پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی خاتمے
کے لئے ملکی تاررخ میں پہلی بار دلجمعی سے آپریشن ہوا اور اس کے دور رس
نتائج قوم کے سامنے آئے ملک سے لاقانونیت کا خاتمہ ہوا ساتھ ساتھ ان لوگوں
کے خلاف گیرا تنگ ہوا جنھوں نے دہشت گردی لاقانونیت کو بڑھنے کا موقع فراہم
کیا اور بعد ازاں ایسے ایسے نام سامنے آئے جن کا ظاہر اور باطن اور تھا اور
وہ لوگ جو ہم پر حکمرانی بھی کرتے رہے ہیں اور اندر ہی اندر وہ ملک کو
کھوکھلا کرنے میں بھی مصروف عمل رہے ہیں ایسے لوگوں نے اپنے آپ کو اتنا
امپاور کیا ہواہے کہ جب ان پر ہاتھ پڑا تو ملک کے کئی نامور لوگ ان کی پشت
کے پیچھے کھڑے نظر آئے اگر ملکی اداروں کو آزادنہ تحقیقات کرنے کا موقع
فراہم کیا جائے تو ایسے ایسے نام سامنے آئیں گے جنھیں عوام امن و اتشی کا
مجسم سمجھتے ہیں ۔نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں تمام جماعتوں کا اتفاق تھا
اور سب کا یہ واضح موقف تھا کہ اگر کسی بھی جگہ پر ان کی جماعت کا کوئی بھی
کارکن ملک دشمن سر گرمیوں میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف بلا امتیاز کاروائی
کی جائے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا اب جبکہ اس نیشنل ایکشن پلان کی
وجہ سے بہت سے معاملات کافی حد تک بہتر ہو رہے ہیں اور دہشت گردی میں بہت
حد تک کمی آئی ہے اور بہت سے لوگ سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں ایسے میں
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء نیشنل ایکشن پلان کو غلط رخ دینے کی کوشش
میں ہیں ان کے بقول یہ وہ نیشنل ایکشن پلان نہیں جس پر سب متفق تھے یہ تو ن
لیگ کا ایکشن پلان ہے یہ سراسر سیاسی انتقام ہے ۔ لیکن جو وہ کہہ رہے ہیں
عوام اس کی تائید کھبی نہیں کریں گے کیونکہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں
کیا کچھ کیا اس کا ادراک عوام کو خوب ہے سچ تو یہی ہے کہ کراچی کے ڈھائی
کروڑ عوام نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن پر سکھ کا سانس لیا ہے اب اس
شہر میں بڑی حد تک امن وامان قائم ہو چکا ہے تاجر برادری اور کاروباری حلقے
بے حد مطمئن ہیں ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں
کا قلع قمع ہوچکا ہے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے جبکہ بچے کچے
دہشتگردوں اور ان کی مالی امانت کرنے والوں کے خلاف رینجرز کی کارروائی
جاری ہے کراچی آپریشن کی کامیابیوں پر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام خوشی سے
پھولے نہیں سما رہے وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اپنے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ
کراچی آپریشن بہت کامیاب رہا ہے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف موثر
کارروائیاں کی گئیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوام ہیں جو نیشنل ایکشن
پلان کو صوبوں کے خلاف سازش سمجھ رہے ہیں تحریک انصاف؟ مسلم لیگ ن ؟ ایم
کیو ایم ؟ یا کوئی اور کوئی بھی تو نہیں بلکہ تمام جماعتوں نیشنل ایکشن
پلان کی حمایت کی ہے اور کراچی آپریشن کی کامیابیوں کو سراہا ہے جس ایکشن
پلان پر سب متفق تھے یہ اسی پر عمل ہو رہا ہے اس میں یہ واضح ہے کہ
دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی
ان کی مالی مدد کرنے والے بھی اسی ایکٹ میں آتے ہیں ۔جب تک ڈاکٹر عاصم کے
خلاف کارروائی نہیں ہوئی تھی اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا جوں ہی ان کے خلاف
کارروائی شروع کی گئی نیشنل ایکشن پلان اور رینجرز کی کارروائیوں میں کیڑے
نظر آنے لگے انکے ذاتی ہسپتال میں ٹارگٹ کلرز اور دہشتگردوں کا علاج کیا
جاتا رہا اور قانون کی نظروں سے پوشیدہ رہنے میں ان کی مدد کی گئی یہی نہیں
ڈاکٹر عاصم کے خلاف کرپشن کے بہت سے معاملات بھی سامنے آئے محض ایک فرد کو
تحفظ فراہم کرنے کے لئے پوری سندھ حکومت حرکت میں آگئی اگر رینجرز نے کوئی
اقدام اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے تو سندھ حکومت یا ڈاکٹر عاصم جن کے
لواحقین کے پاس اعلیٰ عدلیہ میں جانے کا آپشن موجود ہے لیکن عدلیہ کے پاس
جانے کے بجائے میڈیا کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں
وزیراطلاعات پرویز رشید نے بجا طورپر سوال اٹھایا ہے کہ پیپلز پارٹی نے
اپنے دور میں نیشنل ایکشن پلان کیوں نہیں بنایا اور دہشتگردوں کے خلاف کیوں
آپریشن نہیں کیا دانشمندی اور ملکی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ کراچی آپریشن
کو منطقی انجام تک پہنچانے کے سلسلے میں سندھ حکومت رینجرز سمیت دیگر
اداروں سے پہلے کی طرح اپنا تعاون جاری رکھے۔تاکہ ملک میں جاری دہشت گردی
کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور مسلح افواج کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے جو
آپریشن جاری ہے اس کو کامیاب و کامران بنایا جا سکے اور سیاسی لوگ جو پہلے
ہی عوام کی نظروں میں بدنام ہیں وہ اس نیشنل ایکشن پلان اور اس کے نتیجے
میں ہونے والے آپریشن کو اپنے مقاصد کی تکمیل سے روک کر یہ ثابت کر رہے ہیں
کہ وہ صرف ااپنے لئے جیتے ہیں ملک و ملت کی ان کی نظر میں کوئی اوقات نہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت تمام تر دباؤ کے باوجود اس مشن کو جاری
رکھے جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اور جس سے پاکستان کی بقاء اور سلامتی
مشروط ہے خدانخواستہ اگر اس موقع پر اس آپریشن کو نامکمل چھوڑ دیا گیا تو
یہ ایک ایسا ناسور بن جائے گا جس کا علاج شاید پھر کھبی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ
قومی تحفظ بذریعہ نیشنل ایکشن پلان سے ہی ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا
آپشن وقت اورملکی وسائل کے ضیاع کے سواء کچھ بھی نہیں ہے ۔ |