حکومت کے لیے ایک اور آزمائش

اپوزیشن کی جانب سے آوازیں بلند کی جا رہی ہیں کہ یکطرفہ احتسابقبول نہیں اور احتساب ایک مخصوص شہر اور صوبے کے شہریوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے ۔یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ پنجاب میں کرپشن کے خلاف نیب سمیت دیگر ادارے کیوں متحرک نہیں ہوتے؟ لگتا ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے نے غفلت کی نیند سوئے نیب کو بیدار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اپوزیشن کی امیدیں رنگ لے آئی ہیں ، نیب پنجاب نے ڈی ایچ اے سے منسوب سترہ ارب روپے کے میگا کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کا ااغاز کردیا ہے۔اس میگا کرپشن سکینڈل کا مرکزی ملزم حماد ارشدنیب کی حراست میں ہے اور اس کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی کا نام بھی اس سکینڈل میں لیا جا رہا ہے اطلاعات کے مطابق تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کر لیے گئے ہیں۔کامران کیانی کے بھائی امجد کیانی کا کہنا ہے کہ کامران دبئی میں ہے اور اس کا اس کرپشن سکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈی ایچ اے میگا کرپشن سکینڈل کے مرکزی ملزم حماد ارشد نے نیب کو پلی بار گینگ کے تحت سولہ ارب بیس کروڑ روپے واپس کرنے کی پیش کش کردی ہیلیکن نیب پورے سترہ ارب اور وہ بھی منافع کے ساتھ لوٹانے پررضامندی ظاہر کی ہے جبکہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا خاندان اس سکینڈل میں نام آنے پر کافی برہم دکھائی دے رہا ہے سابق سپہ سالار کی ذات اور خاندان کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔جنرل کیانی اور کامران کیانی کے بھائی امجد کیانی نے کامران کیانی کے اس کیس میں ملوث ہونے کی تردید کردی ہے اور پیش کش کی ہے کہ وہ ہر سطح کی تحقیقات کے لیے حاضر ہیں اور کامران کیانی بھی ملک واپس آکر تحقیقات کا سامنا کریگا۔

اس سکینڈل کی کہانی کیا ہے آئیے ڈی ایچ اے کی زبانی جانتے ہیں،اخبارات میں ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں عوام الناس کو بتایا گیا ہے کہ’’مفاد عامہ کے تحت عوام الناس کو اطلاع دی جاتی ہے گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈاب ( اورنج ہولدنگز پرائیویٹ لمیٹڈ) منسلک ایڈن پرائیویٹ لمیٹڈ نے ڈی ایچ اے لاہور کے ساتھ ڈی ایچ اے سٹی پراجیکٹ کے لییزمین مہیا کرنے اور اس میں ترقیاتی کام کرانے کا معاہدہ کیا۔ یہ زمین /پلاٹس مسلح افواج کے شہدا ان کیاہل خانہ، جنگ میں زخمی ہونے والے سپاہیوں و دیگر ممبران کو دئیے جانے تھے۔ ‘‘ آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ’’ افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ گلوبیکو پرائیویٹ لمیٹڈنے اس پراجیکٹ کے لییرقوم اکٹھی کیں اور وصول کیں مگر زمین مہیا نہیں کی اور نہ ہی اس میں ترقیاتی کام کرائے۔‘‘ مذید آگے جاکر عوام الناس کو خوشخبری سنائی ہے کہ’’ ڈی ایچ اے لاہور نے ادا شدہ رقوم کی وصولی کے لیے ’’ NAB‘‘ سے رابطہ کیا ہے تاکہ خردبردکردہ رقوم کی وصولی کی جا سکے جس سے زمین خریدنا مقصود تھا‘‘ اشتہار کے آخر میں ڈی ایچ اے لاہور کا پتہ اور فون نمبر درج ہیں۔

میں ایک عرصہ سے لکھتا آرہا ہوں کہ کرپشن ناقابل معافی جرم قرار دیا جانا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن کا ناسور دیمک کی طرح معاشرے کو چاٹ کھا رہا ہے۔ یہاں میں ایک واقعہ تحریر کرنا چاہونگا جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ملک سعید حسن نے لاہور کی ایک بیٹھ میں سنایا تھا جس میں جناب عزیز مظہر اور مرحوم ادریس بٹ بھی موجود تھے۔ ملک سعید حسن نے بتایا کہ انہیں امریکہ کے دورہ کے دوران ایک شاپنگ مال میں جانے کا اتفاق ہوا کچھ خریدا اور بل سے کچھ کم کرنے کی معصوم سی خواہش کا اظہار کیا اور ٹیکس بل میں سے منہا کرنے کا گر بھی بتایا مگر سٹور انتظامیہ رضا مند نہ ہوئی بلکہ الٹا ان سے کہا گیا کہ امریکہ میں قتل معاف ہو سکتا ہے لیکن ٹیکس چوری اور کرپشن کی سزا موت ہے‘‘

اس واقعہ نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا اور میں بھی پاکستان میں رہتے ہوئے کرپشن کو قتل سے زیادہ گھناؤنا جرم سمجھنے لگا ہوں، لیکن کیا کیا جائے یار بیلیوں نے خدا وندمتعال کی نعمتوں سے بہرمند ہونے کے لیے وسائل کے حصول کے لیے کرپشن کا شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دینا شروع کردیا ہے۔حتی کہ قران مجید کی اشاعت اور دیگر مذہبی امور کی انجام دہی میں بھی فراڈ اور کرپشن کی لعنت شامل کر دی گئی ہے
بعض یار دوستوں کا کہنا ہے کہ اس کیس مین جنرل کیانی کے بھائی کو محض جنرل کیانی کی کردار کشی کے لیے ڈالا جا رہا ہے، بعض کا کہنا ہے کہ کامران کیانی جو خود بھی پاک فوج میں کیپٹن کے منصب پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور پاک فوج کے ریٹائرڈ ہیں اور ان کے بھائی امجد کیانی بھی پاک فوج کے بریگیڈئر ریٹائرڈ ہیں اس صورت حال میں نیب کو سوچ سمجھ کر اور پوری احتیاط کے ساتھ معاملے کو ہینڈل کرنا ہوگا کیونکہ کامران کیانی سابق آرمی چیف کے بھائی ہیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی سابق آرمی چیف اور اسکے خاندان کے لیے رسوائی کا باعث بن جائے جو کہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوگا۔

نیب اور حکومت دونوں کے لیے یہ کیس ایک آزمائش سے کم نہیں انہیں چاہیے کہ اس میگا کرپشن کیس کی صاف اور شفاف تحقیقات کریں اور اس کیس کے تمام ملزمان کو صفائی کو پورا موقعہ ملنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوسکے۔
 

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144528 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.