2-جاناں تیرے شہر میں

حنیفا بے وقوف کو پچھلے چند برسوں سے ایک میر پوری فیملی نے بے وقوف بنا رکھا تھا۔ اس فیملی نے حنیفے کو کہا تھا کہ تم 20 ہزار پاؤنڈ اکٹھے کر لو تو ہم اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دیں گے اور حنیفا پچھلے کئی سالوں سے رقم جوڑ جوڑ کر کے ان کے حوالے کرتا رہا۔ اب جب بیس ہزار پاؤنڈ پورے ہو چکے ہیں تو ’’دوسری پارٹی‘‘ رشتہ دینے سے صاف مُکّر گئی اور حنیفے کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔ اب حنیفا دل گرفتگی اور شکست خوردگی کے عالم میں اپنا غم غلط کرنے یہاں آجاتا تھا مگر یہاں بھی سب ستم ظریف اس کی ’’داستان غم‘‘ پر قہقہے لگاتے تھے۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

فلیٹ کے گراؤنڈ فلور میں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ تھا جس میں کام کرنے والے امجد کا تعلق سیالکوٹ سے تھا امجد اس ریسٹورنٹ میں پچھلے چھ سال سے کام کر رہا تھا۔ وہ اور اس کا دوست معراج چند سال پہلے اپنی شادیوں کے فوراً بعد ایجنٹوں سے ڈیل کر کے براستہ ترکی اور یورپ یہاں پہنچے تھے۔ اب دونوں یہاں صبح سے لے کر رات گئے تک کام کرتے تھے اور ہر وقت بیویوں کو یاد کر کے روتے رہتے تھے کہ ابھی تو ان کے ’’ہنی مون‘‘ کے دن باقی تھے مگر نہ جانے کتنے عذاب باقی تھے۔ امجد اور معراج اپنے خاندانوں کی بہتری کیلئے یہاں آئے تھے کہ چند سال میں کمائی کر کے جب وطن کو لوٹیں گے تو اچھے سے رہیں گے۔ مگر پیچھے والوں کی مجبوریاں تھیں کہ کم ہونے کا نام نہ لے رہی تھیں۔ ان کی سہاگنوں کے بالوں میں یقیناً چاندی اتر آئی ہوگی کہ ان دونوں کے تو بال ہی نہ رہے تھے۔ ان کی واپسی کا راستہ ابھی دُور تھا۔ کتنا۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

نوکری پر میرا دوسرا دن تھا۔ میں اپنی ذمہ داریاں سمجھ چکا تھا۔ دوپہر کو دوکان پر ایک ایک کر بزرگوں نے اکٹھے ہونا شروع کر دیا۔ جو کہ میرے باس کے پُرانے دوست تھے۔ چار بابوں کا یہ چوکڑا خوب دھما چوکڑی مچاتا تھا۔ ان میں سے ’’سیٹھی‘‘ سب سے زیادہ چالو تھا۔ اس کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ دس منٹ کے بعد اس کو چائے کی طلب ہو جاتی تھی۔ ظاہر ہے یہاں سبھی کچھ مجھے ہی کرنا تھا تو چائے بنانے کا کام بھی میرے ہی ذمہ تھا۔ سیٹھی کہتا تھا کہ اسے میری بنائی چائے پسند ہے کہ اس میں ’’سالٹی ٹچ‘‘ (نمکین ذائقہ) ہے۔ وہ سالٹی ٹچ اُن آنسوؤں سے آتا تھا جو میری آنکھوں سے بہہ کر ابلتے ہوئے پانی کے مگ میں گرتے تھے۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

یُوکے میں یہ اصطلاح عام ہے کہ یہاں آپ تین ڈبلیوز پر کبھی اعتبار نہیں کر سکتے۔ یہ تین ڈبلیوز وَرک، وَیدر اور وُومن (Work, Weather, Woman) ہیں۔ یہاں آپ کا وَرک کبھی بھی چھن سکتا ہے۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو گا کہ اچانک کالے بادل چھا سکتے ہیں، موسلا دھار بارش یا برف باری بھی ہو سکتی ہے۔ اور وُومن یہاں کی عورت ناقابل بھروسہ ہے جو کبھی بھی آپ کو چھوڑ کر جا سکتی ہے۔ ’’وَیدر‘‘ کے بدلتے رنگ کا نظارہ میں روزانہ کرتا تھا۔ ’’وَرک‘‘ ابھی تک ٹھیک تھا اور ’’وُومن‘‘ کوئی لائف میں ابھی تک نہیں تھی کہ پرکھ کرتا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

مگر پہلے ہی دن شوبنم (شبنم) علی کی بیوی جو دراصل ’’کمانڈر انچیف‘‘ تھی نے مجھے ’’انچارج بار اینڈ ڈائننگ ایریا‘‘ بنا دیا۔ تین بنگالی ویٹر جو تجربے اور ٹیلنٹ میں یقیناً مجھ سے بڑھ کر تھے۔ پہلے ہی دن میرے خلاف ہو گئے۔ چونکہ مجھے ڈرنکس بنانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ سو انہیں میرے ’’پھوہڑ پَنّے‘‘ کو ثابت کرنے کا پورا موقع مل گیا۔ دو گھنٹوں بعد ہی شوبنم نے مجھے اپنے رُوم میں طلب کیا اور جواب طلبی کی۔ میں نے بتا دیا کہ یہ میری پہلی جاب ہے اور مجھے اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ اب مجھے بھی محسن کی طرح برتن مانجھنے ہوں گے یا طارق موٹے کی چھایا میں تندوری نان لگانے پڑیں گے۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

میری نوکری کا یہاں پہلا دن تھا اور اوپر سے وِیک اینڈ رش بڑھتا جا رہا تھا شوبنم میری ہیلپ کے لیے بار میں آئی جبکہ علی نے ڈائنگ ایریا کی ذمہ داری اٹھا لی۔ رات گیارہ بجے تک بھیڑ کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی تھی اور میں بھی کافی حد کام سیکھ چکا تھا۔ شوبنم نے مجھے کہا کہ’’ تو بہت سندر ہے‘‘، کہاں کا ہے۔ میں نے کہا کہ لاہور کا ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے ایک نظر شبنم کے چہرے پر بھی ڈالی تو میں دل ہی دل میں پکار اٹھا ’’شوبنم، تو ذرا بھی سندر نہیں ہے‘‘۔ شوبنم کا شوہر علی کچن میں جا چکا تھا۔ شوبنم نے مجھے اپنی طرف متوجہ پایا تو پوچھا کہ ’’وہ کیسی ہے‘‘ مَیں نے کہا ۔۔کیا۔۔؟ اس نے پوچھا میں توم (تم) کو کیسی لگتی ہے۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ شوبنم ہی یہاں ’’ہائرنگ ، فائرنگ‘‘ اتھارٹی ہے۔ اس کے متعلق اپنی رائے پوری ایمانداری سے دینے کے نتیجے میں مجھے برتن مانجھنے پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے مجھے کہنا پڑا۔۔۔

ریسٹورنٹ کا مالک کسی پاکستانی ڈانسر کے چکر میں پڑا ہے اور ہر ہفتے کی رات لندن جا کر اچھی خاصی رقم اس پر نچھاور کرتا ہے۔ جس کا شبنم کو بے حد غصہ ہے وہ چونکہ اس ریسٹورنٹ کی مالکہ ہے لہٰذا وہ ’’کیش‘‘ کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ’’مین‘‘ (Man) ڈبلیو سے شروع نہیں ہوتا ورنہ یُوکے والوں کا تھری کی بجائے ’’فور ڈبلیوز‘‘ سے اعتماد اٹھ جاتا۔

میں نے دیکھا کہ آجاسم اٹھ چکا ہے اور ریسٹورنٹ کے ڈائننگ ایریا میں ناشتا نوشِ جان فرما رہا ہے۔ میں نے کہا ’’سلام آجاسم بھائی، دی گریٹ‘‘ اس نے رُوکھے انداز میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا اور پھر لمبی خاموشی۔ جس انداز میں اس نے سلام کا جواب دیا تھا اس کے بعد خاموش رہنا ہی بنتا تھا۔ مگر ’’پاپی پیٹ‘‘ کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ سو پھر کہا۔ آجاسم بھائی آپ کو تو ’’ہیرو‘‘ بننا چاہیے آپ بہت ’’ہینڈ سم‘‘ ہو۔ آجاسم بھائی نے (کھی کھی) کر کے دکھا دیا۔ مجھے لگا کہ شاید پگھل رہا ہے۔ جیسے برسوں کی بے تکلفی ہو کہ انداز میں اس کی کمر تھپکتے ہوئے کہا کہ آجاسم بھائی آپ لندن میں جاب کیوں نہیں کرتے؟ جواب آیا یہ تو ’’پرسنل‘‘ (Personal) ہے۔ پھر پوچھا آجاسم بھائی آپ کی فیملی کہاں رہتی ہے؟ یہ تو پرسنل ہے۔ آجاسم نے پھر وہی جواب داغ دیا۔ کافی ایسی چیزیں جو یقیناً پرسنل نہیں تھیں لیکن اس نے پرسنل بنا دی تھیں۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سامنے رکھی بوتل اٹھا کر اس کا سر کھول دوں اور جب عدالت میں مجھ سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا؟ تو کہوں ’’مائی لارڈ یہ تو پرسنل ہے‘‘۔

ابھی ہماری ٹریننگ چل رہی تھی اور دو روز تک مجھے اور قیصر کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی تھیں۔ ہم دونوں گھر کے باہر باغ میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے کہ سامنے سے حماد خان آتا دکھائی دیا۔ قیصر نے اسے دیکھتے ہی اپنے سیگریٹس کا پیکٹ چھپا لیا جو وہ پاکستان سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ کیونکہ حماد کی عادت تھی وہ آتے جاتے ’’جِگر ایک سگریٹ تو دے‘‘ کہہ کر دو تین سگریٹوں پر ہاتھ صاف کر جاتا تھا۔ قیصر کے سگریٹوں کا ’’کوٹہ‘‘ بہت تیزی سے خرچ ہوتا جا رہا تھا۔ لہٰذا اب وہ جب بھی حماد خان کو دیکھتا تو سگریٹ چُھپا لیتا تھا۔ لیکن اس وقت حماد خان کے ساتھ ایک ’’جاپانی پھل‘‘ جیسی لڑکی بھی تھی اور وہ ہماری جانب آ رہے تھے۔ پاس آنے پر حماد خان کے ساتھ آئی لڑکی نے ہاتھ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ ہائے، آئی ایم آسامی اکائی (Asami Ikai)اینڈ آئی ایم یور نیو سپروائزر۔ ہم نے نیو سپروائزر کا سنتے ہی اسے اچھے طریقے سے ’’ویلکم‘‘ کیا۔ دراصل یہاں آنے والی ہر لڑکی کو حماد خان ہی دریافت کرتا تھا جو کہ بعدازاں کسی اور کے ساتھ ’’فِٹ‘‘ ہو جاتی تھی۔ آسامی یہاں ویٹریس کی جاب کے لیے آئی تھی مگر حماد خان نے آتے ہی اُس کو بتایا کہ تم کو سپروائزر بنا دیا گیا ہے
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

میرا روم فرسٹ فلور پر تھا اور مانیکا کے بعد پورے گھر میں میرا ہی روم سب سے کشادہ اور خوبصورت تھا۔ اگر مَیں اپنے کمرے کی کھڑکی کھول دیتا تو سیبوں سے لدی ٹہنیاں میرے کمرے میں آ جاتیں۔ روزانہ صبح یہی سیب میرا ناشتا ہوتے تھے۔ میرے روم کی وِنڈو سے نیچے مانیکا کا لان تھا جہاں سارا دن دھوپ میں بیٹھ کر کوئی ’’اسپینش کتاب‘‘ کا مطالعہ کرتی رہتی تھی۔ اس کی ڈیوٹی 4 بجے شام اور میری دوپہر کو دو بجے شروع ہوتی تھی۔ مانیکا مجھے اچھی لگتی تھی۔ ہمارے درمیان ابھی زیادہ بات نہ ہوئی تھی لیکن میری نظروں سے اس کی نظروں تک دل کے پیغام پہنچ رہے تھے۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

جیری، سام، قیصر اور مَیں ہم چاروں چھُٹی کے روز سام کی گاڑی پر آکسفورڈ شائر کے مختلف علاقوں میں گھومتے تھے۔ آسامی سوائے میرے کسی سے زیادہ گھُلتی مِلتی نہ تھی اور وہ رہتی بھی ہوٹل کے اندر ہی تھی۔ ایک دن سام نے مجھے کہا کہ وہ آسامی کو پرپوز کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اسے میری طرف سے ڈنر کی دعوت دو۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ یہ باس کا آرڈر ہے یا دوست کی درخواست جس پر سام شرما گیا۔ سام کو میں اکثر کہتا کہ اس کی شکل سلمان خان سے بہت ملتی ہے۔ جس پر وہ شرما کر کہتا تھا ’’کہاں یار کیوں جھوٹ بولتا ہے‘‘۔ سام کو لگتا تھا کہ میں اس کو پمپ کرنے کیلئے یہ کہتا ہوں لیکن اندر ہی اندر اس کا دل یقین بھی کرنا چاہتا تھا۔ شرم سے اس کے سانولے چہرے کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا تھا۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس

راستے میں جیری نے کہا کہ تم سام کو ہر وقت سلمان خان، سلمان خان کہتے رہتے ہو کیا میری شکل کسی ہیرو سے نہیں ملتی؟ میں نے کہا ہاں ملتی ہے ناں! اس نے پوچھا کس سے؟ میں نے کہا کہ شاہ رخ خان سے جیری کے دل کو گویا سکون مل گیا۔ لیکن اس کے سکون نے میرا سکون غارت کر دیا کیونکہ ہر دو منٹ کے بعد شاہ رخ خان کی فلموں کے ڈائیلاگ مار مار کے بُرا حال کر رہا تھا۔ ہم آکسفورڈ سٹی میں پہنچ چکے تھے اور آسامی ہمیں چائنیز ریسٹورنٹ میں لے گئی جہاں پر چمچوں کی جگہ لمبی لمبی اسٹکس (Sticks) کے ساتھ کھانا کھایا جا تا تھا۔ بدمزہ کھانا اوپر سے ان لکڑی کی اسٹکس کے ساتھ کھانا میرے لیے تو مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ لہٰذا میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ جیری بے تحاشا شراب پیتا تھا اور اس وقت بھی پی رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ دھیرے دھیرے ہِل رہے ہیں۔ مَیں نے پوچھا خان صاحب کیا بات ہے۔۔۔؟ تو یک لخت اس نے چہرے پر کرب کے تاثرات لاتے ہوئے کہا کون کم بخت برداشت کرنے کو پیتا ہے، ہم تو پیتے ہیں کہ یہاں۔۔۔ اس کے اندر شاہ رخ خان کی روح حلول کر گئی تھی۔
واصف ملک کے سفر نامہ ’’جاناں تیرے شہر میں ‘‘سے اقتباس
Wasif Malik
About the Author: Wasif Malik Read More Articles by Wasif Malik: 6 Articles with 6520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.