نماز قرآن ذکر ِ الٰہی اور دعا !!

 وہ انسان انتہائی خوش نصیب اورکامیاب قرار دیا جائے گا جو اپنے دن کا بیشتر وقت اﷲ سبحان و تعالیٰ کو یاد کرتے گزارتا ہے، چاہے وہ نماز پڑھتا ہے، چاہے وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے،یا زبان سے تسبیح اور درُود و سلام پڑھتا ہے، پھر وہ دل سے دعا کرتا ہے،ندامت اور تشکر کے دو چار آنسو بہاتا ہے،وہ خوب سمجھتا ہے کہ اسکی ضروریات، حاجات اور خواہشات بہت زیادہ ہیں اور ان آرزؤں، تمناؤں اور امنگوں کو پورا کرنا انسان کے بس میں نہیں،لہذا وہ اپنے اﷲ سے رابطہ کرتا ہے،اسکے آگے اپنی حاجات اور خواہشات پیش کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی اسکی مشکل اور اسکی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔

ایک مرتبہ حضور کریم ﷺ نے حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فرمایا کہ یعنی تم تلاوت قرآن اور ذکر اﷲ کو اپنے اوپر لازم کر لو،کیونکہ اس سے آسمان میں تمھارا تذکرہ ہوگا اور زمین میں تمھارے لیے نور ہوگا۔

اب یہ اﷲ کی شانِ کبریائی ہے کہ وہ چاہے تو کسی کی نیکی پر فوراً انعام و اکرام سے نواز دئیے، چاہے تو کسی کے گناہ پر فوراً پکڑ کر لیے، لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ وہ باری ذات کسی کی نیکی پر نہ تو آسمان سے فوراً مٹھائی اُتارتا ہے اور نہ کسی کے گناہ پر اسے فوراًکوڑے مارتا ہے ، بلکہ اپنی مصلحت کے تحت اسے ڈھیل دیتا ہے اور کسی کے نیک کاموں پر اس کا اجر کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جو بھی کوئی مسلمان کوئی دعا کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دعا کی وجہ سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز عطا فرما دیتے ہیں ، یا تو اسکی دعا اسی دنیا میں قبول فرما لیتے ہیں یا اس کا سوال پورا فرما دیتے ہیں یعنی جو مانگتا ہے وہ دے دیتے ہیں ،یا اسکی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ رکھ لیتے ہیں یعنی آخرت میں اس دنیا سے بڑھ کے قیمتی انعام و اکرام کی صورت میں عطا کرتے ہیں،یا دعا کرنے والے شخص کواس کی مطلوبہ شئے کے برابر آنے والی کسی بلا مصیبت اور نقصان کو ٹال دیتے ہیں۔ آخرت میں انسان یہ تمنا کرتا پایا جائے گا کہ کاش اسکی کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوتی تو اچھا تھا تاکہ بدلے میں بڑے بڑے انعامات سے اسے نوازا جاتا، دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنا کے رکھ لینا درحقیقت اﷲ کی بہت بڑی مہربانی اور بندے سے محبت کا ایک ثبوت ہے۔

لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ دیتا اُسی کو ہی ہے جو اس سے سوال کرتا ہے ، جو دُعا میں اسکے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے جو سجدے میں جا کے سَرگوشی میں اپنی حاجات پیش کرتا ہے، جو تہجد میں آنسو بہاتے ہوئے دنیا اور آخرت مانگتا ہے۔ یا پھراُسے بغیر مانگے عطا کرتا ہے جو اپنا بیشتر وقت ذکرِ الہٰی اور یادِالٰہی میں گزار دیتا ہے۔ قرآن شریف میں سورت الاحزاب میں ارشاد ہے کہ اے ایمان والوں تم اﷲ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح بیان کرتے رہو۔

چونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے لہذا انسان پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو عبادت کے ذریعہ بخشوا لئے، اور اﷲ تعا لیٰ کی خوشنودی حاصل کرے اور اپنے آپ کو جنت کا حقدار بنا ڈالے، لیکن یہاں ایک بات یاد رہے کہ جنت محض انسان کی ریاضت اور مشقت سے حاصل نہیں ہوگی یہ محض اﷲ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی اور اسکی رضامندی سے ملے گی،ہاں البتہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنت انہیں ملے گی جو مومن اور نیکوکاروں کی لائن میں لگے کھڑے ہوں گے،اور اُسی لائن میں کھڑے لوگ ہی جنت میں جانے کے اہل ہوں گے،ہم مسلمان کم از کم اتنا تو کر لیں کہ اس لائن میں کھڑے ہونے کے اہل ہو سکیں۔
پنج وقت نمازِباجماعت اور تلاوت قرآن کے بعد اکثر لوگ دنیاوی امور میں لگ جاتے ہیں،اور اپنے قیمتی وقت کا بیشتر حصہ دنیا داری اور اسکے تقاضوں میں خرچ کر ڈالتے ہیں،ہمارے مسلمان بھائی اور خصوصا نوجوان طبقہ اپنے وقت کا بیشتر استعمال سوشل میڈیا جیسے فیس بک ،ٹوئیٹر ، یو ٹیوب وغیرہ پر گزار دیتا ہے،ایک محتاط اندازہ کے مطابق ہمارے ہاں ایک طالب علم یا نوجوان اگر بلاناغہ سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو سال میں اس کے دو سے تین مہینے اسی میں خرچ ہو جاتے ہیں،یعنی کہ سال میں سات سو سے آٹھ سو گھنٹے وہ اپنا قیمتی ترین وقت بغیر کسی حاصل وصول کیے گنوا بیٹھتا ہے،بہت کم اس وقت میں کچھ علم یا کچھ سیکھ پاتے ہیں،اکثریت محض تفریح ، چیٹنگ اورشعر و شاعری کی پوسٹنگ میں ہی اپنا دن رات بیتا دیتے ہیں، یہ کتنا بڑا نقصان ہے اس کا اندازہ آج نہیں لگ سکتا لیکن کل روزِقیامت انسان حسرت و یاس میں روتا رہے گا لیکن کوئی اسکے آنسو پونچھنے والا نہیں ہوگا، انسان تڑپے گا کہ اے کاش اسے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت اور اسکے ذکر میں گزار دیے، ہر وقت درود و سلام پڑھے اور با ر بار ہزاروں لاکھوں بار اپنے خالق و مالک سے دعا کرے تاکہ اسکے درجات بلند اور آخرت میں بیش قیمت انعامات اور اعزازت ملیں لیکن اسکی یہ تڑپ اور فریاد ہرگز نہیں سنی جائے گی۔

اے میرے بھائیو ! زندگی کتنی باقی بچی ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں،اس دنیا کو بلآخر ختم ہونا ہے، صور پھونکنے والا فرشتہ ازل سے بغیر آنکھ جھپکائے اﷲ کے اشارے کا منتظر ہے ، لہذا عقل مندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے معمولاتِ زندگی میں مثبت تبدیلی لائیں، نماز قرآن ، ذکر ِ الٰہی اور دعا کا خصوصی اہتمام کریں ان بابرکت اعمال کو کوئی عام شئے نہ سمجھیں یہ وہ قیمتی اثاثہ اور کامیابی کا راز ہے جس کو اپنانے سے اس دنیا میں بھی خیر و برکت،عزت منزلت اور دلوں کو اطمینان اور قرار ملے گا ، قبر اور اسکی تاریکی اور اس میں سوال جواب، پل صراط،روز محشر اور اس سخت ترین دن جب سورج سر پر ہوگا اور سایہ نام کو نہ ہوگا ،اس وقت یہی نماز قرآن ذکر ِالٰہی اور دعا انسان کی بخشش اور تمام تکلیف کو دور کر کے خوشی اور گناہوں سے نجات کا باعث بنے گا،اور اگر نماز قرآن ، ذکر ِ الٰہی اور دعا مانگنے میں سُستی اور لاپروائی برتی یا زندگی میں اس کا موقعہ نہ ملا تو یہ ایک عظیم ترین نقصان اور تباہی و بربادی اور خسارے کا باعث بنے گا ،جس کا اگلے جہاں میں کوئی مداوا اور کوئی متبادل طریقہ نہیں جس سے جہنم اور اسکی سزا سے چھوٹ مل سکے۔اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو نماز قرآن ، ذکر ِ الٰہی اور دعا مانگتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو دنیا اور آخرت کی خیر نصیب فرمائے۔آمین۔

Nadeem Rehman Malik
About the Author: Nadeem Rehman Malik Read More Articles by Nadeem Rehman Malik: 18 Articles with 21612 views MS.c Mass com, M.A Political Science.gentleman with excellent social etiquettes and refined manners. He is a resourceful, active,hardly,carefull and.. View More