کیا ٹکراؤ قریب ہے ۔۔۔۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
وفاقی وزیر داخلہ آئندہ ہفتے کراچی کا دورہ
کریں گے یا نہیں مگر رینجرز کے مشروط یا غیر مشروط اختیارات کے معاملے پر
تعطل برقرار رہے گا اور بحران ’’ہنوز ٹلا‘‘ نہیں ہے وفاق حکومت نے بھی اپنی
طرف سے ’’متبادل پلان ‘‘ بنا رکھا ہے سندھ حکومت چاہتی ہے کہ وفاق کو تین
شرائط پر رینجرز کو پابند رکھا جائے اور اگر یہ بات نہ مانی گئی تو آئندہ
ماہ پھر مسئلہ کھرا ہو گا جب اختیارات میں توسیع متوقع ہو گی ۔۔۔۔انسداد
دہشت گردی ایکٹ کے تحت رینجرز اختیارات پر وفاقی نوٹیفکشین ’’غالب ‘‘ رہے
گا اور اسی تناطر میں کسی مصحالتی فارمولے کے بغیر چوہدری نثار علی کان کے
دورے کے امکان کم ہیں اور جو فی الحال دور امکان دکھائی دیتا ہے کسی بد
ترین شکل میں یہ ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 149کو اختیار
کرے یا سپریم کورٹ میں معاملہ پیش کر دے جس نے’’کراچی بد امنی کیس ‘‘ 2011ء
میں مرکز کو چند ہدایات دی تھی ۔۔۔۔اگر تعطل برقرار ریتا ہے اور حکومت سندھ
’’60‘‘ روز گزرانے پے آگے رینجرز کو اختیارات میں توسیع نہیں کرتی تو
مذکررہ آپشن اختیار کئے جا سکتے ہیں مرکز نے جبکہ آرٹیکل245کے استعمال یا
گورنر راج کے امکان کو رد کر دیا ہے ساتھ ہی اپنے موقف کا دفاع کیا کہ
قانون اور وفاقی رول کے تحت وفاقی ایجنسی کام کرسکتی ہے ۔۔۔۔بظاہر لگتا ہے
کہ پاک فوج نے اپنا وزن وفاقی حکومت کے پلڑے میں ڈال رکھا ہے وہ سندھ کے
تنازع میں براہ راست مداخلت سے بچنا چاہتی ہے ،اب اگر چوہدری نثار علی خان
نے بالاآخر کراچی کے دورے کا فیصلہ کرلیا جو کہ ابھی طے نہیں ہے تو وہ وزیر
اعلی سندھ،ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر میں بہتر تعاون یا کسی کمیٹی کی
تشکیل کے علاوہ بھی کوئی بہتر پیکج یا پیشکش لے کر آ سکتے ہیں ۔۔۔لیکن اس
بات کا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ سندھ حکومت کی شرائط قبول کر لی جائیں
۔۔۔۔۔۔دوسری طرف سندھ حکومت نے ایک پوزیشن لی ہے کہ مرکز سندھ اسمبلی کی
قرارداد کو قبول کرے جس میں آپریشن کے ھوالے سے رینجرز پر تین بڑی شرائط
عائد کی گی ہیں (1) رینجرز وزیر اعلی سندھ کی اجازت کے بغیر 90روز حفاظتی
حراست کے نام پر کسی کو گرفتار نہیں کرے گی جو کہ آپریشن کے کپتان ہیں (2)
رینجرز چیف سیکرٹری کے پیشگی اجازت کے بگیر ریکارڈ سیل نہیں کرے گی اور نہ
ہی تحویل میں لے گی اور نہ ہی سرکاری عمارتوں پر چھاپہ مارے گی (3) رینجرز
پولیس کے علاوہ کسی ادارے کی مدد نہیں کرے گی ۔۔۔۔یعنی نیب اور ایف آئی اے
کی طرف اشارہ ہے ،وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے تینوں مطالبات مسترد کر
دئیے اور پھر خود اپنے جاری کردہ نوٹیفکشن کے تحت ’’انسداد دہشت گردی ایکٹ
‘‘ کی دفعہ 4کے تحت ریبجرز کو اختیارات تفویض کر دئے گئے ۔۔۔لیکن اس اتنازع
کے دوران یقنا ’’واچ لسٹ‘‘ میں موجود وزراء سیاست دان سمیت بیوروکریٹس کو
’’بچا ‘‘ لیا گیا آپریشن میں گزشتہ سال2015ء میں 16ہزار ملزمان کا فوری طور
پر کوئی ریکارڈ نہ ہے کہ وہ کون تھے۔۔۔۔؟ ان میں سے اکژ کو رہا کر دیا گیا۔۔۔۔؟
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آیا ان کو غیر مشروط طور پر رہا کیا گیا ہے یا
مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رشوت دیکر
چھوڑا گیا۔۔۔۔۔؟
رینجرز اس وقت کراچی میں محبت کا استعارہ ہیں اور انہیں وہاں کی عوام
’’فرشتہ رحمت‘‘ سمجھتے ہیں ان کے کام رخنہ اندازی کے لئے نام نہاد قراداوں
کا سہارا لینا اور اسے صوبائی حقوق کے خلاف ورزی قرار دینا خود سندھ اور
کراچی میں کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے حادثات کی بدولت اور
انتخابی عمل میں کھلی ہیرا پھیری کے ذریعے اقتدار کے منصب پر پہنچ جانے
والوں کی اس بات پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ۔۔۔اب کوئی کالے بادلوں کا
ھوالہ سے یا اٹھارویں ترمیم کی دہائی دے اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔؟
آئین کی اٹھارویں ترمیم پر جلد یا بدیرنظر ثانی ضرور ہو گی کیونکہ اس نے
متعدد شعبوں کے علاوہ تعلیم ،صحت کے سلسلے میں پاکستان اور بین الاقوامی
تعاون کے راستے میں نوع بنوع مشکلات پیدا کی ہیں متذکرہ آئنی ترمیم نے
چاروں صوبوں کو چار ریاستوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی ہے کسی صوبے
میں وہاں کی حکومت کو اختیار مل جانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ صوبہ اس
کی جاگیر بن گیا ہے وہ اسے جس طرح چائیلوٹیکھسوٹے اور وفاق ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھا رہے ۔۔۔۔ماضی میں جو لوگ وفاق میں حکمران رہے ہوں اور اپنے عرصہ
اقتدار میں لوٹ مار کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے تو وہ کس طرح ’’صوبائی
خود مختاری‘‘ کی خلاف ورزی ٹھہرے گی ۔۔۔۔۔ اب کی باری ۔۔۔۔احتساب ہو گا ۔۔۔سب
کا ہو گا۔۔۔سیاستدانوں کا۔۔۔افسروں کا۔۔۔ صحافیوں کا۔۔۔ ججوں کا۔۔۔ فوجیوں
کا۔۔۔ سرمایہ داروں کا سب کا ہو گا جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سے خائف لوگ
جو مرضی کر لیں قوم کی نظریں جنرل راحیل شریف پر لگی ہوئی ہیں جو دن بدن
اپنی مقبولیت کے ریکارڈز توڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔یہ مقبولیت ان کو اپنے کردار کی
بدولت ملی ہے کردار ہی انسان کو بلند مقام عطا ء کرتا ہے اس نے ملکی دولت
لوٹ کر تو بیرون ملک نہیں پنچائی جنکی دولت باہر ہے مجھے ان کے نام لکھنے
کی ضرورت نہ ہے عوام سب جانتی ہے ۔۔۔میرے نزدیک تو عوام کی دولت لوٹ کو
بیرون ملک منتقل کرنا بھی غداری کے مترادف ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد |
|