تھر میں موت کا رقص جاری ہے۔ اور سندھ
حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سندھ حکومت عملی اقدامات کرنے میں ناکام
نظر آرھی ہے۔ تھر میں پچھلے پانچ سالوں میں پانچ ھزار لوگ اپنی جان کی بازی
ھار گئے۔ پچھلے ایک مہینے اور ایک سال میں پینتالیس اور چھ سوپچاس بچے اجل
کا شکار بنے۔ سیاستدان اپنی ذاتی مفادات کی خاطر اسیمبلیوں چلہ چلہ کہ تو
تقریریں کرتے نظر آتے ہیں پر اس جائز مسئلے پر کوئی بھی بولنے کو تیار نہیں۔
مارچ 2014 میں وزیرآعظم نے تھر کے لئے ایک ارب روپیہ کی امدام کا اعلان کیا۔
اس امداد کے باوجود تھر کی حالات میں سدھارا نہیں آیا۔ سندھ حکومت کے کپتان
شاھ جی نے تھر کی حالات کو قدرت زدہ آفت قرار دے کر ٹال دیہ۔ سندھ حکومت
تھر کے لوگوں کے لیے بنیادی سھولتیں مھیا کرنے میں صاف ںاکام دکھائی دے رہی
ہے۔ گزشتہ دن ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کے لوگوں کی بیماریاں جانوروں
میں منتقل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت بیوٹی پالر بنانے میں مصروف ہے۔
پر تھر کے لوگوں کے لئے سندھ حکومت کے خزانے میں پئسہ نہیں ہیں۔ بیوٹی پالر
کے لیے بڑی بڑی بجیٹ رکھی جائیں،اور سندھ حکومت سندھ فیسٹیول جیسے ایوینٹ
کرانے میں مصروف ہو۔ وہاں پر موت کا بازار گرم ہوتا ہی ہے۔ |