(نام کتاب: نورٌ علیٰ نور(مجموعہ حمدو نعت
شاعر: خورشید احمر
ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمد ونعت ریسرچ سینٹر، کراچی
مبصّر:صابرعدنانی
حمدونعت ایسا دلی جذبہ ہے جو انسان کو اﷲ اور رسول محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ
وسلم سے قربت میں بے خود کردیتا ہے۔حمداﷲ کی توصیف و تعریف ہے تو نعت اﷲ کے
رسول محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی عظمت کا بلندآہنگ ذکر ہے، جس کے ذریعے
مسلمان بلکہ یہاں انسان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیوں کہ نعت کے حوالے سے
کئی غیرمسلم شعرا نے بھی آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی توصیف میں ایسی
نعتیں قلم بند کی ہیں جواپنے منتہائے عروج پر ہیں۔بلاشبہ حمد ونعت ایسی
اصناف سخن ہیں جہاں احترام وحرمت اور انسانی بلاغت و فصاحت کی اعلیٰ ترین
مثالیں ملتی ہیں۔اردو ادب میں بھی حمدونعت کوعروج حاصل ہوا۔ جہاں نعت گوئی
کے فن میں جدتیں بھی آئی ہیں وہیں اﷲ اور رسول محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم
سے محبت کے انداز اتنے گہرے اورپختہ ہیں کہ اُنھیں کسی پیمانے پر پرکھنے کی
ضرورت نہیں ہوتی۔
امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ نے جب قصیدہ بردہ شریف لکھا تھا تواُس
وقت آپ کے جسم کا بایاں حصہ مفلوج تھا، جس رات آپ نے قصیدہ مکمل کیا اُسی
رات آپ کو نبی پاک محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ
محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے ہوئے تھے، آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ
وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ہمیں تمھاری
یہ نعت بے حد پسند آئی ہے…… تم ہمیں سناؤ۔‘‘چنانچہ امام بوصیری رحمۃ اﷲ
علیہ نے اپنی نعت آنحضور محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کے دربار میں پیش کی۔
نعت سننے کے بعد آپ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ
کی تحسین کی اور اپنی چادرمبارک اُتار کر امام بوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کے
بائیں شانے پر ڈال دی۔صبح جب امام ابوصیری رحمۃ اﷲ علیہ کی آنکھ کھلی تو
دیکھتے ہیں کہ آپ کے جسم پر چادرمبارک موجود ہے اور آپ کا جسم بالکل ٹھیک
ہوچکا ہے۔
ہر دور میں ایسے عشاق کی کمی نہیں رہی جو اپنا تن من دہن نام محمدمصطفی صلی
اﷲعلیہ وسلم پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔مسلمانوں کا
سرمایۂ حیات یہی محبت ہے۔مگر یہ محبت اپنی معراج کو اُس وقت پہنچتی ہے جب
وہ اتباعِ رسول محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کی سعادتوں سے بہرورہونے کے لیے
عملی مظاہرہ کرنے لگیں پھر نہ گھر پیارا ہوتا ہے اور نہ سازوسامان۔ ہر
محبت، ہر چاہت، ہر خواہش آقائے نامدار محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم کے غلاموں
میں شامل ہونے کی خواہش کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے۔ پیغام محمدمصطفی صلی
اﷲعلیہ وسلم جس مسلمان کے دل میں بس جائے تو پھر وہ یہ پیغام دوسروں کو
پہنچانے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے۔یہی اتباع عشقِ محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ
وسلم کی معراج ہے۔
خورشید احمرپختہ کار شاعر وادیب ہیں۔ ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ آپ کی
شاعری کا پہلا مجموعہ’’شہرِچراغاں‘‘ تھا۔ اب دوسرا ’’نورٌ علیٰ نور‘‘
(مجموعہ حمدونعت) میں اﷲ اور رسول محمدمصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم سے محبت نے آپ
کے شعری وجدان کوفنی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔انگریزی زبان کی معروف شاعرہ
اورانڈین انٹرنیشنل کانگریس کی اہم لیڈر سروجنی نائیڈو کی ایک نظم (Prayer)
جس کا خورشید احمرنے منظوم ترجمہ کیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
آیۂ حمد و ثنا و زدِ زباں ہے دم بہ دم
اے کریم لم یزل و اے رحیم مختتم
عشق کی اقلیم کا لاریب تو ہے تاجدار
تیرے ہی جلووں سے روشن ہے چراغ روزگار
کیسا سمندر، کیا ہوا، اے حاکمِ غیب و شہود
تیرے ہی فرماں کے تابع ہے نظامِ ہست و بود
یاحمید و یاحفیظ
خورشید احمرکی حمدیہ ونعتیہ شاعری پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن
کے اظہارمیں کس قدر شائستگی اور مہارت رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ
فرمائیے:
ارض جنت سے مجھے اذن سفر اس نے دیا
کار دنیا کے سمجھنے کا ہنر اس نے دیا
آئینہ اس نے دیا ذوقِ نظر اس نے دیا
دل کو ہر لمحہ تڑپنے کا ہنر اس نے دیا
ان اشعارسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اﷲکی تعریف میں ایسے سرشار ہیں کہ اُنھیں
اﷲتعالیٰ نے جو انعام و اکرام دیاہے اُس پر خوش اور نازاں ہیں اور کہتے ہیں
کہ اے اﷲ تُو نے مجھے ایسا ہنُردیا ہے کہ میں دنیا کے سارے ہنُرسمجھ سکتا
ہوں اور ایسی تڑپ تُونے میرے دل میں ڈال دی ہے جس کی وساطت سے میں تیری ہی
حمدوثنا کرتا ہوں۔
گنبدِ خضرا کے عنوان سے جو نظم ’’نورٌاعلیٰ نور‘‘ کا حصہ ہے وہ شاعرکی
طہارتِ فکر کا آئینہ ہے:
قرار قلب مسلماں ہے اس کا نظارہ
جمال شافع محشر ہے گنبدِخضرا
جہاں سے ملتا ہے دستِ طلب کو جام یقین
اسی یقین کا منظر ہے گنبدِخضرا
خورشید احمرکی حمدونعت پڑھ کر دل کی فضا مسرور ومنور ہوجاتی ہے ،یہی اُن کے
فن کی معراج ہے جو ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ کتاب صوری ومعنوی اعتبار سے
بہت دیدہ زیب ہے۔
|