گیارہ سال پڑھ کر بھی جاہل کہلائے!!!
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
مالیگاؤں اور مکہ مسجد بم دھماکہ، عشرت
جہاں اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر اور شہادتِ بابری مسجد یقیناًمسلمانوں کا اتنا
بڑا المناک قضیہ ہے کہ اس سلسلے میں انصاف کی لڑائی لڑنی چاہیئے اور حکومتِ
وقت کو مجبور کرنا چاہیئے کہ جلد ازجلد خاطئین کو کیفرِ کردار تک پہنچایا
جائے،لیکن اس میں مضمر عملی سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے صرف یہی مسائل
ہیں، جن کی ہمارے قائدین کو وکالت کرنی چاہیئے، کیا کبھی ہمارے قائد ین
حضرات، اردو،ہندی اورانگلش میڈیاکے مسلم صحافی حضرات بھی اس پہلو پر اپنی
نوکِ قلم کو جنبش دینے کی جرأ ت کی ہے کہ اس امت کا ایک خاص طبقہ پڑھ لینے
کے بعد بھی سرکاری سطح پر جاہل تصور کیا جاتا ہے، ان کے شناختی کارڈ اور
پاسپورٹ پر جب ان کی علمی لیاقت کے بارے میں کچھ لکھا اور تبصرہ کیا جاتا
ہے، تو سرے سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے ،کہ یہ اس ملک کے ایک ناخواندہ شخص
ہیں۔یہ کوئی فرضی اور منگھڑت قصہ نہیں، بلکہ ماضی اور حال میں ایسے بے شمار
واقعات رونماہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر میں یہ داستان لکھنے پر مجبور ہوا۔
خود دارالعلوم دیوبند کے ایک استاذ کا واقعہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کے ایئر
پوٹ پر باہر نکلے ،تو وہاں موجودسکیورٹی گارڈ نے جب ان کی جامہ تلاشی لی جس
میں چند ایک کتابیں ملیں تو اس پولیس اہلکار نے پہلے توان کو دیکھا ،پھر
سوال کیا کہ میاں جی !آپ کے پاسپورٹ پر تو جاہل لکھا گیا ہے ، مگر مجھے یہ
تعجب ہورہاہے کہ آپ یہ کتابیں کہاں ڈھوئے لے جارہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک
واقعہ مدرسہ کے ایک طالبِ علم کے ساتھ بھی پاسپورٹ آفس ہی میں پیش آیا ،کہ
دستاویزات کی تحقیق دوران، جب ان سے ان کی علمی لیاقت کو پوچھا گیا تو
انہوں نے دارالعلوم؍ مظاہرالعلوم وغیرہ کی سند دکھائی، آفیسر نے یہ کہ کر
رد کردیا کہ یہ سند ہمارے یہاں قابل لحاظ نہیں ہے ،آپ کوئی دوسری سند
دکھائیں، بہ صورتِ دیگر ان کے پاسپورٹ پر بھی ان کو ایک جاہل شہری کے طور
پر پیش کیا گیا ۔مثال کے لیے صرف ایک ہی واقعہ لکھ دینا کافی ہے ، تاہم
حقیقت میں اس طرح کے ان گنت واقعات رونماہوئے ہیں۔ گیارہ بارہ سال پڑھنے کے
بعد بھی اگر کسی کو جاہل نامزد کیا جائے، تو اس وقت اس کے دل پر کیا گذرتی
ہوگی؟ کیا ہمارے قائدین اور ام المدارس دارلعلوم دیوبند، مظاہر العلوم،
ندوۃالعلماء اور دیگر ہندوستانی مدارس کے نظماء اورذمہ داران حضرات کبھی اس
نازک پہلو پر غور کرنے کی زحمت کی ہے؟ سالانہ رپورٹ میں ہر سال یہ ظاہر
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کہ اس سال اتنے تعداد میں الحمداللہ ہمارے یہاں
سے بچوں نے سندِ تحفیظ ،عالمیت اورفضیلت حاصل کی ہے، کیا ہمارے کوئی بھی
ذمہ دار دیانت داری اور انصاف کے ساتھ یہ جواب دے سکتے ہیں کہ فراغت کے
بعدوہ کتنے بچوں کی خبر گیری کرتے ہیں، کتنے فارغین کے احوال دریافت کرتے
ہیں، کتنوں کے حال اور مستقبل کے بارے میں کوشاں ہوتے ہیں؟ کیا اپنے مسلم
بچوں کے مستقبل اور حال کی دریافتگی ضابطہء اخلاق کے پیمانے سے باہر ہے؟ حد
تو یہ ہے اگر کسی سرکاری محکمہ میں مدرسے کی کسی قسم کی تصدیق کی ضرورت
پڑتی ہے تو اس کو دینے سے بھی ہمارے ذمہ داران تامل کرتے ہیں۔ دارالعلوم،
مظاہرالعلوم اور ندوۃالعلماء سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچے سندِ فراغت
حاصل
کرتے ہیں ، ان میں سے ایک خطیر تعداد ان بچوں کی ہوتی ہے،جن کی یہ دلی تمنا
ہوتی ہے کہ وہ بیرونِ ممالک میں اپنے علمی سفر کو جاری رکھ سکے،مگر ان کا
یہ خواب صرف اس لیے شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا کہ ہمارے ذمہ داروں کی طرف سے
ان کو صحیح رہنمائی نہیں مل پاتی۔قصہء المناک یہ ہے کہ اس امت کے صرف چار
فیصد افراد ہی مدارس کا رخ کرتے ہیں اور فراغت کے بعد، وہ بھی اپنی زندگی
کے نت نئے مسائل میں الجھ کر، امت کی صحیح قیادت نہیں کر پاتے ہیں ، کیا یہ
ایک شرمناک المیہ نہیں ہے؟ کیا یہ اس امت کاایک ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس
پر گفتگو کی جائے ، اس مسئلے کی حساسیت کو عوام اورسرکا کے سامنے ظاہر کیا
جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ امت کا اتنا سنگین مسئلہ ہے جو قضیہء بابری
مسجد سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ بابری مسجدکے
المناک حادثے کے لیے حق اور انصاف کی لڑائی نہ لڑی جائے، بلکہ ہمارامدعا یہ
ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ اس پہلو کو بھی تشنہ لب نہ چھوڑا جائے،امت کے
دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کو بھی اس طرح طشت ازبام کیا جائے کہ اس
پہلو کی ساری قلعی کھل کر سامنے میں آجائے، اگر ہم نے اس پہلو کی طرف پیش
رفت نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب ہم امت کے اس ایک عظیم قائد سے محروم
ہوجائیں گے، جس کی کمی آج بھی ہمیں کھل رہی ہے۔ ہم دن رات اس بات کا رونا
روتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی صحیح قائد نہیں ہے، مگر ہو کیسے، ہم خود ہی اس
طرف پہل نہیں کرتے۔ ہماری غفلت اور کاہلی ہی ہماری حرماں نصیبی کا ضامن
ہے۔پوری باطل اور طاغوتی طاقتوں کی تو یہ دلی خواہش ہے کہ پوری ملتِ
اسلامیہ اور خصوصا اس طبقہ کو کبھی بیدارنہ ہونے دیا جائے اور ان کو چھوٹے
چھوٹے مسائل میں الجھائے رکھا جائے، ان کو یہ معلوم ہے کہ اگر یہ خاص طبقہ
ہی صرف بیدار ہوگیاتو اس امت میں ایک انقلاب برپا ہوجائیگا، پھر اس کو ترقی
کے معراج پر پہنچنے میں انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ان کے
ساتھ ساتھ ہمارے نام نہادقائدین بھی اس طر ف توجہ دینے کی زحمت گوارہ نہیں
کر تے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ اس پہلو پر غور کیئے تو ان کی
سیادت ختم ہوجائیگی، پھر ان کی اولاد اور اولاد بے نامی کی موت مریں گی۔
میں یہ قطعا نہیں کہتا کہ وہ امت کی قیادت سے دست بردار ہوجائیں ، نہیں ،ہر
گز نہیں! بلکہ میرا اور اس امت کے ان لاکھوں افراد کا ان سے سوال یہ ہے کہ
امت کے دیگر مسائل کے ساتھ اس پہلو پر بھی غور کریں اور اس امر کو یقینی
بنائیں کہ ہم جس طرح دیگر مسائل میں مفکر نظر آتے ہیں، اس مسئلہ کو بھی امت
کا ایک سنگین مسئلہ تصور کرتے ہوئے اس پہلو میں بھی قیادت وسیادت کی ذمہ
داری نبھائیں گے۔ اگر انہوں نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ، تو امت کے اس خاص
طبقہ اور نئی نسل کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ کیا کبھی وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس
خاص طبقہ پر وہ اپنا قیمتی سرمایہ اور وقت صرف کرتے ہیں ،وہ تلاشِ کسبِ
معاش میں صرف دو ورق کی تحریر نہ ہونے کی بناء پر دردر کی ٹھوکریں کھاتا
ہے،معاشرے اور اداروں کے سامنے ذلت ورسوئی کا سامنا کرتا ہے ، ستم بالائے
ستم یہ کہ جب یہی فارغین ان مدارس میں تدریسی خدمات کے جذبہ کو ظاہر کرتے
ہیں، تو ہمارے وہی ذمہ دارن حضرات بھی ،انہیں یہ کہ کر رد کردیتے ہیں، کہ
آپ کے پاس توبیچلر(Bechelor) اور فلاں فلاں کورس کی ڈگری نہیں ہے، اس لیے
ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہے، ہاں اگر آپ اپنی انہیں صلاحیت اور ڈگری کی
بنیاد پر ہمارے یہاں خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو آپ کی تنخواہ اتنی ہوگی
، یعنی وہ تنخواہ اتنی معمولی ہوتی ہے،کہ اس مہنگائی اور کرپشن کے دورمیں
انتہائی کفایت شعاری کے باوجودبھی کم پڑتی ہے ، حالانکہ اس جگہ پر اگر کوئی
ڈگری ہولڈر کام کرتا ہے، تو اس کو اتنی ہی تنخواہ ملتی ہے، جتنی کہ اور
جگہوں میں ان جیسے لوگوں کو دی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب
یہ بندہ بھی وہی کا م کرتا ہے، جو ایک نام نہاد سند یافتہ کررہاہے، تو پھر
دونوں کی تنخواہوں میں تفاوت کیوں؟ اگر تفاوت کی بنیاد صرف ڈگری ہی ہے ،تو
پھر آپ اپنے نصاب میں ان موضوع کو کیوں نہیں شامل کرتے؟ ظاہر ہے جواب بھی
یہی ہوگا کہ نصاب کی تبدیلی سے ان کے اخلاق میں تبدیلی آجائیگی اور جس مقصد
کے لیے ہم ان کو یہ تعلیم دے رہے ہیں، ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے ۔
اب یہاں دوسرا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آپ کا مقصد کیا ہے، اگر آپ کا مقصد
شریعت کے علوم ہیں ، تو تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ، کیا جدید
ٹیکنالوجی اور علمِ سائنس، ڈاکٹریت اور دیگر جدید علوم وفنون کی تحصیل
قانونِ شریعت میں ممنوع ہے ؟ظاہر ہے اسلام جیسے عالمگیر مذہب میں جواب کبھی
بھی منفی میں نہیں ہوسکتا، معلمِ انسانیت ﷺکی تعلیم میں اس کاعدمِ جواز
کہیں نہیں ملتا، صحابۂ کرام رضوان اللہ اعلیہم جمعین کی جماعت میں بھی خود
اس وقت کے اعتبار سے بے شمار حکیم وطبیب اور سائنسداں موجود تھے ، اگر یہ
علوم شرعی علوم کے منافی ہوتے تو صحابۂ کرامؓ کی پاک جماعت سے کبھی یہ توقع
نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ ان علوم کے حاملین کو برداشت کرلیتے، مگر تاریخ ان
جیسے افراد کے صحابۂ کرام کی جلو میں موجودگی کی شہادت پیش کرتی ہے۔دوسری
بات یہ کہ جس زمانے میں منطق اورفلسفہ کو اسلامی علوم و فنون کا حصہ بنایا
گیا، اس زمانے کے لوگ’ اللہ کی پناہ‘ کیا ضابطۂ اخلاق کے پیمانے سے انتہائی
نیچے گرے ہوئے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان ایام کے فلسفی اور منطقی کو قرآن
وسنت اور فقہ وفتاویٰ میں اس زمانے کے پیشہ ور علماء سے کہیں زیادہ درک اور
عمق حاصل تھا۔آج ہمارے قائدین یہ کہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ ایسے
بچوں کی تعداد انتہائی معمولی ہے ، اور ایسے بھی اس میں وہ طلباء زیادہ طور
پر پیش پیش ہیں جو ایامِ تعلیم میں اسباق کی پابندی نہیں کرتے تھے؛ بہ
الفاظ دیگر ان کی علمی لیاقت قابل توجہ نہیں ہے ؛اس لیے وہ گردش ایام کے
شکار ہورہے ہیں۔ یہ بات بھی اس لیے صحیح نہیں ہے کہ میرے پاس ایسے لوگوں کی
بے شمار فہرست ہے جنہوں نے دارالعلوم اور مظاہر وندوہ سے تخصص کیا ہوا ہے ،
اس کے باوجود وہ تلاشِ کسب معاش میں آج بھی دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ان
کے دربدر پھرنے کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے پاس دوورق کی تحریر نہیں
ہے، حکومت سے منظور شدہ کوئی مجوزہ نہیں ہے۔ کیا دین صرف مدرسے اور مساجد
کی چہاردیواریوں تک ہی کے لیے ہے ؟ آج امت کی معتد بہ تعداد اسکولوں اور کا
لجوں کا رخ کررہی ہے، ان کے دین وایمان کی سلامتی کا ذمہ دار کون ہوگا؟
انہیں دین کے بنیادی مسائل سے کون روشناس کرائیگا؟ اور انہیں یہ کون
بتلائیگا اللہ کون ہے اور تمہارے نبیؐ کا نام کیا ہے، وہ کون تھے اور کیسے
تھے؟ اس سلسلے میں میرا خود کا ایک تجربہ ہے کہ ایک مرتبہ جب میں ہندوستان
کے کسی ایک اسکول ؍کالج میں تدریس کی خدمت انجام دے رہاتھا ، اس وقت میں نے
ایک طالب علم سے یہ سوال کیا کہ آپ کے نبیؐ کا نام کیا ہے؟ تو وہ منھ تکنے
لگا۔ سن کر یقیناًافسوس ہوتا ہوگا ، لیکن صرف کہنا اور سننا ہی ہمارے مسائل
کا حل نہیں ہے۔ تلاش کسبِ معاش کا مسئلہ صرف مدارس کے طلباء ہی کا ایک
ناسور مسئلہ نہیں ہے، اس وقت اسکول اور کالج کے تعلیم یافتہ بھی اس مصیبت
میں مبتلا ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امت کے بے شمار افراد اسکولوں
اور کالجوں سے فراغت حاصل کرتے ہیں مگر انہیں ملازمت نہیں مل پاتی ۔
حالانکہ ہر دن امت کی ایک اچھی خاصی رقم فضولیات میں ضائع ہوتی ہے، مگر ہم
اس جانب توجہ نہیں دیتے، آئے دن جلسے جلوس، عروس اور دستارِ امامت پر امت
کا بے شمار پیسہ ضائع ہوتا ہے ، ہمارے قائدین اس طرف خیال کرنے کی زحمت
نہیں کرتے، جتنے پیسے ان واہیات میں صرف کیے جاتے ہیں اگر ان پیسوں کاکوئی
صنعتی ادارہ، کل کارخانہ، فیکٹری اور انڈسٹری کھول دیتے توبے روزگاری کا یہ
سنگین مسئلہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا، عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو بربادی
جاری ہے، اس میں بھی مسلمانوں کی صحیح قیادت کی کمی ہے ، آج بھی اگر
مسلمانوں کو صحیح قائد مل جائے تو مسلمانوں کے جتنے مسائل ہیں سب کا تصفیہ
ہوجائیگا۔عالمی سطح پر خصوصا ہندوستان میں علماء اور مدارس کے طلباء کو جن
مسائل کا سامنا ہے ، ان کی مشکلات بھی دور جائینگی۔ ایک منٹ کے لیے یہ قبول
کیا جاسکتا ہے کہ بے روزگاری کا تعلق حکومت سے ہے ؛اس لیے ہم بے بس ہیں اور
اس مصیبت کی جال میں صرف مسلمان ہی کیا پوار ہندوستان گرفتار ہے، مگر سند
کی منظوری کم از کم ان کی شناختی کارڈز تک ہی سہی یہ کوئی ایسامعمہ نہیں جو
قضیہء لاینحل بن کر برمودہ ٹراینگل ہوجائے۔ امید ہے کہ ہمارے قائدین خصوصا
ہمارے مسلم صحافی حضرات اس پہلو پر غور کریں گے اور اپنی تحریری طاقت کی
بدولت امت کے
اس سنگین مسئلہ کو لے کر ایون کے دروازے پر دستک دینگے، حق اور انصاف کی
لڑائی اس وقت تک جاری رکھیں گے تاآں کہ ان کو انصاف نہ مل جائے۔
اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات |
|