آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں
مقیم کشمیری 5جنوری کو یوم حق خود آراریت منا رہے ہیں،اس دن کو منانے کا
مقصدعالمی برادری کو05 جنوری 1949 کو اقوام متحدہ کی منظور کی گئی اس
قرارداد کی یاد دہانی کرانا ہے، جس میں کشمیری عوام سے ر ائے شمارے کے
آزادانہ انعقاد کا وعدہ کیا گیا تھا ۔بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں تحریک
آزادی کشمیر کو دبانے کے لئے ،ہرقسم کا بد ترین ظلم کر رہی ہے۔ دنیا بھر
میں جمہوریت کا چیمپین ہونے کا دعویدار بھارت 1989ء سے لیکر 31 دسمبر 2015ء
تک 1 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق
مقبوضہ کشمیر میں صرف سال 2015ء میں ایک سو چھپن بے گناہ کشمیریوں کو شہید
کیا گیا۔بھارتی فورسز نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک 10 ہزار مرد اور
23 سو خواتین کو غائب کیا، بھارتی بربریت سے اب تک 6 لاکھ کشمیری حریت پسند
زخمی ہوئے۔ قابض انتظامیہ نے کالے قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے 1 لاکھ 32 ہزار
سے زائد آزادی کے متوالوں کومختلف زندانوں اور عقوبت خانوں کی نذر کیا۔
بزدل قابض فوجیوں نے کشمیر کی حسین وادی میں صدائے حریت کو دبانے کے لیے 10
ہزار سے خواتین کی عصمت دری کی۔بھارتی سامراج کے خلاف بغاوت کرنے والے
شہداء کی 27 ہزار بیوائیں اور 1 لاکھ 7 ہزار سے زائد یتیم بچے آج بھی آزادی
سے کم کسی چیز پر راضی ہونے کو تیار نہیں۔ بھارت نے جنت نظیر وادئی کشمیر
میں جدوجہد آزادی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے والے کشمیریوں کے ایک
لاکھ 5 ہزارسے زائد آشیانوں کو جلا کر تحریک حریت کا زور توڑنے کی ناکام
کوشش کی۔شمع حریت پر قربان ہونے والے 27 ہزار سے زائد شہداء گمنام قبروں
میں آرام فرما ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے بھارت کی غلامی سے آزادی حاصل
کرنے کے لیے کنول کے پھولوں، چناروں اور بل کھاتی ندی نالوں کی اس حسین
سرزمین میں ساڑھے 5 ہزار سے زائد قبرستانوں کو اپنے پیاروں کی قبروں سے
آباد کر رکھے ہیں۔ دوسری جانب 05 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے سلامتی
کونسل کے اجلاس میں منظور کی گئی ایک قرارداد کے ذریعے ،عالمی برادری نے
ریاست جموں کشمیرکے عوام کے آزادانہ طور پر اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ
کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا، قراداد میں کہا گیا تھا کہ کشمیری عوام
کو غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے منصفانہ رائے شماری کاموقع دیا جائے
گا۔تقسیم ہند کے بعد سے پیدا ہونے والا مسئلہ کشمیر پچھلی سات دہائیوں سے
حل طلب ہے۔ یہ وہ پہلا متنازعہ مسئلہ ہے جسکے حوالہ سے اقوام متحدہ نے
باضابطہ طور پر کئی قراردادیں پاس کر رکھی ہیں۔ 1947ء سے کشمیری مسلمان اس
بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ بھارت سے اپنی پاس کردہ قراردادوں
پر عمل درآمد اور اس مسئلہ کو حل کروائے جسے خود بھارت ہی یواین میں لیکر
گیا اور کشمیریوں کو استصواب کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حالیہ برسوں میں
سکاٹ لینڈ، مشرقی تیمور اور ساؤتھ سوڈان کے عوام کو بغیر کسی جبر کے اپنے
مستقبل کے تعین کا حق دیاجاسکتا ہے تو کشمیری اس سے محروم کیوں ؟انکے
مطالبات پر توجہ کیوں نہیں ؟کیا محض مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں آٹھ لاکھ
بھارتی فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان کا قتل
عام کرے، انکی املاک تباہ اور عزتیں و عصمتیں پامال کرے؟ یہ وہ سوچ ہے جو
صرف کشمیریوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہر انصاف پسند شخص کے ذہن میں
ابھررہی ہے۔مسئلہ کشمیر چونکہ برطانیہ کا پیدا کر دہ ہے اس لئے خاص طورپر
اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ وہ انڈیا سے تعلقات خراب ہونے کے
ڈرسے اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا جس پر اسے مدافعانہ طرز عمل
اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔کشمیری اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں ان کی رائے کو
فوقیت دی جانی چاہیے، دوسری طرف کشمیری قیادت خاص کر آزادکشمیر کے سیاستدان
اور حکمران اس بے اختیار اقتدار کی دوڑ میں اپنے وسائل اور عوامی سپورٹ سے
محروم ہو رہے ہیں،آزادکشمیر کے عوام کو روزگار ،صحت، تعلیم اور قدرتی وسائل
جن میں پانی،پہاڑ اور جنگلات شامل ہیں سے مستفید کرا کے خطے کے لیے مثالی
بنایا جاسکتا ہے، وفاق کو چاہیے کہ جہاں آزادکشمیر کو بااختیار بنانے کے
لیے آئینی ترامیم میں مدد کرے وہیں ، حکومت پاکستان جو اس مسئلہ کشمیر کی
اہم فریق ہے اسے چاہیے کہ وہ بھارتی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر اس مسئلہ کو
عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کا فریضہ سرانجام دے۔ مظلوم
کشمیری الحاق پاکستان کے نعرے لگاتیاور سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے اپنے
سینوں پر گولیاں کھا تے آئے ہیں توپاکستان کو تحریک آزادی میں انکے کندھے
کے ساتھ کندھ ملا کر کھڑ اہونا چاہیے اور اس بات کا پیغام دینا چاہیے کہ
پاکستانی قوم ان کی جدوجہد کو بھلانے والی نہیں ہے۔ |