سعودی عرب کے اندرونی معاملات اور ایران
(Prof Dr Shabbir Khursheed, Karachi)
2جنوری 2016 کو سال کے پہلے مہینے
میں سعودی عرب کی حکومت نے اپنے ملک میں 47دہشت گردوں کے سعودی عرب کے 12
شہروں میں سر قلم کر دیئے۔ جن میں سے ایک دو افراد کے علاوہ تمام ہی سنی
مسلمان تھے جن پر سعودی عرب میں دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے پر عدالتی
حکُم کے تحت سزائے موت دیدی گئی۔جن میں اکثریت کا تعلق القاعدہ سے بتایا
گیا ہے۔سعودی وزارت داخلہ کے مطابق یہ لوگ 2003سے 2006 تک کی مدت میں ہونے
والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔سزا یافتہ افراد میں ایک
شیعہ نمر النمرکے علاوہ فارس الشویل بھی شامل ہے نمر کے متعلق کہا جارہا ہے
کہ وہ شیعہ مبلغ تھے۔ جس پر ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے سخت ردِ عمل
کا مظاہرہ کیا گیا۔نمرالنمر کی تصاویر لیکرلوگوں نے پورے ایران میں سعودی
عرب کے خلاف نا صرف مظاہرے کئے ۔بلکہ سعودی حکومت کے خلاف انتہائی نفرت
آمیز نعرے بھی لگائے گئے اور ایرانی دفترِ خارجہ نے سعودی ناظم العمور کو
طلب کر کے ا نا صرف اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ دھمک آمیز
لہجہبھی اختیا ر کیا ا س پر ایران میں سب سے خطر ناک بات یہ کی گئی کہ
تہران میں سعودی سفارت خانے کو ایرانی بلوائیوں نے آگ لگادی ۔جس نے دونوں
ملکوں کے درمیان نفرت کی آگ کو اور بھی بڑھکا دیا ہے۔یہ بات بھی اہمیت کی
حامل ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ایران پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ یمن میں
حوثی باغیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سعودی حکومت کے
خلاف زبر دست پرو پیگنڈہ کر رہا ہے۔جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان
کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔جومنقسم امت مسلمہ کی تقسیم میں کلیدی
کردار ادا کرے گی۔اور اس اختلاف کا سب سے زیادہ فائدہ داعش کو پہنچ سکتا
ہے۔جو ایک خاص ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوے اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے
ہیں۔ایسی تنظیموں کے قیام کے ضمن میں مغرب و اسرائیل کے کر دار کو بھی
فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔جو اسلامی دنیا میں افراتفری پھیلانے میں سب سے
زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کو حق حاصل نہیں کہ وہ کسی
ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ایسے معاملات سے دنیا کے امن کو
خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔کوئی بھی ملک اپنے قوانین کو کس طرح استعمال کرے یہ
اُس کی اپنی ثواب دید ہوتی ہے۔ اس میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جا
سکتی ہے۔ مسلم دنیا کو ایران سعودی عرب تنازعہ کو جس قدر جلد ممکن ہو ختم
کرانے کی فکر کرنی چاہئے۔ایرانی روئیہ کی وجہ سے کئی عرب ممالک نے ایران سے
اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔جو اسلمی انتشار کی نوید دکھائی دیتے
ہیں۔جس سے عرب دنیا میں ایران تنہائی کا شکار بھی ہو جائے گا۔
موجودہحالات کے تناظر میں سعودی وزیرِخارجہ عادل بن احمد الجبیر3 جنوری کو
دو رکنی وفد کے ساتھ پاکستان پہنچنے والے تھے۔مگر کچھ ناگذیر وجوہات کی
بناء پر انہوں نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا اور 7 جنوری کو پاکستان آنا کنفرم
کر دیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کی پاکستاں آمد کے بعد وزیر اعظم نواز شریف
چیف آف آرمی اسٹاف جنرلراحیل شریف اور مشیرِامورِ خارجہ سر تاج عزیز سے الگ
الگ ملاقاتیں کریں گے اورگے۔وزیر خارجہ سیاسی اور عسکری قیادت سے مختلف
علاقائی اورعالمی مسائل پر گفت وشنید کریں گے۔جس میں دونوں ممالک کے تعلقات
کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔جس کے بعد وہ ایک مشترکہ کانفرنس سے بھی خطاب
کریں گے۔
تہران میں سعودی سفارت خانے کے جلائے جانے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے
اپنیناصرف سفارتی تعلقات بلکہ ہر قسم کے سماجی اور معاشی تعلقات منقظع کر
لئے ہیں ۔اس کی بڑی وجہ مشتعل مظاہرین کا سعودی مشن پر دھاوا بولنا پتھراؤ
کرکے،سفارت خانے کے فرنیچر کو نذرِآتش کرنااور پھر پیٹرول بموں سے سفارت
خانے کی عمارت پر حملے کرنا سامنے آنے کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے
تعلقات انتہائی دگر گوں ہو چکے ہیں۔اس سے قبل سفارت خانے کی عمارت میں گھس
کرمشتعل افراد نے فرنیچر کی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد سفارت خانے کی چیزوں کو
آگ لگادی ۔جس کی بناء پر ایرانی سفارتی اہل کار کو48گھنٹوں کے اندر سعودی
عرب چھوڑ دینے کا حکم دیدیا ہے۔سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کو سعودی
عرب کی سا لمیت کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے۔ایرا ن سعودی عرب میں دہشت
گردوں کے سیل بنا کر خطے کو غیر مستحکم کررہا ہے۔دوسری جانب ایرانی حکام نے
40بلوائیوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور ایرانی صدر حسن روحانی نے
اس حملے کی مذمت بھی کی ہے۔
جبکہ ایران کے دیگر حلقوں ،پاسدارانِ انقلاب اور آیت اﷲ خامنہ ای کا کہنا
ہے کہ قدرت کی طرف سے بھی سزا ضرور ملے گی۔ جبکہ پاسدارانِ انقلاب کا
کہناہے کہ اس کا بدلہ لیں گے۔اسی طرح حزب اﷲ کے حسن نصر اﷲ نے نمر کی موت
کو خونی پیغام قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ دنیا بھر میں فرقہ پرستی کی آگ
بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے!!! ہم اس واقعے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایران اور شام میں ایک مخصوص لابی کا ہر فرد سعودی عرب کے اندرونی امور میں
بھر پور مداخلت کرنے کی کوشش وں کی حمایت کر رہا ہے۔دیکھنے والیبات یہہے کہ
ایران میں ایسے سینکڑوں واقعات میں سینکڑوں سُنیون کو موت کے گھاٹ اُتار
جاتا رہا ہے۔مگر سعودی عرب یا سنی طبقات کی طرف سے کبھی بھی ایسا روئیہ روا
نہیں رکھا گیا جیسا ایران نے روا رکھا ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایران عرب
دنیا مین خود ہی تنہائی کے بیج بو رہا ہے۔یا اب اُسے ایٹمی قوت مل جانے کے
بعد ایک خاص قسم کا تکبرپیدا ہو رہا ہے۔جس کی بناء پر وہکسیکو بھی خاطر میں
لانے کے موڈ میں ہی نہیں ہے۔دوسرے شائد امریکہ کی بھی اسے آشیرواد حاصل ہے۔
اسلامی دنیا کا ہرکوئی فردسعودی عرب اور ایران کی اس ٹسل سے پریشانی محسوس
کر رہا ہے۔کیونکہ اسلامی دنیا پہلے ہی یہود و نصارا کے بوئے ہوے بیج کاٹ
رہی ہے۔جو کبھی القاعدہ اور کبھی داعش کے روپ میں بھیج بھیج کر اسلامی دنیا
کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔امت کا موجودہ انتشار ہمیں نہیں معلوم کہ کہا ں جا
کر ختم ہو گا۔سنی دنیا میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ شائد اب
سعودی عرب کا کردار چھین کر مغرب ، ا یران کو سُنی عرب دنیا پر حاوی کرانے
کے کھیل کا حصہ بن چکا ہے۔اس انتشار کا فائدہ بھی صرف اسلام دشمن قوتوں کو
ہی ہوگا۔اس ضمن میں عالمی برادری کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب
اور ایران کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ایران میں سعودی سفارت خانے پر
جارہانہ حملے کی وجہ کئی عرب ملکوں نے اپنے سفیربھی واپس بلا لیئے ہیں۔
جبکہ امریکہ کی جانب سے جو ردِ عملآیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ سعودی مبلغ
نمر کی سزائے موت سے علاقے میں فرقہ وارانہ تلخی بڑھے گی۔جس سے شا م میں
امن کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے معاملے میں
اقوامِ متحدہ اکے سیکریٹری جنرل بانکی مون کا کہنا ہے کہ انہیں 47 ،افراد
کی سزائے موت دیئے جانے پر مایوسی ہوئی ہے اور یورپی یونین اورفرا نس نے
بھی ان ہی جذبات کا اعادہ کرتے ہوے اپنی اپنیمایوسی کا اظہار کیا ہے۔غیر
جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں ایران کی
مداخلت نا قابلِ قبول ہے․․․․․ |
|