انسان' مٹی سے تخلیق ہونے والا پہلا متحرک
بت ہے۔ اس بت کو' غور و فکر اور تخلیق و اختراع کی' بےشمار شکتیوں سے
سرفراز کیا گیا۔ انسان اپنی ان شکتیوں کو' منفی اور مثبت' گویا دونوں
حوالوں سے' استعمال کرتا آ رہا ہے۔ بت تراشی اور بت پرستی' روز اول سے اس
کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اس ذیل میں اس کے پانچوں حواس' خواہش سے ہوس کی حد
تک' متحرک رہے ہیں۔ غالب نے بڑی خوب صورتی سے' بصارتی حظ کو واضح کیا ہے۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
کھانے کی رنگت' خوش بو اور پیش کش اپنی جگہ' اس کے ہونے کا احساس نہال کر
دیتا ہے۔ ذائقہ اور سیری کا نمبر' تو بعد میں لگتا ہے۔ گویا بتوں سے تعلق
واسطے کو' کسی طور پر انسانی زندگی سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں
میں یوں کہہ لیں 'انسان اور بت' چولی دامن کا رشتہ رکھتے ہیں۔
معاملہ اگر بت تراشی برائے مثبت استعمال اور بہ قدر ضرورت رہے' تو گڑبڑی کا
دروازہ نہیں کھلتا' لیکن جب ہوس اور مزید کا پرندہ پر پھیلاتا اور لامحدود
کی پرواز پر نکل کھڑا ہوتا ہے' تو انسانی اور فطری ضابطے دم توڑ کر' پرستی
کی راہوں پر چل نکلتے ہیں۔ گڑبڑی یہاں سے شروع ہو کر' روز اول ملی انسانی
عظمت' غارت کر دیتی ہے۔ اس طرح انسانی عظمت' نہ تیتر رہتی ہے' نہ بٹیر۔ اس
قماش سے متعلق' دیکھنے میں انسان لیکن باطنی سطح پر ڈنگر بھی نہیں رہ پاتا۔
لوگ اس کے باطنی ہبل سے' خوف زدہ رہتے ہیں۔ مذہبی واجبات کی باقاعدہ
ادائیگی اور پابندی کے باوجود' وہ خوف کی علامت بنا رہتا ہے۔
جو بھی سہی' پیکر تراشی بڑا زبردست اور متاثر کرنے والا فن ہے۔ آزر کے
تراشے گیے بتوں میں' جلال و کمال کی شکتی رہی ہو گی' جو انسان سا اکڑ خان
اور میں کا پتلا' ان کے سامنے سرنگوں ہو جاتا تھا۔ الله کے بنائے متحرک اور
باعلم پتلے کے سامنے' باازن خالق جھکنے کی بات' سمجھ میں آتی ہے' لیکن غیر
متحرک پتلے کے سامنے سجدہ ریزی' اس امر کی غماز ہے' کہ اس میں کوئی بات تو
ضرور رہی ہو گی۔ عادتا اور روجا کسی معاملے کا چلے آنا' محدود کے دائرے سے
باہر نہیں آتا۔ یہ معاملہ تو یونان سے ہند' یا ہند سے یونان تک' ایک ہی یا
ایک سی سطح پر دکھتا ہے۔
فاخرانہ لباس میں' پورے پہار کے ساتھ تاج شاہی پہنے' تخت اقتدار پر بیٹھا
باطنی سطح پر ناہی سہی' ظاہری طور پر جان کی امان پانے والے یا مطلب بر کو
کورنش قسم کی چیز بجا لانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان کا یہ فعل' غیر فطی سا
نہیں ہو گا۔ تخت اقتدار پر بیٹھا شخص رعب و جلال کا حامل ہوتا ہےاور غصہ
اکڑ توڑ ہوتا ہے۔ نہیں یقین آتا' تو پنجاب کی مہا منشی گاہ میں چلے جائیں'
اس کہے کا عملی نظارہ کر لیں' میرے کہے پر یقین آنے لگے گا کہ بت کی وجاہت
متاثر کرتی ہے۔ اس طرح اس کا جمال یا کوئی ادا جوگ سے مشکل گزار راہوں پر
چلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
پیکر تراشی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلا
سماعتی پیکر' آواز کی سمت و نوعیت پر انحصار کرتے ہیں۔
بصارتی پیکر' جو اور جیسا دکھائی دینے سے تعلق کرتے ہیں تاہم دیکھنے کا
زاویہ بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
خوابی پیکر' زیادہ تر لاشعور سے متعلق ہوتے ہیں۔
بعض اوقات' کوئی خواہش متشکل ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔
شخصی امور کا انشراع بھی' تجسیم اختیار کر سکتا ہے۔
الله کے خصوصی احسان کے تحت کوئی انکشاف یا اشارہ خوابی پیکر اختیار کر
سکتا ہے۔
بصیرتی پیکر سوچ' سمجھ' تجربہ' مطالعہ وغیرہ کے زیر اثر تشکیل پاتے ہیں۔
الہامی' کشفی اور وجدانی پیکر ان سب سے جدا تر ہیں۔ ان میں الوہیت کی تجلی
کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ہر کسی کے حصہ میں نہیں آتے۔ یہ صاحب جذب و سلوک کے
قرطاس دل پر باصورت امر ربی' ترکیب و تشیل پاتے ہیں۔
چھٹی حس ہنگامی نوعیت کے محرکات پر ایمیج تشکیل دیتی ہے
پیکر پہلے فکری میں جنم لیتے ہیں۔ جب واضح اور پختگی اختیار کرتے ہیں تو اس
کے بعد محاکاتکر اسے مادی شکل دیتا ہے۔ شاعر شاعری میں' جب کہ فیکشن رائٹر
انہیں اپنی نثر میں تشکیل دیتا ہے۔ ہو بہو تصاویر آنکھوں کے سامنے گھوم
گھوم جاتی ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر دیکھیے۔
چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل' کبھی ایسی تو نہ تھی
اس شعر کے پس منظر سے آگاہ شخص' لرز لرز جاتا ہے اور اسے بہادر شاہ ظفر کی
ذہنی اور قلبی کیفیات کا باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
میر صاحب کا یہ شعر عرف عام میں ہے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب سی ہے
استاد گرامی غالب کا یہ شعر دیکھیں۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے
جوش قدح سے بزم' چراغاں کیے ہوئے
ہر سہ اشعار' مختلف نوعیت کےایمج تشکیل دے رہے ہیں۔
پروفیسر صوفی عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی' صرف نثار اور انشاپرداز ہی نہیں
ہیں' خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں ناصرف گزرے کل بل کہ عصر رواں
کا شخص' چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں' باطور واقع نگار بھی
سامنے آتے ہیں۔ بڑی نفاست' ہنرمندی اور کمال کے سلیقے سے' مختلف نوعیت کے
پیکر بھی تراشتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح منظرکشی کا کام بھی کیے چلے جاتے
ہیں۔ قاری ان مناظر اور تجسیمات کے سحر میں کھو کر' اپنے موجود سے یکسر
بےخبر ہو جاتا ہے۔
اس ذیل میں' ان کی طویل نظم ۔۔۔۔۔۔۔ طاق ابد پہ رکھے ہوئے چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا
ایک پیکر پیش کر رہا ہوں۔ آزر جلال میں ڈوبی ضلالت' تشکیل دیتا تھا' جب کی
صوفی ساحر کے ہاں تشکیل پانے والے ایمیج میں' روحانیت کے چراغ جلتے نظر آتے
ہیں۔ میں انہیں ان کے اس لسانی وفکری رویے کے حوالہ سے' اس عہد کا ضد آزری
سجھتا ہوں۔
کائنات ضدین پر استوار ہے۔ زندگی میں ان کے متوازی چلنے کی' ان گنت مثالیں
پیش کی جا سکتی ہیں۔ بت تراشی اوربت پرستی کے ساتھ ساتھ' بت شکنی اور خدا
پرستی بھی ملتی ہے۔ آج کے بت پرست عہد میں' صوفی ساحر نے الگ سے رستہ
تلاشلا ہے۔ آزر ضلالت کے مقابل' سچائی کا پیکر تراشا ہے۔ یہ روشنی کا امین
پیکر ظلمت اسیر زندگی کو' حق سچ کی بصیرت سے منور کر رہا ہے اور ضدین کے
فلسفے پر اس کے ہونے کی مہر ثبت کر رہے ہیں۔ صوفی ساحر کا پیکر جسم و جاں
میں اویسی و سلمانی نغمے چھیڑ کر کیف ومستی کی فضاؤں میں خوش بو بکھیر دیتا
ہے۔ من کے خشک اور بنجر صحرا میں پریم گنگا بہنے لگتی ہے۔
صوفی ساحر کے قلم سے نکلے چند ایمیج ملاحظہ فرمائیں۔
بصارتی: بدن کی خانقاہ
بصیرتی: ریاضات کے موسم
ان دونوں کے باہمی ملاپ اور قربت سے
شخصی: انا کے زاویے
انا کے زاویے
فنا سے دوچار ہو سکتے ہیں اور نئی سمت کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ میں کے ہوتے'
تبدیلی کے امکانات مفقود کی وادی سے' نکل نہیں پاتے۔ جوں ہی یہ دم توڑتے
ہیں' شخصی رجحانات نئی سمت کی جانب بڑھ سکتے ہیں. ان کی منزل
کشفی: نئی تشکیل
ٹھہرتی ہے اور یہ سب اوج آدمیت پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی میں ناہیں سبھ توں
کا ہدف اس کے بغیر ہاتھ آ ہی نہیں سکتا اور
الہامی: صحیفے
اتر کر
ہونے کو ہونا' قرار دیتے ہیں۔ اس ذیل میں ذرا یہ لائین ملاحظہ فرمائیں
'جہاں موسم
وجود ذات کا اثبات کرتے ہیں
'اور پھر
کثرت کے پردوں میں بس اک منظر ابھرتا ہے
اپنی اصل میں وہ منظر' حقیقت کا منظر ہے' جسے فنا نہیں اور یہ حقیقت زمان و
مکان کی حدود و قیود سے باہر کی ہے۔
مدینہ ایسی بستی ہے کہ
جس کے سامنے سارے زمانے
ہاتھ باندھے سرنگوں ہیں
کیوں سرنگوں ہیں
بصارتی: مدینہ
:بصیرتی
مدینہ اک حقیقت ہے
مدینہ نورونکہت کا خزینہ ہے
مدینہ رحمتہ اللعالمینی کی علامت ہے
مدینہ روشنی اور چاندنی کا استعارہ ہے
اس حقیقت کی عملی صورت کچھ یوں ہے۔
آسماں کے اس طرف آباد بستی کے مکین
اس شہر اور اس شہر والے کی زیارت کرنے والے
کی زیارت کرنے آتے ہیں
ابد آباد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا
مزید یہ کہ
وہ جو کچھ ہو محبت کی زبانی ہو
مدینے کی فضا اس کو سدا آباد رکھتی ہے
ہمیشہ شاد رکھتی ہے
بلھے شاہ قصوری کے ہاں تو کی زبانی اس حقیقت کو یوں واضح کیا گیا ہے۔
بلھے شوہ!
اسیں مرنا نئیں گور پیا کوئی ہور
حق اور سچ سے متعلق آگہی' ادب اور احترام کے کوچہ میں لے آتی ہے۔ احترام
مزید کے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ مزید آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کا
سبب بنتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون جسم و جاں میں عقیدت کے گلاب
کاشت کرتا ہے۔ ٹھنڈک' سکون اور خوش بو پریم کے پودے کا بیج' اس کے دل میں
بو دیتے ہیں۔ جو آگہی سے اپنا رزق پاتا رہتا ہے۔ اس بلوغت پھر بڑھاپے کی
طرف بڑھنے لگتا تو اس کی جڑیں' دل کے پتال میں پہنچ کر' اپنے ہونے پر امرتا
کی مہر ثبت کر دیتی ہیں۔ اہل نظر اور اہل ظرف اس شجر آگہی سے' استفادہ کرتے
ہیں اور اسے عشق کا نام دیتے ہیں۔
یہ عشق ہی' اہل فنا کی نماز ہے۔ عشق اپنی اصل میں' نشہ ہے۔ اس نشے سے الگ
تر' کوئی نشہ اہل عشق کے لیے حرام ہے۔ اہل سلوک کی عقیدت احترام یا ادب کے
سبب ۔۔۔۔۔ میں ہوں۔۔۔۔۔ کا شک تک گزرنا' اس میں روا نہیں۔ اہل فنا کا ہر
کرنا' الله کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی یا اپنے گمان کو درمیان
میں لاتا ہے' تو نماز عشق غارت ہو جاتی ہے یا اس نماز کی طرف' بڑھا ہی نہیں
گیا ہوتا۔ اسے کچی مٹی کے ظرف کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ کسی نوع کے نشہ
میں ہونے کی صورت میں' نیت نماز ممکن ہی نہیں۔ نشے کی حالت میں' جائے نماز
کی طرف رخ کرنا واجب ہی نہیں۔ نشے کی حالت میں نماز دوئی کا شکار رہتی ہے۔
دوئی شرک ہے اور دوئی سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں۔
عاشق کا ظاہر' ممکن ہے متاثر نہ کرے' لیکن اس کے باطن سے نکلی خوش بو'
سرحدوں میں نہیں رہتی۔ آفاق کی جملہ وسعتوں کا دامن کم پڑ جاتا ہے۔ خوش بو
اپنے کرے میں رہتے ہوئے' سفر کرتی چلی جاتی ہے اور مخلوق خداوندی' اس سے
اپنے موجود ظرف کے مطابق' استفادہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس خوش بو کو کوئی من
میں' تو کوئی آنکھ میں سماتا چلا جاتا ہے۔
حق اور حق کے سوا کچھ نہیں' کی خوش بو' مدینے سے چلی' تو نجف تک کے علاقوں
کو معطر کرتی چلی گئی۔ اس سفر کا منظر کیا رہا ہو گا' اس کا تصور بھی عرش
بریں کی سیر سے' کسی طرح کم نہیں۔ اس میں کوئی بات تھی' تب ہی تو صوفی ساحر
بے اختیار کہہ اٹھا۔
مدینے سے نجف آنے کا منظر
ایک منظر تھا
وہ منظر'
آسمان کی آنکھ نے محفوظ کر رکھا ہے
:بات یہاں تک ہی محدود نہیں
اور اب تک اسی منظر کو
دامن میں سمو لینے پہ نازاں ہے
غور فرمائیں صوفی ساحر کیا کہہ رہے ہیں
بصیرت اور بصارت جو کہ چشم فلک میں
اب تلک باقی ہے
وہ ایسے مناظر کی بقا کے رنگ اور خوش بو سے
زندہ ہے
ہر چیز' زمان ومکان کی قید میں ہے۔ لفظ مناظر استعمال کیا گیا ہے' جو مرکزے
میں رہتے' خوش بو کی مرکزے سے باہر کی مہاجرتوں کو' واضح کرتا ہے۔ یہ امر
بلاشبہ خوش بو کو لمحوں اور جگہوں کی گرفت سے باہر کا قرار دیتا ہے۔
صوفی ساحر نے خوش بو' اس سفر کے طور کو' فقط چند لفظوں میں بیان کرکے' اپنے
سوچ کی فصاحت و بلاغت کا' قابل تحسین ثبوت فراہم کیا ہے۔ ملاحظہ
فرمائیں۔۔۔:
وہ منظر ایسا منظر تھا
کہ اس جیسا کوئی منظر
ازل کے روز سے لے کر
فلک کی چشم آثار نے
اب تک نہیں دیکھا
بےشک' بےشک' بےشک نہیں دیکھا ہو گا۔
کیوں
صوفی ساحر نے اس کا جواب بھی پیش کیا ہے۔
علی مشکل کشا
اس شہر خوش آثار کی مٹی میں
خوش بو بو رہے تھے
تاابد یہ سارے زمانے
اس کی خوش بو سے مہک اٹھیں
صیغہ یہ کا استعمال ہوا ہے' وہ کی بات' اس کے بعد کی ہے۔ ہر وہ جو یہ کی
حدود سے باہر ہوگیا' وہ اس کو محسوس کرتا ہو گا۔ مٹی میں' مٹی ہوا یا میں
سبھ توں کے مقام پر کھڑا ہو گیا۔ یہ بلال سے سرمد تک باقاعدہ ایک سلسلہ ہے۔
علاوہ ازیں وہ کے احوال بھی اس نظم میں موجود ہیں۔
خوش بو کا ربط' مدینے سے اور مدینے سے نجف سے کبھی تمام نہیں ہوا۔ وہ
مدینے آتی جاتی ہے
خوش بو کا جہاں کوئی وطن نہیں' وہاں تمیز و امتیاز سے بھی بلاتر ہوتی ہے۔
بیمار اور غلازمت سے ماری ذہنیتیں' اس کے ہونے کی جانکاری سے' معذور رہتی
ہیں۔ ابولعب اور سیدنا حمزہ' ایک ہی دھرتی سے متعلق تھے۔ ابولعب کی کفری
نزلے میں غرق قوت شامہ نے' اس خوش کے ذائقے کو محسوس تک نہ کیا' جب کہ
سیدنا حمزہ کی قوت شامہ نے' محسوس بھی کیا اور اسے ہضم بھی کیا۔ سیدنا بلال
کے فکری اور قلبی ہاضمے ہی کو لے لیں' خلیفہءوقت تعارف کے دوران سیدنا کا
سابقہ استعمال میں لاتے ہیں اور یہ کوئی ایسا معمولی اعزاز نہ تھا۔ اپنی
اصل میں' یہ اس خوش بو کا تعارف تھا' جسے باظرف ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
مدینے سے نجف آنے والی خوش بو کا سفر' محدود نہ رہا۔ اس نے نجف سے بصرے کا
رخ کیا۔ وہاں علی مشکل کشا' یہاں حسن بصری کے دل آنگن کا گہنہ بنی۔
اپنی سرشت میں یہ خوش بو' سیمابی عناصر رکھتی تھی' تب ہی تو یہاں محبت کے
ابدی چراغ جلا کر' اجمیر کا رخ اختیار کیا۔ اس ذیل میں' سرچشمہءخوش بو کے
اس ارشاد گرامی کو' نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کریم صلی الله علیہ
وسلم کو' ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اس دھرتی نے' جہاں آپ کی لائق عزت و
احترام آل اولاد کو پناہ دینے کا شرف حاصل کیا' وہاں مقامیوں کی روحیوں کو
بھی معطر کیا۔ یہاں آ کر' خواجہءاجمیر کے حجرے میں مراقب ہو گئی۔ تاہم
وہ خوش بو
موسموں کے ان گنت رنگوں میں
گھل مل کر
کرامت کا لبادہ اوڑھ کر
بیٹھی ہوئی تھی
اور زمانے
ہاتھ باندھے
اس کے آگے دھیان موسم میں گم تھے
خوش بو کی یہ گیتا
نئے اسلوب میں ڈھل کر
ابد کے طاق پر رکھے دیے کو
آگہی کے نور سے
ایسا بڑھاوا دے رہی تھی
جو
خیال و خواب اور اس کی طلسماتی فضا کا
استعارہ تھے
خواجہءاجمیر نے اس خوش بو کی گرہ کشائی کچھ یوں کی۔
شاہ است حسین پادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
یہ کلام اس امر کی تصدیق کر رہا ہے کہ۔۔۔۔۔ میں ناہیں سبھ توں ۔۔۔۔۔۔ کا
نشہ' جان سے گزر جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔ میں ناہیں سبھ توں ۔۔۔۔۔۔ کے کلمے پر'
امرتا کی مہر ثبت کر دیتا ہے۔ دوسرا خوش بو اور بدبو کا' کسی حوالہ سے اور
زمان مکان کے کسی موڑ پر' سنگم ممکن ہی نہیں۔ ابراہیم ہو کہ سقراط' حسین
ہوکہ منصور میں' میں ہوتے تو جان ایسی پیاری چیز کی' پرواہ ضرور کرتے۔ ابن
مریم آگہی کا سمندر تھے' میں میں ہوتے تو صلیب تک آنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
الله نے ابراہیم اور ابن مریم کو بچا لیا' اس سے بالکل الگ بات ہے۔
امیر خسرو نے اس خوش بو کے ایک شیڈ کی یوں نقشاکشی کی ہے۔
ابتدائیہ
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہرسو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
انتہائیہ
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
مدینے سے چلی خوش بو کے لوگ' یوں ہی گرویدہ نہیں ہوئے۔ اس لامکانی خوش بو
میں' کوئی بات تو ہے۔ ابراہیم الله کے خلیل تھے' نبوت گرہ میں تھی۔ حسین
امام اور خوش بو کے نواسے تھے۔ سرمد و منصور کیا تھے' جو مدینے سے چلی خوش
بو پر جان سے بھی بالاتر ہو گیے۔ صاف سی بات ہے' میں کے دائرہ ہی میں نہ
رہے تھے۔ انہیں الله کے احسان سے' مدینے سے آئی خوش بو نے' میں سے مکتی دلا
دی تھی۔
اس خوش کی راہ میں' ان گنت غلاظتیں آئیں۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ کچھ اب
بھی' برے ناموں سے یاد کی جاتی ہیں۔ خوش بو اپنی اصل ہیئت و اثرپذیری کے
ساتھ باقی رہی۔ وہ تو' باقی رہنے کے لیے ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اجمیر کو
مہکاتی ہوئی' دلی بڑھ گئی۔ قطب الدین کے سینہ میں اقامت پذیر ہوئی۔
قطب الدین اس خوش بو کے فیض سے' محبت کی علامت بنے۔
دہلی کی رونق اس سے قائم تھی
بےشک'
وہ دل کا استعارہ تھا
کہانی کے مناظر
جو کہ دل کے استعارے کی زمین میں
یا کہ دل کا استعارہ
اس کہانی کے مناظر اوڑھ کر
چپ چاپ بیٹھا تھا
خوش بو کو' محو سفر رہنا تھا اور وہ محو سفر رہی۔ دہلی سے ہانسی اور اجودھن
کی طرف گئی۔
یہاں اس نے
حسن معنی کی ردائیں اوڑھیں۔
قطب الدین عموم میں کب رہے تھے۔ تب ہی تو
زمانہ ہاتھ باندھے
اس کے چہرے کی زیارت میں مگن تھا
بات یہاں تک محدود نہ تھی۔ نظام الدین ہاں نظام الدین
اس کی چاکری میں ایستادہ تھے
نظام الدین اس خوش بو کی برکت سے
دہلی میں محبت کی علامت تھے
وہ ایسا صاحب دل تھا
کہ اس کے دل میں
دہلی شہر کے سارے مکیں آباد تھے
ایسے کہ جیسے پھول کے آنگن میں
خوش بو رقص کرتی تھے
یہ ہی نہیں حضرت نظام الدین ۔۔۔۔۔۔'
حسن اور خسرو شریں بیاں کا مرشد کامل
دہلی مدینے سے آئی خوش بو کے حوالہ سے' کوئی عام نگر نہ تھا۔ یہاں
نصیرالدین بھی' اس خوش بو کی برکت تقسیم کر رہے تھے۔ وہ ہی نصرالدین
اس کی خوش کلامی کے سبھی موسم
ابد آثار تھے اپنے تناظر میں
کمال الدین علامہ بھی
اس کی ریزہ چینی میں بہت خوش تھے
اس خوش بو نے' گجرات کا بھی رخ کیا اور حضرت سراج الدین کے ہاں اپنا ڈیرہ
ڈالا۔ اور پھر
صدیوں تلک کچے سے حجرے کے کسی گوشے میں
وہ چلہ کشی میں محو رہتی تھی
گجرات سے پھر مدینے اور وہاں کتنے ہی برسوں تک
طواف شہر خوش آثار میں رقصاں رہی
کہ پھر فرمان اس کے کوچ کا آیا
کہ اب جاؤ جہاں آباد دہلی میں رہو
خلق خدا کے دکھ سمٹو تم
جہاں آباد میں' مدینے کی خوش بو نے' شہ کلیم الله کے سینے کو مہکایا۔ جہاں
آباد کے عام و خاص نے' اس کی روح خیز توانائی سے بسات بھر' استفادہ کیا۔
یہاں تک کہ
شہ دہلی بھی اس خوش بو میں رقصاں رہا
وجے پورمیں ضیاءالدین اور بریلی میں خواجہ نیاز احمد اس کی سحرکاری سے
استفادہ کرتے رہے۔ پنجاب آئی' تو یہاں بھی دھیان و گیان کے سلسلے چل نکلے۔
مہاراں میں' خواجہ نور محمد کے باطن باصفا کو شگفتگی سے سرفراز کیا۔ یہ دیس
عموم میں نہ رہا۔ مہاراں وہ نگر ہے جہاں
چاند'
راتوں میں اداسی اور خاموشی کی بکل مار کر آتا ہے
اور اس کے گلی کوچوں میں
خوش بو اپنے دامن میں سمو کر
رقص کرتا ہے
دھمالیں ڈالتا ہے
اور کبھی انوار کے ہالے بناتا ہے
کبھی وہ
خواجہ نور محمد کے حریم ناز میں
دھونی رماتا ہے
عجب حسن ادارت سے
قدم بوسی کی خوش بو
اپنے دامن میں سمو لیتا ہے
اور پھر موسموں کو دان کرتا ہے
تونسہ' بےشک بڑا ہی کمال نگر ہے۔ خوش بو بھلا اسے کیسے نظرانداز کر سکتی
تھی۔ یہاں
اجمیر' دہلی اور اجودھن کے سبھی موسم
خیال و خواب کے رنگوں کی تجسیمی فضا میں
ڈھل گئے ہیں
اور وہ خوش آثار بستی ہے
کہ جس کے سب گلی کوچے
مہاراں شہر کی مہکار کی
ایسی علامت بن گئے ہیں
جو کہ اپنی اک کہانی لکھ رہی ہے
تونسہ کو' خوش بو کے پاریکھ' حضرت شاہ سلیمان کی میزبانی کا شرف حاصل ہے
اور یہ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ حضرت شاہ سلیمان کے قدم لینے کی برکت سے
تونسہ کو
ثریا تک رسائی ملی
تونسہ وہ خطہء کمال ہے
جہاں طاق ابد بر خواجگان چشت نے
اپنا چراغ جاوداں روشن کیا
یہ چراغ جاوداں صدیوں سے
اک ایسی کہانی لکھ رہا ہے
اب جسے وہ جاودانی لکھ رہا ہے
نور کی خوش بو سے
احساس کے رنگوں کے موسم میں
خوش کے انتخاب میں گولڑہ بھی تھا۔ گولڑہ کوئی معمولی جگہ نہیں۔ گولڑہ
'محبت کی علامت ہے
وہ خوش بو کا نگر ہے
اور خواب و خیال کے موسم
اسی شہر محبت کی ہواؤں سے معطر ہیں
اور اس شہر میں محبت رقص کرتی ہے
عشق کی خوش بو کا سفر' تاابد جاری رہنا ہے۔ رکنا' سستانا یا محض خانہ پری'
اس کے مذہب میں نہیں۔ ان میں سے کوئی عنصر' کہیں نظر آئے' تو اسے عشق کا
نام نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو گا' جہاں یہ نہ
گئی ہو گی' نصیبے والوں نے' اس خوش بو سے' اپنا کھیسہ بھر لیا۔ بدنصیب اپنی
کم ظرفی کے سبب' محروم رہے۔
قدرت کا احسان دیکھیئے کہ یہ خوش بو' صوفی ساحر کی روح میں حلول کر گئی' تا
کہ دنیا بھر کے' آگہی کے مشتاق' سچائی کے قدم کے ساتھ قدم ملائیں اور آگہی
کے کوہ بےکراں سے' سونا چاندی نکال کر' آتی نسلوں کو ورثہ میں پیش کر سکیں۔
یہ سب' گزرتے آج کی بڑی معتبر شہادت ہو گی۔ قدرت چناؤ میں غلطی نہیں کرتی۔
صوفی ساحر' تول میں بےانصافی نہیں کر سکتا۔ قدرت بھی کرنے نہیں دے گی۔ الله
اپنے بندوں سے' کام لینا خوب جانتا ہے۔ پھر صوفی ساحر تو مدینے کی خوش بو
کا' متوالا ہے۔ صوفی ساحر کے توسط سے' خوش بو کا سفر جاری رہے گا۔ یہ آتی
نسلوں تک کا سفر ہے' اسے ہر حال میں جاری رہنا ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں ہر حال میں' ہر
نگر' ہر ڈگر اور ہر پگ سے' اسے گزرنا ہے۔ ہر نگر' ہر ڈگر اور ہر پگ' اس کی
حدود میں آتی ہے۔
صوفی ساحر کے سینے میں' آباد مدینے کی خوش بو کو محسوس کرنے والے' بلند
نصیب ہیں اور اس سے استفادہ کرنے والے' آتے کل کے امین ہیں۔
خوش بو نے
روتے ہوئے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا تھا
عجب حسن محبت سے
وہ بچہ آج بھی
اس لمس کو محسوس کرتا ہے
آج بھی ......... اپنی تفہمی حقیقت میں' خوش بو کے سفر کے تسلسل کی' علامت
ہے
|