سنگریزے !

ابھرتے ہوئے نوجوان ناول نگار ، تفسیر عباس بابر کے ناول سنگریزے پر ایک کالم
اﷲ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔وہ دن میں پانچ مرتبہ اپنے بندے کو اپنی طرف بلاتا ہے ۔میرا جسم لرزکررہ گیا ۔تو کیا میں اﷲ کا نافرمان ہوں ؟اس کے بلانے پر بھی نہیں آتا ۔اس کی صداؤں کو نظر انداز کر دیتا ہوں ۔ہم کیسے مسلمان ہیں ،جو اﷲ کو تو مانتے ہیں پر اﷲ کی نہیں مانتے ۔ایک ماں کی نافرمانی جہنم کا باعث ہے تو ستر ماؤں کی نافرمانی کی سزا کیا ہوگی؟ میرا جسم کانپ گیا ۔میری ماں مر رہی تھی ۔ماں کی ممتا تڑپ رہی تھی ۔اس نے کتنے ارمانوں اور امیدوں سے مجھے پالا تھا ۔اولاد کتنی خود غرض ہوتی ہے کہ اپنی خواہشات کے حصول کے لیے ماں باپ کو بھی فراموش کر دیتی ہے ۔ان کے جذبات و احساسات کا خون کر دیتی ہے ۔

یہ پیرا گراف ہے ناول ’’سنگریزے ‘‘ کا ہے، جس کے مصنف ہیں ’’تفسیر عباس بابر ‘‘ ناول کی شروعات سے قبل تین صفحات پر مشتمل پیش لفظ میں ناول کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا ہے ۔بعض دفعہ ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر کے بہت بڑے مصائب و آلام میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔وہ چھوٹے چھوٹے ’’ سنگریزے‘‘ جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے ،وہی ایک دن پہاڑ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔اور نظر انداز کرنے والوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔یہ اس ناول کا مرکزی خیال ہے ۔جس کے گرد پوری کہانی گھومتی ہے ۔ ناول کے مزید تعارف سے قبل ناول کے چند فقرات کا مطالعہ فرمالیں ۔لکھاری کا انداز بیاں دیکھیں کتنا جاندار،منفرد اور دل کش ہے ۔میرے لہجے میں صدیوں کا کرب اور مدتوں کی اذیت شامل تھی ۔

تم سب کچھ کر سکتے ہو صاحب جی!عزتیں لوٹ سکتے ہو اور پلسیں بھی بلا سکتے ہو۔راستہ چھوڑو ورنہ ساری عمر راستے میں پڑے رہو گے ۔

اس کے باریک ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کر رہی تھی اور وہ رقص کرتی ہوئی لڑکیوں کو گھور رہا تھا ۔میڈیا کا دور ہے ،جھوٹی خبر اور تیز مصالے لیکن جناب چند روز ہی رولا رہتا ہے پھر میڈیا کی بھی بیٹری ڈاؤن ہو جاتی ہے ۔اپنے حق کے لیے لڑنا بھی کار ثواب ہے ۔استطاعت رکھتے ہوئے، اپنے حق کو چھوڑ دینا باطل کی طرف داری ہے ۔ظلم سہنا بھی ظلم ہے ،صحیح راستہ یہی ہے کہ اﷲ کے بندوں سے پیار کرو ۔وہ خود تمہیں پیار کرنے لگے گا ۔

تفسیر عباس بابر نے مطالعہ کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ۔کثرت مطالعہ نے ان کے اندر کے ادیب کو بیدار کیا ۔پہلے تبصرہ نگارتھے ،پھر شاعر بنے اور دو کتابیں ’’مسئلہ دل کاہے ‘‘اور’’بہت کچھ تم سے کہناتھا‘‘ لکھیں،اوراب ناول نگار بن کر ابھرے ہیں ۔سنگریزے کے علاوہ ان کے مزید پانچ ناول زیر طبع ہیں (دشت اجل،منافق،بے چین روحیں ،سرفروش،دوزخ)۔تفسیر عباس بابر کا شمار میرے چند قریبی دوستوں میں ہوتا ہے ۔ ’’ سنگریزے ‘‘ میں زندگی کی بے بسی، اداسی اوراجارہ داری سسٹم کو ان کے قلم نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔منظر نگاری کمال کی ہے ۔ لگتا ہے اپ یہیں کہیں اپنے ہی آس پاس کے کسی علاقے میں گھوم رہے ہیں۔ناول کے کرداروں میں خرم سیال ایک پڑھا لکھا ایم این اے کا سپوت جو پہلی نظر میں ایک ماہی نامی بنجارن کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔یہ عشق اسے دربدر کر دیتا ہے ۔ناول کے نصف تک کہانی کے اندر ایک اور کہانی جنم لیتی ہے، جو ہمیں غور کرنے پر مجبور کرتی ہے ،اور تجسس بڑھا دیتی ہے ۔

اصل ہیرو خرم سیال سے زیادہ پاور فل کردار عابی کھرل کا سامنے آتا ہے جو آدھا غنڈہ، آدھا شریف ہوتا ہے، خطرناک سفید لباس والے مجرموں کی سرکوبی جس کا مشن ہوتا ہے ۔ نسلی تعصب و منافرت کے خلاف لکھا گیا ،یہ ناول مانوس ماحول میں کچھ سرپھروں کے گرد گھومتا ہے جنہوں نے انسانیت کے مجرموں کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنا اور ان کے اصل چہرے دنیا کو دکھانا،اپنا فرض بنا رکھا ہے ۔

اس ناول میں اپنے ضمیر کی سودے بازی کرنے والے ایک پولیس والے کا کردار ہے، جو انسانیت کے مقابل حیوانیت کو ترجیح دیتا ہے۔ ۔دولت ہی جس کا دین و ایمان ہوتی ہے ۔اسے جرائم کی سرکوبی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ناول کو پڑھتے ہوئے تشدد اور نفرت سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔ ا نجام بڑا منطقی ہے ۔جب ایک ڈاکو (عابی کھرل) عالم دین ایک ٹاپ ٹین بدمعاش دین کے راستے پرچل پڑتاہے ۔ مصنف نے ہر کردار کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے ۔

اس ناول ’’سنگریزے ‘‘کے بارے میں ملک کے ادبی حوالے سے ایک معتبر نام ،نامور ادیب جناب ناصر ملک کا کہنا ہے کہ تفسیر عباس بابرنقطہ انسانیت کی معراج کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ وہ انسانوں کی باہمی محبت کا متلاشی ہے اور چاہتا ہے کہ یہ بدصورت دنیا محض ایک الوہی جذبے سے خوبصورت بن سکتی ہے اور وہ جذبہ محبت کا جذبہ ہے ۔

اسی طرح ملک کے معروف و مشہور صف اول کے لکھاری جناب ڈاکٹر عبدالرب بھٹی کا کہنا ہے کہ تفسیرعباس بابرایک حساس دل ہی نہیں بلکہ حساس نظراوراپنی سوچوں میں اضطراب رکھنے والے انسان ہیں ۔ایک ایسااضطراب جواپنے گردوپیش میں پھیلے سماجی مسائل اورانسانوں کے غیرانسانی رویوں کومحسوس کرکے تڑپ جاتاہے، بلاشبہ زیرِنظرکہانی اسی تڑپ کانتیجہ ہے ۔

اس ناول کے بارے ہر دل عزیز ،ہمہ جہت مصنف محترم امجد جاوید کی رائے ہے کہ محبت کسی اونچ نیچ کی تابع نہیں عشق کسی کم تری یا برتری کو ماننے والا نہیں اورتفسیر عباس بابر کی تخلیقی آنکھ نے اس معاشرتی مدو جزر کو کتنی خوبصورت سے تصویر کیا ہے کہ دیکھنے والا تحیر کی وادیوں میں کھو جاتا ہے ۔خرم اور ماہی کا عشق امر داستان ہے اور داستان اپنے سننے ،پڑھنے والوں کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑا کرتی ،اس داستان کو بھی یہ وصف حاصل ہے ۔ بہترین کاغذ ،خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق و پس ورق سے مزین خوبصورت کتاب ناول ’’سنگریزے ‘‘جو دوست ناول حاصل کرنا چاہیں وہ 03013652497 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578687 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More