن نہیں.شاعر اور ادیب کو معاشرے کا کاہل یا باغی فرد سمجھنا بھی درست
نہیں اسکا تعلق ملک کی سائنسی ترقی اور عمرانی علوم کے فروغ اور بہتر
معاشرے کی تخلیق سے بہت گہرا ہوتا ہے جبکہ زبان کی ترقی و ترویج کا انحصار
دو باتوں پر ہوتا ہے-
ایک تو اسکا ادبی سرمایہ اعلی معیار کا ہو دوسرے مختلف علوم و فنون پر مبنی
معلوماتی بیش قیمت کتبی ذخیرہ
اردو کو ایک قدیم زبان کے حوالے سے روشناس کرانے کا سہرہ مولوی عبدالحق کی
سرکردگی میں انجمن ترقی اردو کے سر جاتا ہے اسکے علاوہ پرنٹ میڈیا
جسکاـآغاز ہندوستان میں جیمس آگسٹس بکی نے بنگال گزٹ انگلش ۱۷۸۰-
پنڈت جگل کشور شرما شکلا نے اونت مارتنڈ ہندی ۱۸۲۶ کلکتہ اور دہلی سے
مولانا باقر علی نے کیا دو دہائیوں تک ادب کی ترقی و ترویج کے لیے کامیابی
سے کام کرتا رہا اردو ادب میں ایسے شہ پارے تخلیق ہوئے جوـآج بھی اسکی جان
ہیں مولوی عبدالحق،سرسیدـ احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد،اکبر الہ
آبادی،حالی، آزاد،انیس، شبلی نعمانی، اسمعیل میرٹھی،داغ،جگر اور اقبال جیسے
نام سامنے آئے غرض ایک طویل فہرست اس پس منظر میں شامل ہے پھر آہستہ آہستہ
بدلتے وقت کےـساتھ اس میں کاروباری عنصر شامل ہوگیا پرنٹ میڈیا پر اشتہارات
کی بھرمار نے عام قاری کو الیکٹرانک میڈیا کی طرف متوجہ کردیا ریڈیو پھر ٹی
وی اور بڑے پردے نے اپنا رول ادا کرنا شروع کردیا لیکن ایک وقت ایسا بھی
آیا کہ اس نے اپنی ان حدود سے تجاوز کرلیا جو ہندو پاک کی تہذیب و ثقافت
اور اقدار و روایات کی وراثت تھی موجودہ نسلیں کمرشل ازم اور کنزیومر بیسڈ
ویلیوز میں پروان چڑھ رہین ہیً جو کہ سرمایہ داری نظام کی منافع خوری سے
متعلق ہیں اور یہ ادب و صحافت سے متعلق ہر شعبے کا احاطہ کامیابی سے کررہا
ہے.جس میڈیا کومعاشرے کی عکاسی اور ادب کی ترقی وترویج کے لیے کام کرنا
چاہیے تھا وہی اس سے دوری کا سبب بن گیا غیر معیاری اور غیر اخلاقی
پروگرامز فلموں شوز اور اشتہارات نے یہان بھی اپنا قبضہ جمالیا جن سے نئ
نسل بخوبی آگاہ تھی پر اس بات سے لاعلم کہ ادب کے حوالے کہان اور کس موضوع
پر کہاں تک کمپیوٹر ریسرچ ہورہی ہے یا ہوچکی ہے علمی کتبی ذخیرہ کاروباری
منافقت کی نذر ہوگیا اور عام پہنچ سے بہت دور جس سے ہر سال دو ڈییسیبل صوتی
آلودگی میں اضافہ ہونے لگا پھر نیٹ کے ساتھ کمپیوٹر کی آمد نے بھی انسانی
زندگی پر اپنے اثرات مرتب کیئے لیکن اسکے مفید یا مضر ہونے کا انحصار اس
بار انسانی صوابدید پر مکمل طور پر تھا طویل مسافتوں پر قائم جامعات کے
روابط آسان ہوگئے. نئ ریسرچ اور ادبی و سائنسی موضوعات سے متعلق کتب تک
رسائ آسان ہوگئ یہانتک کہ اسمارٹ فونز نے پوری دنیا کو گویا ایک عام آدمی
کی پاکٹ میں سمیٹ دیا-
اس نے بھی زبان و ادب کی ترقی مین اہم رول ادا کیا مختلف زبانوں مین اردو
ادب کے تراجم مزید آسانی سے ہونے لگے آج اردو زبان سیکھنے والوں میں اضافہ
ہورہا ہے کوئ قومی زبان کے طور پر، کوئ علمی و ابی اور تحقیقی ضروریات کے
پیش نظر تو کوئ بین الاقوامی روابط کی زبان کی حیثیت سے اسیے سیکھنا چاہتا
ہے.
ہم اکثر اپنے فرسودہ تعلیمی نظام کا رونا روتے ہیں ٹھیک ہے اسے بدلنا کسی
فرد واحد کے اختیار میں نہیں پر ہم اسے جدید سائنٹیفک طریقون سے ہم آہنگ
کرکے کسی حد تک بہتر بنا سکتے ہیں کوئ بھی سائنسی تحقیق انسانی ذہن کے بنا
روبہ عمل نہیں الیکٹرانک میڈیا کا مثبت استعمال ہماری اپنی سوچ اور اقدار
پر منحصر ہے نئ نسل میں سیکھنے کا شعور موجود ہے ہم اسے الزام نہین دے سکتے
ضرورت ہے بس صحیح خطوط پر اسکی تربیت کی اپنے معمولات زندگی پر اسے حاوی نہ
کریں ایک ٹائم ٹیبل ترتیب دین اپنی زبان و ادب اور اخلاقی ومعاشرتی تربیت
کا آغاز آپ اپنے گھرـسے باآسانی کرسکتے ہین میڈیا آپکے بہترین ساتھی کے طور
پر سامنے آئے گا اسکو غیر اخلاقی سرگرمیوں کا گڑھ بنانے کے بجائے پوری دنیا
مین اپنی ادبی و ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کریں درس
وتدریس کے فرسودہ طریقون کو رد کرتے ہوئے اسےنئ جدتوں اور ضروریات سے ہم
آہنگ کرکے طالبعلم کی دلچسپی کا سامان پیدا کیا جائے ہر طرح کے مضامین اور
شعری موضوعات کے لیے پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک مدد لی جائے
بلا ضرورت ایس ایم ایس ،مختلف قسم کی میڈیا چاٹ اور میسیجس کا رحجان بھی کم
کیا جاسکتا ہے ہوم ورک کے طور پر دیا جانے والا کام کے لے طالبعلموں میں
انھین مراسلے یا مختلف ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی تحریک دی جائے ہوسکتا ہے
کل ان مین ہی سے کوئ بہترین ادیب، شاعر یا صحافی کے طور پر سامنے آئے-
اگر اسکے بڑھتے ہوئے ریشو کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی کل آبادی کا محض
0.2%حصہ داری رکھنے والے یہودیوں کی میڈیا میں 98%کی شراکت داری ہے جبکہ
لٹریچر کے 22%نوبل انعامات بھی انھوں نے ہی جیتے ہیں کیا یہ بات قابل غور
نہین کہ ہندوستان مین آبادی مین 15%حصہ دار برہمنون کا ہندوستانی میڈیا میں
59% کی حصہ داری ہے دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ ہندوستان مین ہی 2% عیسائ
بھی انگریزی میڈیا میں 98% ہے المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کج آبادی جو 13%
مصدقہ اور 25%غیر مصدقہ ہے کا اگر2% بھی تخمینہ لگایا جائے تو بھی وہ ہندی
اور اردو میڈیا کو شامل کرکےاور انگلش میڈیا میں شمولیت نہ ہونے کے برابر
جبکہ پاکستان میں یہ ریشو مزید کم ہوجاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی
نئ نسل میں ادبی زوق پیداکرنے کے لیے کام کرین ادب کو بدلتے تقاضوں سے ہم
آہنگ کرنی کی سادگی ،حقیقت پسندی اور اخلاقی بنیادون پر اسکی افادیت اپنانے
کی کوشش کرین نئے لکھنے والوں کی جدید خطوط پر غیر جانبدارانہ تربیت اور
حوصلہ افزائ کرین ہمیں اس اسلوب کو اختیار کرنا ہوگا جو ہمیشہ سے ہماری
روایات کا حصہ رہا ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے ہائے زندگی میں کسی بھی طریقے
سے ہو تبھی ہم اقوام عالم مین ایک مضبوط اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر
ابھریں گے. |