انتہاء پسندی میں جکڑے مسلمان

 درجن بھر بین الاقوامی جریدے، قومی اخبارات اور ویب سائیٹس پر بہت سا مواد پڑھنے کو روز ہی مل جاتاہے۔ کوئی کتاب پسندا ٓ جائے تو جنوری کی ان سرد دنوں میں چھت پر دھوپ میں بیٹھ کرچندہی دنوں میں پوری کتاب نپٹالیتا ہوں۔معروف کشمیری ڈرامہ رائیٹر رابعہ رزاق کی کتاب ''خواب، خواہش اور زندگی'' ماہ دسمبر میں پڑھی توتھی اس پر تحریر اب تک قرض ہے۔لکھنے کی کاہلی دور کرنے کا وقت شاید اب آن ہی پہنچا، ویسے جب سے الیکٹرانک میڈیا سے ناطہ جڑا، تب سے میرا لکھنا کم ہو گیا، حتیٰ کے پڑھنا پہلے سے خاصا زیادہ ہواہے۔ اب نیا عیسوی سال شروع ہوا تو فیصلہ کیا کہ اب پڑھنے کے معیار کو مزید بہتر بناتے ہوئے لکھنا پھر سے شروع کرتے ہیں ۔وودن میں ایک کتاب جو عالمی امور پرلکھی گئی ہے وہ پڑھی، تو سوچتا ہی رہ گیا کہ آیا ہمارے پالیسی ساز ادارے کیوں دماغ بند ہیں؟ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کیوں بنداور تدریسی ادارے کب تک کاپی پیسٹ پالیسی میں لگے رہیں گے،سوچ لمبی ہے سوآج پہلے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔

گزشتہ سال داعش کا نام دیکھتے ہی دیکھتے ملک عراق سے پھوٹتے ہوئے اب ایسا مقبول ہوا، جیسے کبھی طالبان اور القاعدہ کے وجود کے وقت ان کا نام نامی ہوا تھا۔ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا کی توجہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی طرف مبذول کرائی،اس واقعے کو ایسے ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا تھاکہ وہی ایک ایسا مسئلہ اقوام عالم کے لیے خطرہ ہو۔پندرہ سال بعد اسامہ کی کہانی پس پشت جا چکی ،اب نیا دور ہے ، نئے تقاضوں کے ساتھ نئی ڈاکٹرائن ۔ داعش کے نام سے تنظیم لانچ کی گئی جوخلافت اور اسلام کو بدنام کرتے ہوئے تواتر سے عراق و شام میں تشدد کی کاروائیاں کی رہی ہے ۔ہمیں اس تنظیم کو صرف یورپ، امریکہ یا یہود،ہنود اور عیسائیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش کہہ کرچپ نہیں بیٹھنا چاہیے، کیونکہ مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں سے ہی دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں، ساتھ کچھ اپنے بھی تو معاشی و سیاسی استفادہ حاصل کرتے۔ترکی سے تعلق رکھنے والے ممتاز لکھاری ' فتح اﷲ گولن ' کی اسی موضوع پر تحریر پڑھ رہا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کا لبادہ اوڑھے ان گروہوں کی دہشت گردی پر ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ اپنے غم وغصے کا اظہار کرتا ہوں۔ مسلمانوں پر یہ خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نہ صرف دنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں درپیش تباہی وبربادی سے بچانے کے لئے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہاتھ ملائیں بلکہ ہمیں اپنے عقیدے کے تشخص کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی کرنا ہو گا۔ الفاظ اور نشانیوں کے ساتھ کسی بھی مخصوص شناخت کا دعویٰ کرنا آسان ہے مگر ان دعوؤں کی صداقت صرف اپنے افعال کو ان دعوؤں کے ساتھ پرکھنے سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔گولن کے مطابق ایمان کی اصل آزمائش صرف نعرے لگانے یا مخصوص لباس پہننے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ان بنیادی اصولوں پر زندگی گزارنے میں ہے جن کا پرچار دنیا کے تمام اہم مذاہب کرتے ہیں۔ ان میں جان ومال کا تقدس اور تمام انسانوں کی عزت و احترام شامل ہیں۔گزشتہ پانچ دہائیوں سے عالمی امور،سائنسی و سماجی تغیرات پر اپنے تحریروں کے ذریعے گہرے نقوش چھوڑنے والے فتح اﷲ گولن کے مطابق مسلمانوں کو ہر قسم کی سازشی تھیوریوں سے بھی بچنا اور انہیں مسترد کرنا چاہئے جو آج تک ہمیں معاشرتی مسائل کا سامنا کرنے سے ہی روکتی رہی ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں ان حقیقی سوالات کا سامنا کرنا چاہئے، کیا ہمارا معاشرہ اپنے اندر موجود مطلق العنانیت، گھریلو تشدد، نوجوانوں کو نظر انداز کرنے ، روزگار کے مسائل اور متواز ن تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمہ گیر ہونے کی نیت رکھنے والے ایسے تخریبی گروہوں کے لئے بھرتی کامیدان ثابت نہیں ہو رہا؟ کیا ہماری حقوق انسانی، آزادی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکامی ان لوگوں کے لئے مدد گار ثابت نہیں ہوئی جو متبادل منصوبوں کے ساتھ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں؟گولن کے سوالات یقینا ہمیں جھنجوڑ رہے ہیں۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے پالیسی ساز ادارے دنیاوی تقاضوں و سازشوں کا دائمی توڑ کرنے اور عوام کی فلاح کی اہلیت رکھتے ہیں ؟ کیا مسلم دنیا میں جو حکومتی و سیاسی نظام رائج ہے وہ ہمیں کامیابیاں دلا بھی سکتا ہے؟؟ ہمارے ہاں خاص کر مسلم دنیا میں جو سیاسی جماعتیں مسلم امہ کو یکجا کرنے کے لیے کوشاں ہیں ان کو پذیرائی دینے میں برائی کیا ہے؟ کیا ہمیں مان لینا چاہیے کہ ڈالروں کی غلامی میں ہی سب کی عافیت۔

بحیثیت مسلمان شہری ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی زبوں حالی کے باوجود ہم مسئلوں کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ ہمیں ہر سمت میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہو گا ، معاشی، سائنسی و معاشرتی طور پر ترقی کرنا ہو گی۔داعش جہاں دیگر ممالک میں تیزی سے پھیلائی جا رہی ہے، وہیں مزید مقاصد کی تکمیل کے لیے ،پاکستان میں بھی اس کی جڑیں توانا کرائی جانے کی اطلاعات ہیں۔ موجودہ حکومت نے عسکری اداروں کی مدد سے، ایسے گمراہ کرنے والے عناصر کے خاتمے کی کوشش کر رکھی ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ جہاں سے ہمارے خزانے میں ڈالر،یورو اور ٹینکوں میں آئل داخل ہو رہاہے،ان مہربانیاں اور نوازشیں کرنے والے پالیسی سازوں کی سوچ کیا ہے۔ہمیں غور کرنا ہو گا کہ ادھار میں لیا گیا نظام کبھی نہ کبھی واپس کرنا ہی پڑے گا ،میرے خیال میں جونظام ہم نے بعد میں واپس کرنا ہو، وہ وحدت کی خاطرابھی ہی کیوں نہ کرلیا جائے؟جہاں تک بات رہی داعش کی تو اس کو بنانے اور بڑھانے والے،اپنے مقاصد کی تکمیل تک اس کی جگہ کوئی نیا مہرہ کسی اور کے کندھے پر رکھ کر سامنے لے آئیں گے۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66157 views Columnist/Writer.. View More