جاناں تیرے شہر میں

ایک دن مَیں اور حماد پیدل گھر آرہے تھے کہ راستے میں ہمیں لینڈ لارڈ وَرما مل گیا وہ سخت غصے میں تھا۔ اس نے کہا کہ تم لوگ کرایہ کب دو گے جبکہ ہم تو کئی روز پہلے ہی کرایہ دے چکے تھے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم تو کرایہ دے چکے ہیں۔ جس پر اُس نے ہم پر چیخنا شروع کر دیا کہ اُس نے ہم لوگوں کو ایماندار سمجھ کر رہنے کیلئے جگہ دی اور ہم لوگ ایسے نکل آئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہمیں تھوڑا وقت دو۔ ہم آپ کو ملتے ہیں۔ گھر آئے اور چیتے سے پوچھا کہ تم نے ورما کو کرایہ دیا تھا یا نہیں کیونکہ ہم سارا کرایہ چیتے کو پکڑا دیتے تھے اور وہی یہ کرایہ ورما کو دیتا تھا۔ چیتے نے ہمیں یقین دلایا کہ اس نے رقم ورما کو پہنچا دی ہے اور اس نے تم لوگوں سے مذاق کیا ہو گا؟ ورما کے تیور مذاق والے بالکل بھی نہ تھے۔ ہمیں یقین نہیں آیا تو اس نے ہمارے سامنے ورما کو کال کی اور وہ ورما سے کہہ رہا تھا کہ جب اُس نے کرایہ ادا کیا ہے تو تم اُس کے دوستوں سے مذاق کیوں کیا ہے۔ ورما کی فون میں سے کچھ کچھ آواز آرہی تھی لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس نے کیا کہا تھا۔ فون بند کرکے چیتا کہنے لگا کہ اب یقین آگیا۔ ہم نے کہا ہمیں سمجھ نہیں آسکی کہ ورما نے کیا کہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ورما کہہ رہا تھا کہ اس نے ہم مذاق کیا ہے۔ عجیب و غریب مذاق تھا مگر ہم مطمئن ہو گئے۔

نیو لک وکٹوریہ کی منیجر ایک نوجوان ترکش لڑکی فاطمہ تھی جس کی رنگت تانبے کی طرح چمکتی تھی۔ یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ وہ مسلمان ہے کیونکہ فاطمہ نام کسی مسلمان کا ہی ہو سکتا تھا۔ اپنی اس خوشی کا اظہار میں نے فاطمہ کے سامنے بھی کیا جس پر فاطمہ نے یہ کہہ کر میری خوشی کافُور کر دی کہ اُس کا نام ضرور فاطمہ ہے لیکن وہ مذہب پر یقین نہیں رکھتی۔

مَیں بہت تھک چکا تھا۔ اچھا وقت تو کہیں پیچھے بہت دور رہ گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اچھے وقت میں ایک بُرائی ہوتی ہے۔۔۔ کہ اچھا وقت گزر جاتا ہے بُرے وقت میں ایک اچھائی ہوتی کہ ۔۔۔برا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ ہم باتھ روڈ کے جس گھر میں رہتے تھے یہاں اس کمرے کا کرایہ تقریباً ڈیڑھ سو پاؤنڈز ہفتہ تھا۔ جس کا آدھا میرے اور آدھا حماد کے ذمہ تھا۔ گھر کا کرایہ، کھانا، ٹریولنگ پاس اور دوسرے اخراجات کے بعد جو بھی کچھ میرے پاس ہوتا تھا وہ پیچھے بھیج دیتا تھا اور پھر پورا ہفتہ میری جیب میں ایک پاؤنڈ بھی نہ بچتا تھا۔ ایسے وقت میں میرے دوستوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ خصوصاً حماد اور زاہد نے۔ حماد نے ہر جگہ ہر وقت میرا ساتھ نبھایا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

باسط کی شکل خرگوش سے بہت ملتی تھی جس پر اس کا نام خرگوش پڑ گیا۔ خرگوش ہم چاروں سے تیس پاؤنڈ فی کس کے حساب سے وصول کرتا تھا جو کہ مجموعی طور پر ایک سو بیس پاؤنڈ بنتا تھا جبکہ کمرے کا کرایہ صرف سو پاؤنڈ تھا۔ سو اس حساب سے خرگوش نہ صرف یہ کہ خود مفت میں رہتا تھا بلکہ ویکلی بیس پاؤنڈ منافع بھی کما رہا تھا۔ میرے علاوہ یہاں صوم و صلوٰۃ کا پابند لڑکا ثاقب، گوجرانوالہ کا عرفان اور لاہور کا آصف بھی تھا۔ عرفان بہت اچھا شخص تھا۔ اکثر ہم سب کی طرف سے کرایہ ادا کر دیتا تھا۔ جسے ہم بعد میں اُس کو لوٹا دیتے تھے۔ جبکہ خرگوش بہت مطلبی، خود غرض اور مفاد پرست تھا۔ وہ ہم سب کو گھیر کے یہاں لے آیا تھا۔ یہاں ٹھیک سے سونے کی جگہ بھی نہیں تھی جبکہ اس کو یہاں رکھنے کیلئے اور بندوں کی بھی تلاش تھی۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس
Saher Khan
About the Author: Saher Khan Read More Articles by Saher Khan: 6 Articles with 6082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.