پی آئی اے کی لفٹ بند ہوگئی، یہ کوئی عام
لفٹ نہ تھی، بلکہ وی وی آئی پی لاؤنج کے ساتھ لگی لفٹ تھی، دبئی سے آنے
والے مسافر وی وی آئی پی لاؤنج سے لفٹ میں سوار ہی ہوئے ہی تھے کہ برقی رو
کے معطل ہونے کی بنا پر لفٹ بھی جواب دے گئی، اور مسافر بند ہوکر رہ گئے۔
یہ مسافر بھی کوئی عام لوگ نہیں تھے، کیونکہ وی وی آئی پی لاؤنج میں تشریف
لانے والے لوگ عام نہیں ہواکرتے، ایسے ہی یہ مسافر بھی خاص تھے، بلکہ خاص
الخاص تھے، یہ تھے وزیراعظم پاکستان کے صاحبزادے جناب حسن نواز صاحب اور ان
کے ساتھ تھی ان کی فیملی۔ ان لوگوں کو لفٹ میں تقریباً پانچ منٹ تک رکنا
پڑا ، پی آئی اے والوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، انہوں نے بھاگم دوڑ
جنریٹر چلوایا، وی وی آئی پیز کو بخیر باہر نکالا، باہر نکل کر جناب حسن
نواز وہاں پر موجود افسران واہلکاران پر شدید برہم ہوئے۔ اس واقعہ کے نتیجہ
میں وزیراعظم کے مشیر برائے ہوا بازی بھی متحرک ہوگئے، انہوں اس سنگین
واقعہ کی تحقیقات کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی، تاکہ ذمہ داران کا
تعین ہوسکے اور انہیں قرار واقعی سزادی جاسکے، کہ کس کوئی اتنی جرات ہوئی
کہ وہ وزیراعظم کے صاحبزادے اور ان کی فیملی کی لفٹ کو بند کرے۔ امیدہے بہت
جلد تحقیق مکمل ہوجائے گی اور نتیجہ سامنے آجائے گا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کے صاحبزدگان پاکستان میں نہیں رہتے۔ یہ بات بھی
پاکستان کے لئے قابلِ فخر ہے کہ ’’میڈ اِ ن پاکستان‘‘ لوگ برطانیہ میں
کاروبار کرتے ہیں، خیر وہ کاروبار کہاں کہاں کرتے ہیں اس کے بارے میں جتنے
منہ اتنی باتیں سننے کو ملتی ہیں، وہ جہاں بھی کاروبار کریں، وہ اُن کا
مسئلہ ہے۔ مگر ہم پاکستانیوں کو فخر اس بات پر ہے کہ پاکستان کے سرمایہ کار
برطانیہ میں کاروبار کریں۔ آجکل وہ لوگ پاکستان آئے ہوئے تھے، کیونکہ ان کی
بھانجی کی شادی تھی، اس دوران وہ دبئی وغیرہ گئے ہونگے، واپس آئے تو کسی
سازش کے ذریعے لفٹ میں الجھا دیئے گئے۔ وہ تو پاکستان پہلے ہی کم آتے ہیں،
ان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ کاروبار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں،
اور برطانیہ میں ان کا کاروبار زیادہ بہتر اور محفوظ ہے۔ اگر وہ کسی مجبوری
کے تحت پاکستان آہی گئے تھے تو پی آئی اے والوں کو اس طرح سلوک نہیں کرنا
چاہیے تھا، بلکہ ’لاجواب سروس‘ والوں کا فرض تھا کہ وہ مہمانوں کو اپنے حسنِ
سلوک اور اعلیٰ کارکردگی سے متاثر کرتے اور انہیں مستقل گاہک بناتے۔ پی آئی
اے کے رویے اور انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر پی آئی کے فروخت وغیرہ
کی بات چل رہی ہے تو یہ کام بجا ہے،پی آئی اے اسی سلوک کی حقدار ہے۔
جونہی ہوابازی کے وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم نے اس واقعے کی خبر سنی،
انہوں نے فوری طور پر انکوائری کا حکم دے دیا، انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دے
دی جو چند روز میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی، یہ دونوں چیزیں
پی آئی اے کے افسران کے کام آسکتی ہیں۔ اگریہاں وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ
ہوتا تو بہت سے لوگ موقع پر ہی معطل ہوچکے ہوتے ، بہت سے دوسرے لوگوں کو
کان ہوچکے ہوتے،اور مزید ایک آدھ جنریٹر کا حکم جاری ہو چکا ہوتا۔ مگر کیا
کیجئے کہ انہوں نے ابھی تک وفاقی اداروں میں مداخلت کا فیصلہ نہیں کیا۔
جہاں تک مشیر ہوا بازی کے بارے میں ایکشن کا تعلق ہے تو موصوف میاں نواز
شریف کی گڈ بکس میں ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے مختلف الزامات کی روشنی میں
اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا، مگر وزیراعظم نے از راہِ کرم
ان کے استعفے کو شرف مقبولیت بخشنے سے انکار کردیا تھا، کیونکہ مشیر صاحب
میاں صاحب کے بھلے دنوں کے ساتھی ہیں۔ اس لئے اس موقع پر جو ایکشن بھی لیا
جائے گا وہ کم از کم مشیر ہوا بازی سے نیچے تک ہی محدود رہے گا۔ رہی
انکوائری تو یقینا اس کا دائرہ واپڈا تک وسعت اختیار کرے گا، وہاں بھی میاں
حسن نواز کے کزن چوہدری عابد شیر علی ہی موجود ہی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ
ایک انکوائری کا حکم وہ بھی جاری کردیں، جس سے یہ معلوم ہوگا کہ آخر کس کس
نے جرات کی کہ وزیراعظ کے بیٹے کی لفٹ کو روک سکے۔ انہیں البتہ ہمت کرکے
ایک دو واپڈا اہلکاروں کو معطل کروادینا چاہیے، تاکہ کزن کا دل رکھا جاسکے۔
اگر یہی معاملہ عوام کا ہوتا تو کیسی انکوائری، کیسی معطلی اور کیسی تحقیق؟
عوام دن رات بجلی کی معطلی کا شکار ہیں، کبھی لفٹ میں پھنس گئے تو کبھی
بجلی نہ ہونے سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، کام سے بھی گئے اور بل بھی
بھاری ادا کئے۔ یہ پاکستان صرف وی وی آئی پیز کا ہے، عوام صرف دیکھا کریں۔ |