تعلیمی اصلاحات کی ایک نئی کڑی - اروند کیجریوال کا ایک اور مستحسن قدم

جہاں ایک طرف بھارتیہ جتنا پارٹی ہندوستان کے تعلیمی نظام کے بھگوا کرن میں مصروف ہے؛ نصاب تعلیم میں تبدیلی سے لے کر افراد کے تعین اور برخاستگی تک میں اپنے ہم فکر ‘ ہم خیال اور ہم نواؤوں کا مکمل طور سے اعتبار کیا جارہا ہے ‘ وہیں دوسری طرف دہلی میں عام آدمی پارٹی تعلیمی بجٹ میں اضافے سے لے کر تعلیمی نظام میں اصلاحات پر کاربند ہے۔ انھیں تعلیمی اصلاحات کے تعلق سے 6جنوری کو دہلی حکومت کا ایک اور بڑا فیصلہ سامنا آیا جس میں غیر امدادی پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ کے لئے منیجمنٹ کوٹے کا بالکلیہ خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ نرسری داخلے کی کاروائی کو شفاف بنانے کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے 8 دسمبر2015 کو دہلی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے تمام پرائیویٹ اسکولوں کو ایک سرکلر جاری کیا تھا ۔ اس سرکلر میں اسکول انتظامیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ تما م اسکول اپنے یہاں نرسری داخلے کی کاروائی سے متعلق پیمانے متعین کرکے ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں تاکہ داخلے کے عمل کو صاف شفاف بنایا جا سکے۔ اس سے پہلے 19 فروری 2013 میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک فرمان جاری کیا تھاکہ تعلیمی ادارے دکانوں کی طرح نہیں چلنے چاہئیں۔ اس کے بعد18 دسمبر2013 میں دہلی کے لیفٹنینٹ گورنر نجیب جنگ نے ایک حکم صادر کیا تھا جس میں انھوں نے داخلے سے متعلق کچھ نکات اور ہدایات بھی متعین کر دئیے تھے۔ اس فرمان کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ اس سے اسکولوں کی خودمختاریت پر فرق پڑتا ہے۔ اس عرضداشت کو قبول کرتے ہوئے 28 نومبر2014 میں یہ فیصلہ سنایا گیا کہ اسکول داخلے سے متعلق نکات اور پیمانے وضع کرنے میں خود مختار ہے اور لیفٹنینٹ گورنر کے متعین کردہ پیمانوں کو بھی خارج کردیا گیا۔ اس کے بعد داخلاتی کاروائی میں تعلیمی اداروں کی من مانی کی شکایتیں اور بھی بڑھ گئی تھیں۔ کچھ اداروں میں تو صرف 25فیصد جنرل کوٹا تھا۔25 فیصد ای ڈبلیو ایس (ایکنومکلی ویکر سیکشن یعنی جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ ہو) کے لئے تھا۔ باقی کا 50 فیصد بشمول منیجمنٹ کوٹے کے دوسرے خصوصی بچوں کے لئے تھا جس کی وجہ سے عام بچوں کو داخلہ نہیں مل پا رہا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے ای ڈبلیو ایس کا 25 فیصد کا کوٹا باقی رکھا ہے اور تمام کوٹوں کو منسوخ کردیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منیجمنٹ کوٹوں کا ہونا بد عنوانی کو فروغ دے رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ داخلے کی نشستیں باضابطہ فروخت ہوا کرتی تھیں۔ منیجمنٹ کوٹے کا مطلب یہ تھا کہ اگر وزیر اعلی ‘ وزیر تعلیم یا کوئی دوسرا وزیر‘ جج‘ پولیس کمشنر‘ ایس ایچ او‘ انکم ٹیکس آفیسر یا کوئی دوسرا آفیسرداخلے کے لئے سفار ش کردے تو داخلے مل جایا کرتے تھے۔ اس صورت میں نشستوں کی خریدوفروخت کے امکانات بڑھ جایا کرتے تھے اور مستحق امیدوار کو داخلہ سے محروم کردیا جاتا تھا۔ اس سے حق مساوات اور حق تعلیم کے قانون کو بھی زک پہونچتی تھی۔ منیجمینٹ کوٹے کے خاتمے کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے اسکولوں کے ذریعہ متعین کردہ داخلاتی پیمانے کو بھی رد کردیا ہے۔ ریاست دہلی کے2500 اسکولوں میں1جنوری سے داخلے کی کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں اور داخلہ درخواست کی آخری تاریخ 22 جنوری ہے۔ اسکولوں کی جانب سے جو پیمانے متعین کئے گئے تھے وہ نامعقول ‘ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک پر مبنی ہیں اور جن سے حق مساوات اور حق تعلیم کی صریح خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان میں کچھ ایسے پیمانے ہیں جو والدین سے متعلق ہیں جن کا بچے سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ؛ جیسے والدین تعلیم یافتہ ہوں ‘ والدین کا کوئی تجریبی کارنامہ ہو‘ حکومتی ملازم ہوں‘ سگریٹ نوشی نہ کرتے ہوں‘ شراب نہ پیتے ہوں‘ ساکاہاری ہوں‘ دہلی یونیورسٹی کے اسٹاف ہوں اور جوائنٹ فیملی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ نکات بچوں سے متعلق ہیں جیسے بچے کا پہلا کزن ہو‘ بچے کو موسیقی یا ریاضیات میں مہارت ہو‘ اسکالر ہوں۔ اس طرح کے نکات کے ذریعے گویا 3سے 6 سال کی عمر تک کے بچوں میں مہارت اور اسکالر کی صفات تلاش کی جارہی ہوں۔ کہیں تو یہ بھی پیمانہ ہے کہ اسکول ٹرانسپورٹ کا استعمال بچے کریں گے یا نہیں اور کہیں ان کی حالت کو بھی داخلے کے معیار میں شامل کیا گیا ہے۔ چند پیمانے داخلاتی امتحان سے متعلق بھی ہیں کہ امتحان شفوی ہوگا۔ فرسٹ کم فرسٹ گیٹ کا بھی پیمانہ ہے۔ ان صورتوں میں داخلاتی کاروائی کی شفافیت کے متأثر ہونے کے امکانات اور زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جوامتیازی سلوک پر مبنی ہیں جیسے کہ بچہ پیدائشی طور سے دہلی کا باشندہ ہو۔ کہیں جنس کو بھی پیمانے میں شامل کیا گیا ہے۔ کچھ پیمانے بالکل غیرواضح اور مبہم انداز کے ہیں جیسے دوسرا مخصوص زمرہ‘ اسکول کا مخصوص پیمانہ وغیرہ۔ ان سب کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اروندکیجریوال نے کھلے طور پر اسکول انتظامیہ کو یہ تنبیہ کی ہے کہ اگراس فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی اور اسکول کو ٹیک اوور یا اسکول کی منظوری کو بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

اس فیصلے سے اسکول انتظامیہ بالکل ہی ناخوش ہیں۔ غیر امدادی منظور شدہ پرائیویٹ اسکولز کی مجلس عاملہ کے صدر ایس کے بھٹا چاریہ نے کہا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کو دہلی حکومت سے کسی قسم کی منظوری کی ضرورت نہیں کیوں کہ اسکول اپنے آپ میں خود مختار ہیں۔ دہلی کے400نامی گرامی اسکول اس مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔ بھٹا چاریہ نے نومبر2014کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کورٹ نے نرسری کے داخلے کی آزادی دے رکھی ہے۔ اس فیصلے کو محکمہء تعلیم کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا لیکن کورٹ کی طرف سے کوئی روک نہیں لگائی گئی‘ اس لئے حکومت عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور 22 جنوری کو اس کی سنوائی بھی ہونی ہے‘ وہ اس میں اپنے اعتراضات درج کروائیں گے کیوں کہ منیجمینٹ کوٹے کی سفارش2007 میں دہلی ہائی کورٹ کی تشکیل کردہ گانگولی کمیٹی نے کی تھی۔ اروند کیجریوال نے کا کہنا نے کہ حکومت اسکولوں کے نظام میں دخل اندازی نہیں کرسکتی لیکن اگر کہیں داخلے کی کاروائی کے د وران بے ضابطگی یا بدعنوانی ہو رہی ہے تو اس پر کاروائی کر سکتی ہے۔ بعض نے عام آدمی پارٹی پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ فیصلہ اسکولوں سے انتقام لینے کے لئے کیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے طاق وجفت فارمولے کی مہم میں اسکول انتظامیہ سے ان کی بسوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنے کی درخواست گئی تھی جس میں 283 اسکولوں کی بسیں نہیں گئی تھیں۔ انھیں شاید ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دہلی حکومت کا یہ حکم صرف صرف 283 اسکولوں تک ہی محدود ہے۔ دہلی حکومت کے اس فیصلے سے ضرور ایک خاص حلقے میں ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن سنجیدہ اور سماجی حلقوں میں اس فیصلے کا مکمل طور سے خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ بتایا جار ہا ہے کہ منیجمینٹ کوٹے کے خاتمے سے کم وبیش دس ہزار نشستیں اب عام بچوں کا انتظار کررہی ہے۔ اس فیصلے سے عام بچوں کے والدین کو بھی راحت ملی ہے جو اپنے بچوں کے داخلے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے۔ اسکول انتظامیہ بھی بچوں کے داخلے کے لئے ڈونیشن کا مطالبہ کرنے سے احتراز کرے گی۔ اسکول انتظامیہ کی جانب سے جس انداز کا رد عمل سامنے آ رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کورٹ کی اگنی پرکچھا کے مرحلے سے گزر کرہی زیر عمل لایا جا سکتا ہے۔

Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 10665 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.