بہت دیر ہوگئی گھر جانا ہے بلقیس نے دھیرے سے اپنے اوپر
سے سیف الدین کے بازو ہٹاتے ہوئے کہا.......
بس تھوڑی دیر اور پھر چلی جانا سیف الدین نے بچوں کی طرح منہ بسورتے ہوئے
کہا اسے بلقیس کا اسطرح جدا ہونا قطعی پسند نہیں آیا تھا...
جانا تو ہے ابھی نہیں تو تھوڑی دیر بعد بھی بلقیس نے اپنے بے ترتیب لباس
اور الجھی لٹوں کو سنوارتے ہوئے بولی
وہ ایک درمیانے قد اور چھریرےبدن کی حامل عورت تھی.سرخ سفید رنگت جو ابھی
مزید گلابی ہورہی تھی بڑی بڑی آنکھیں جن میں وہ بے دردی سے کاجل کی چوڑی
چوڑی لکیرین کھینچ دیا کرتی تھی..میں محبت کا خمار صاف جھلک رہا تھا. اسکے
سیب کی قاش جیسے ہونٹوں پہ ایک فاتح مسکراہٹ چھلک رہی تھی جیسے مانو کوئی
جنگ جیت کے آئی ہو..دوسری طرف سیف بھی کچھ کم نہیں تھا گندمی رنگت والا بیس
کے لگ بھگ عمر کا خوبرو نوجوان تھا.بادامی آنکھیں اور گھنی مونچھوں تلے
مسکراتے لب، اور یہ...... لمبا اونچا قد . اور پھر شاید یہ عمر ہی کچھ ایسی
ہوتی ہے چمن مین اترتے بہار کے نئےموسم کی طرح......
مطلب کہنا کیا چاہتی ہو؟ سیف کے لہجے سے الجھن جھلک رہی تھی....
دیکھو ..سیف تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں ایک شادی شدہ تیس سالہ عورت
ہوں جو پانچ بچوں کی ماں بھی ہے ..دوسری طرف تم نے ابھی سمجھو جوانی کی
حدود میں پہلا قدم ہی رکھا ہے تمہارے گھر والوں کو ہمارے بارے میں پتہ چلا
تو پتہ نہیں کیا رویہ ہوگا انکا جو بھی ہو پر ہمارے حق میں تو کبھی بھی
نہیں....بلقیس نے منفی انداز میں سر ہلایا.میرا شوہر کبھی مجھے طلاق نہیں
دے گا اچھی طرح واقف ہوں اس سے...
پھر پھر ہم کیا کریں میں نہیں مانتا عمروں کا فرق مجھے تمہارے سوا کچھ نہیں
دکھتا میں ہر قیمت پر تمہیں پانا چاہتا ہوں اس نے پھر سے بلقیس کو زبردستی
بھینچ لیا
جوانی کے سرکش منہ زور جذبے اپنا سر اٹھا رہے تھے.
ہر قیمت پر .....بلقیس
ہاں ہر قیمت پر سیف کا لہجہ پرعزم تھا..
بلقیس نے مطمئن ہوکے خود کو اسکے پھر حوالے کردیاگھر داخل ہوتے ہی جیسے اس
پر چڑ چڑاہٹ سی سوا ہوگئی منہ بسورتے بچوں کی طرف اس نے ایک بار بھی دیکھنا
گوارا نہیں کیا
ماں کہاں تھی تو ...منا بہت دیر سے رو رہا تھا اور...اور.... ہم سب کو بھی
بہت بھوک لگ رہی تھی اسکی تیرہ سالہ بڑی بیٹی نے ڈرتے ڈرتے کمزور سی آواز
میں شکوہ کیا...
یہیں تھی اور کہاں جاؤں گی مرنے تم سب ہو نہ مری جان سے جونک کی طرح چپٹے
ہوئے ٹھہرو دیتی ہوں کھانا
اس نے کھسیاتے ہوئے بے دلی سے ہانڈی چولہے پر رکھی.اور دوسری طرف سرعت سے
روٹیاں ڈالنا شروع کردیں...
ابھی بچوں کو کھانا دینے کے بعد وہ برتن سمیٹ ہی رہی تھی کہ اسکا شوہر گھر
میں داخل ہوا. وہ بلقیس سے عمر مین دوگنا زیادہ تھا بڑھتی عمر نے اسکے جسم
پر نقاہت طاری کردی تھی.چھوٹاقد ـحد سے زیادہ سفید بال،نحیف جسم، قدرے
سیاہی مائل چہرہ اور اسپر دمے کا مریض ...وہ ابھی ابھی اپنی گدھا گاڑی پر
کہیں سیمنٹ کی بوریاں ڈھو کرآرہا تھا...بلقیس بلقیس کھانا دے مجھے جلدی
سے...بہت تھک گیا ہوں بھوک بھی بہت ہے
شاہد چلایا تو بلقیس نے اسکے سامنے تقریبا کھانا پٹکتے ہوئے کہا پہلے منہ
ہاتھ تو دھو لے ..پتہ نہیں کیوں اسے دیکھ کے اسکے چہرے پر شدید بے زاری کی
کیفیت آجاتی تھی.اور اب تو اسکا ذہن شاہد سے چھٹکارا پانے کا طریقہ سوچ رہا
تھا.
میں کسی بھی قیمت پر تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہوں ....سیف کی آواز اسکے ذہن
مین گونجی تو اس نے چونک کے شاہد کی طرف دیکھا مبادا وہ اسکے چہرے کا حال
نہ پڑھ لے.رات کو بھی جب شاہد نے اسکے پاس آنے کی کوشش کی تو اس نے بڑی بے
دردی سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا.شاہد فطرتاً سادہ طبیعت اور ٹھنڈے مزاج کا آدمی
تھا.وہ اسکے رویے کو دن بھر کی تھکاوٹ خیال کرتے ہوئے منہ موڑ کے سو
گیا.جبکہ بلقیس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی.کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی
ہے سرکشی اسکا وصف ہے اور کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ اپنے انجام سے بے پروا
محبت میں مبتلا جانوں کو آنے والے خطرات سے بھی بے نیاز کردیتا ہے.اس نے
ایک نظر چاروں طرف دوڑائی اسکی کشادہ جھگی میں ایک طرف سارے بچے گہری نیند
سورہے تھے. شاہد کے خراٹے بھی اب دھیرے دھیرے بلند ہونے لگے تھے.اس نے شدید
نفرت کے احساس سے ہونٹ سکیڑےشیطانی خیالات اسے اپنی گرفت میں لینے لگے.اسے
کچھ نظر نہیں آرہا تھا سوائے اسکے کہ اگر اس نے آج شاہد سے نجات حاصل نہین
کی تو وہ سیف کو ہمیشہ کےلیے کھودے گے تبھی اسنے ایک فیصلہ کیا اور اپنا
تکیہ اٹھا کر اسپر فوری عملدرآمد کرنے لگی.....
یہ کیاکیا تو نے.....سیف بہت گھبرا گیا تھا بلقیس کی کال نے ہوش اڑا دیئے
تھے اسکے...
میں کچھ نہیں جانتی صرف یہ بول مجھے چاہتا ہے کہ نہیں اگر جواب ہاں میں ہے
تو آجا اور میری مدد کر.....
دوسری طرف سے بلقیس بولی
اور بچے انکا کیا کیا تو نے ....سیف
وہ سب اسکول گئے گھر میں اور کوئی نہیں ہے آجا بس جلدی سے....یہ کہہ کے
اسنے کال کٹ کردی
سیف نے اردگرد دیکھا وہ قدرے خوفزدہ تھا کسی نے میرے چہرے سے محسوس تو نہیں
کیا اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک
رہیں تھیں.وہ تیزی سے بلقیس کے گھر پہنچا تو وہ دروازے پر ہی کھڑی تھی سیف
کو لے کر وہ اپنے پلنگ کے پاس آگئی جہاں شاہد کی لاش پڑی تھی
کیا کیا تو نے سیف نے اپنا سر پکڑ لیا...
تو اور کیا کرتی نہ اس بڈھے نے طلاق دینی تھی اور نہ ہی مرنا تھا بہت سخت
جان تھا تکیہ لیا اور دبادیا منہ پر رکھ کے اسکے چہرے پر شدید نفرت تھی
پھر بھی کسی نے پوچھا تو کیا کہے گی......
یہی کہ بڈھا دمے کا مریض تھا سانس اکھڑ گئی......
یہ کہنا کافی نہیں ہوتا میری جان اور پولیس کی تفتیش ہوئی تو جانتی ہے کیا
ہوگا قتل کیا ہے تو نے قتل موت سزا ہے اسکی بس موت وہ خیالوں میں ہی لرز
گیا نہیں نہین ہونے دوں گا ایسا چل جلدی سے بوری میں ڈالتے ہیں اسکو اور
کہیں دور پھینک آتے ہیں.
دونوں نے بمشکل شاہد کے نحیف وجود کو بوری میں سمیٹا اور گدھا گاڑی پر لادا
بلقیس پیچھے بیٹھی اور سیف نے آگے بیٹھ کے گدھا گاڑی کو ہانکا وہ ابھی ناکے
پر ہی پہنچے تھے کہ ناکے پر کھڑی پولیس نے انھیں روک لیا اوئے کدھر کی
سواری ہے ....حوالدار نے کرختگی سے پوچھا ..
کچھ نہیں بس اناج ہے وہی لے کے جارہے ہیں اور وہ عورت کون ہے ووٹی ہے تیری
جی جی گھر والی ہےمیری
اسکے لہجے سے گبھراہٹ صاف نمایاں ہورہی تھی.انکو جانے کا اشارہ کرکے
حوالدار جلدی سے اپنی پولیس کی گاڑی کے پاس آیا اور وائرلیس نکال کے اگلے
ناکے پر موجود چوکی سے رابطہ کرنے لگا یار یہ گدھا گاڑی پر ایک جوڑا کچھ
سامان کے ساتھ نکلا ہے ذرا دیکھو تو جاتے کہاں ہیں
اوئے نہیں مجرم نہیں ہیں بس شک سا ہوا مجھے دھیان رکھنا اچھا......
جب وہ دونوں بوری کو دریا میں دھکیلنے لگے تو اگلی چوکی نے جوانوں نے انھیں
اپنی گرفت میں لے لیا بوری سے لاش برآمد ہوچکی تھی آنا فانا یہ خبر پورے
شہر میں پھیل گئی صلاح الدین نے اپنے بیٹے کے گرفتار ہونے کی خبر سنی تو بے
چارگی سے اپنا ماتھا پیٹ لیا.ہائے کیا کیا تو نے سیف الدین غارت کردی میری
عمر بھر کی کمائی
سوائے رونے پیٹنے یا فریاد کرنے کے سوا وہ کرہی کیا سکتے تھے تفتیش ہوئی
معاملہ عدالت میں پیش ہوا بلقیس کو سزائے موت سنادی گئی جبکہ سیف کی سزا
اسکی معاونت کرنے کے جرم میں کچھ کم بھی نہیں تھی.
صلاح الدین بیٹے کی سزا میں کمی کرانے کے لیئے در در کی خاک چھاننے لگے.اور
ایک دن وہ وکیل کے ساتھ بلقیس سے بھی ملنے گئے. سن جو کچھ کیا تیرا کیا
میرا بیٹا بے گناہ ہے وہ کیوں یہ سزا بھگتے ہم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر
کی تھی؟
بلقیس نے خاموشی سے انکی سمت دیکھا
محبت کرتی ہے اگر سچ میں تو مت برباد کر اسکو ابھی بھی وقت ہے دیکھ کل پیشی
ہے ابھی بھی اپنا بیان بدل لے کہہ دے کہ سیف کا کوئی قصور نہیں اس سارے
واقعے میں اسے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ بوری میں کیا ہے وہ روتے ہوئے اسکے
پاؤں میں گر گئے
ارے کیا کررہے ہیں بابا آپ ..وہ اپنے قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے آپ جیسا کہتے ہیں ویسا ہی ہوگا اور تھکے تھکے قدموں سے واپس لوٹ
گئ؛ جہاں کوٹھری کے گھپ اندھیرے اسکے منتظر تھے.
کبھی نہ ختم ہونے والے اور اس سے کہیں زیادہ سناٹا اسکی روح کے اندر
تھا..پتہ نہیں کیا ہوگا سیف..
اس نے سوچا اور میرے بچے بچوں کا خیال آتے ہی جیسے اسکا دل کسی نے مٹھی میں
جکڑ لیا وہ بکھررہی تھی ٹوٹ چکی تھی اسکی چیخیں زندان خانے کی دیواروں سے
ٹکرا کر پلٹ رہیں تھیں.گھپ اندھیرا
اب اسکی روح کے اندر سرایت کررہا تھا محبت اپنا خراج وصول کرچکی تھی.
گورئمنٹ آف پاکستان نے جہاں دوسرے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا میں نرمی کی
وہیں بلقیس کی سزا کو بھی عمرقید میں بدل دیا گیا سیف الدین کو سات سال کی
سزا ہوئی رہائی کے بعد سیف نے گھر بسالیا اسکے چار بچے بھی ہین آج جب مین
انکی کہانی کو زیر قلم تحریر کررہی ہوں صلاح الدین انتقال کرچکے ہیں سیف
اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہوچکا ہے بلقیس مرچکی ہے یا ابھی
بھی اسی کال کوٹھٹری میں اپنے ارمانوں کی لاش لیئے زندہ ہے میں نہیں جانتی
اور نہ ہی یہ کہ بعد میں اسکے بچوں کے ساتھ کیا ہوا اور وہ کس حال میں ہیں؟
کوشش تو بہت کی کہ تحریر مختصر رہے اسلیئے اسکے ثمرات پر بحث آپ پر چھوڑتی
ہوں اس شعر پر
زندگی سے سوال ہے میرا
کیا محبت بہت ضروری تھی؟ |