وطن عزیز میں ہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ
جب بھی اس نظام کو جدید ٹیکنالوجی میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی اس کی راہ میں
کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور آئی کبھی بیوروکریسی رکاوٹ بنی تو کبھی سیاستدانوں
کے لاڈلوں نے ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے کبھی مقامی انتظا میہ نے
عوام کو جوتے گھسانے پر مجبور کیا تو کبھی اہل سیاست قوم کا درد سر بن گئے
آپ الیکشن سے قبل شہباز شریف صاحب کی تقریر سنیں جس میں انہوں نے واضح طور
پر کہا تاتھا کہ اگر ہمیں موقع دیا گیا تو چھ ما ہ میں پٹورای سسٹم ختم کر
کے محکمہ مال کا تما م نظام کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے گا انھوں نے حکومت میں
آنے کے بعد اسکی کوشش بھی کی لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ جب پٹواریوں کے
ایک وفد نے انہیں یاد دلایا ہوگا کہ’’ حضور ہم ہی ہیں جو اپنی گاڑیوں میں
ووٹروں کی گھسیٹ گھسیٹ کر نہ صرف پولنگ سٹیشن تک لائے بلکہ آپ کے حق میں
رائے عامہ ہموار کر نے کیلئے دن رات ایک کر دیئے ‘‘تو شہباز شریف نے یہ
منصوبہ اس سوچ کے ساتھ ترک کر دیا ہوگا کہ اگلی دفعہ الیکشن جیت جائیں تب
ان کا کچھ کرینگے ‘اسکے بعد پاکستان پوسٹ کا معاملہ بھی ہم سب کے سامنے ہے
ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے نام پر تقریبا 22کروڑ روپے ہضم کر لئے گئے اور
ابھی تک ذمہ داروں کا تعین بھی نہ ہو سکا اب ایک اہم اور پیچیدہ معاملہ
اسلحہ لائسنس کو کمپیوٹرائزڈ کر نے کا ہے جسطرح اخبار ات میں اشتہار دیا
گیا اس سے تو ہر خاص عام کے ذہن میں حکومت کیلئے ہمدردی پیدا ہو گئی اشتہار
دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ایک گھنٹے میں آپ کا لائسنس کمپیوٹر ائزڈ ہو جائیگا
لیکن جب اس کام کیلئے عملی میدان میں اتریں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ
ایک بڑا معرکہ ہے جسے سر کرنے کیلئے ذہنی‘جسمانی اور مالی حساب سے فٹ ہو نا
بہت ضروری ہے چند دن قبل کچھ متا ثرین سے میری بات ہوئی مجھے معلوم ہو کہ
حسب روایت اس کام کیلئے آنے والے افراد کو بھی ہر منٹ بعد بتایا جاتا ہے کہ
حضورآپ اس وقت پاکستان میں پائے جارہے ہیں یہ کام اتنی جلدی اور اتنی آسانی
سے نہیں ہوگا جتنا کہ آپ سمجھ رہے ہیں راولپنڈی میں اسلحہ لائسنس کو
کمپیوٹر ائزڈ کر نے کیلئے کچہری میں بیٹھک لگائی گئی گو کہ حکومتی نمائندے
اسے سہولت مرکز کا نام دیتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ بیٹھک اپنے نام کے
برعکس ہے تمام سائلین جب یہاں پہنچتے ہیں تو ان میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی
لگا دی جاتی ہے کہ وہ سب کے نام لکھ کر صاحب بہادر کی خدمت پیش کر دے اور
اسکے بعد سائلین کو کچھ دیر انتظار کا کہا جاتاہے کچھ وقت گزرنے کے بعد
صاحب بہادر بیٹھ بیٹھ کر کترا جاتے ہیں تو سائلین کو یہ کہہ کر گھر بھیج
دیتے ہیں کہ آپ کل آجائیں آج وقت ختم ہو چکا ہے اس دوران سادہ لوح سائلین
تو چپ کر کے گھر کی راہ لیتے ہیں لیکن یار لوگ صاحب بہادر کی تھوڑٰی سی
خدمت (خدمت سے مراد یہاں رشوت ہے جو پاکستا ن میں معمولی بات ہے)کر کے اپنا
کام کرالیتے ہیں اگلے دن بھر یہی عمل دہرایا جاتا ہے اس دوران اگر کسی کی
باری آ بھی جائے تو صاحب بہادر سائل سے جو سب سے پہلی بات کر تے ہیں وہ یہ
ہوتی ہے جناب ہم تو آپ کے خادم ہیں آپ کی خدمت کیلئے بیٹھے ہیں لیکن وہ
دیکھئے دروازے پر بے چارہ پولیس والاآپ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے اگر آپ اس
کی مٹھی گرم کردیں تو آپ کا کام آج ہی ہوجائے گا ایک سادہ لوح پاکستانی
کیلئے یہ مقام بہت افسوسناک ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اس شخص کیلئے جسے
پہلے روز سے یہی تعلیم دی جارہی ہو کہ’’رشوت لینے والااور رشوت دینے والا
دونوں جہنمی ہیں‘ ‘ صاحب بہادر کی اس فرمائش کے بعد خوف ِخدا رکھنے والے
شخص کے دل و دماغ میں ایک دم سینکڑوں سوال اٹھتے ہیں جو اس کی جڑوں کو
ہلاکر رکھ دیتے ہیں سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ میں اپنے ہاتھوں سے
اپنے لئے جہنم کیسے خرید لوں لیکن ابھی وہ شخص اس جواب کی تلاش میں ہی ہوتا
ہے کہ صاحب بہادر کہتے ہیں چلو دیکھتے ہیں آج تو ٹائم ختم ہو گیا کل آنا
کچھ کرینگے صاحب بہادر کے ان الفاظ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اگر پیسے پاس
نہیں ہیں تو کل لے کر آناپھر ایمانداری کی زندگی گزارنے والے کو بھی مجبورا
اس بوسیدہ نظام کو اپنے ایمان سے سیراب کرنا پڑتا ہے اسکے بعد جو ہوتا ہے
وہی ہماری 68 سالہتاریخ ہییہاں میں یہ بتاتا چلوکہ یہ کوئی کہا نی نہیں
بلکہ ان بزرگ شہریوں کا درد ہے جسے ارباب اختیار نہ کبھی سمجھ پائے اور
کبھی سمجھ سکیں گے انھیں لوگوں کی آہیں روز قیامت حکمرانوں کا تباہی کا
سامان بنیں گی اگر کسی حکومتی نمائندے کویقین نہ آئے تو اسلام آباد سے
40منٹ کی مسافت پر موجود راولپنڈی کچہری میں یہ سب کچھ براہ راست دیکھاسکتا
ہے میری وزیراعظم نواز شریف ‘شہباز شریف اور چوہدری نثار صاحب سے درخواست
ہے کہ ایک پار یہ تینوں عام آدمی کی طرح اپنے اپنے اسلحہ لائسنس کو
کمپوٹرائزڈ کرا کے دکھا دیں‘ ایک بار یہ عام آدمی کی طرح اپنی اپنی زمینوں
کا انتقال کرا کے دکھا دیں ‘ایک بار یہ عام آدمی کی طرح اپنی کوئی درخواست
ڈی سی او سے سٹیمپ کراکے دکھا دیں ‘ایک بار اپنے گھر ہونے والی ڈکیتی کی
ایف آئی آر بغیر رشوت کے کٹو ا کر دکھا دیں اور ایک بارعام آدی کی طرح اپنے
بچوں یا پوتوں کا علاج سرکاری ہسپتال سے کر ا کے دیکھا دیں میں یقین سے
کہتا ہوں جس دن آپ نے یہ کا م کر لئے آپ اس دن پاکستان‘پاکستان کے مسائل
اور عوام کی خوشی کو سمجھ جائیں گے اس دن کے بعد آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اس
ملک اور اس ملک کی خدمت شروع کر دیں گے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ سیاستدان
اور حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ۔ |