آج جو حالات سامنے آرہے ہیں ان کو دیکھ کر
اور پڑھ کر ہمارے دلوں میں غم و الم کے طوفان اٹھ رہے ہیں سمجھ میں نہیں
آرہا کہ ہم انسانیت کے چمن میں ہیں یادرندوں کے کسی جنگل میں زندگی بسر کر
رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو ان چند باتوں پر غور کرنے کی
ضرروت ہے کیونکہ سابقہ حکومت ٹیکس چوروں،مہنگائی ،دہشتگردی،بے روزگاری،
ملاوٹ و ذخیرہ مافیہ کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے کیونکہ ان کی
ناقص،سیاسی و ذاتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام خود کشی،چوریاں،ڈکیٹیاں کرنے
اور مجرم بننے پر مجبور تھے اور5,6 خاندانوں نے گزشتہ چالیس سالوں سے
اقتدار میں مختلف حکومتوں کی آڑ میں آکرملک میں لوٹ مار کر کے دنیامیں
پاکستان کو سترارب ڈالر کا مقروض بنادیاہے اور قومی اداروں وخزانوں میں
کھربوں کی کرپشن کرکے ملک کو دیوالیہ بنادیا ہے اگر گزشتہ چالیس سالوں سے
اقتدار میں رہنے والے کرپٹ سیاستدانوں ،افسرشاہی کا بدترین احتساب کیا جائے
توپاکستان پھر ہی دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے اورسیاست دانوں سمیت
تمام پاکستانیوں کا کھربوں ڈالر واپس ملک میں لایا جائے تو ہمارا روپیہ
ڈالر کو بھی کراس کر جائے اور جس ملک میں تعمیر،انصاف،تعلیم،صحت جیسے ادارے
منافع بخش بن جائے اور سرمایہ دار،جاگیردار،صنعت کار،بینکار،افسرشاہی
نالائق اشرافیہ اورملک وعوام دشمن لوگ اقتدار میں آجائیں گے تو وہ ملک
ہیرے،سونے،چاندی،اور قدرتی معدنیات کی دولت سے مالا مال بھی ہوتو وہ ملک و
قوم کبھی بھی خوشحال و ترقی یافتہ نہیں بن سکتی اور چھیاسٹھ سالوں ہم یہ
تباہی دیکھ بھی رہے ہیں اور حکمران عوامی مسائل حل کرنے اور گورنمنٹ ادارں
کومنافع بخش بنانے کی بجائے ملک کے مقدس قومی اداروں پر تنقید کرنے اور
سرکاری اداروں کی نجکاری اور عوام کوبنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں گی توپھر
موجودہ حکومت بھی ناکام ہونا شروع ہوجائیگی ۔انٹرنیشنل سطح پر تیل۔گیس، آئل
اور ملک میں ڈالر کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن حکومت اس کافائدہ 98 فیصد
غریب اور متوسط عوام کو دینے کی بجائے بڑے بڑے تاجروں، سرمایہ داروں اور
اپنے ہی لیول کے لوگوں کو دے دیتی ہے اور سیاسی جماعتوں نے آئین کی62,63شق
پر نہ اترنے والے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیکر آئین پاکستان ،الیکشن کمیشن
اور عدلیہ کے حکم کا مزاق بھی اڑیا گیا ہے۔اگر پاکستان کو ترقی یافتہ ملک
بنانا ہے تو اس وقت پاکستان کو انرجی کی بہت ضرورت ہے اس لئے پاکستان کو
اندھیروں سے نکالنے کے لئے کالا باغ ڈیم منصوبہ غریبوں کی خوشحالی کا
منصوبہ ہے جو اشرافیہ اپنے مفادات کی خاطر بننے نہیں دیتی اور کالاباغ ڈیم
سمیت دیگرڈیم نہ بننے سے ہر سال سیلاب سے سینکڑوں انسانوں،جانوروں کاجانی
اور ہزاروں مکان و لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے کھربوں روپے کا
مالی نقصان ہوتا ہے اور مالی و جانی نقصانات سے بچنے کیلئے جب تک کالاباغ
ڈیم سمیت دیگر آبی ذخیرے نہیں بنائے جائیں گے تب تک ان جگہ پر سیلابی پانی
تو سٹاک کیا جاسکتا ہے اور اگر سیلابی پانی جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان
کے بنجرصحرائی علاقوں کی طرف موڑدیا جائے تو ہماری لاکھوں ایکڑ بے کار بنجر
رقبہ سیراب ہو سکتا ہے مگر ایسا کرنا ان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں کیونکہ
یہ سب اپنی باری کے چکر میں عوام کورسوا کر رہے ہیں اس لئے موجودہ حکمرانوں
سے التجا ہے کہ اپنی مثبت پالیسیوں کے ذریعے کہ ذرہ غوروفکر کرو اس پاکستان
کی عوام کے بارے میں ،کیونکہ اگر عوام کو ان کے مسائل اور ان کو بہترین
وسائل میسر نہیں ہوں گے تو پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی ممکن نہیں
۔اور اگر موجودہ حکومت اپنی مثبت سوچ اور ٹھوس پالیسیوں پر عمل پہرا ہوں تو
سب ممکن ہے اور پاکستان کو دنیاکا بہترین ملک بنایا جا سکتا ہے ۔ |