نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!
یمن میں جنوبی عرب کی سبائی قوم کی ہی ایک شاخ حِمیری برسراقتدارآتی ہے ،
یوں قومِ تبع حِمیری (سورہ الدخان۔ آیت ) کی بادشاہت کا ڈنکابج جاتاہے۔ تبع
منصبِ بادشاہت کاعرفی نام ہے اوربادشاہِ یمن تبع کہلاتے ہیں جیسے
مصرکابادشاہ فرعون،فارس کابادشاہ کسری، روم کابادشاہ قیصراوربادشاہِ حبشہ
نجاشی کہلاتاہے۔ یمن کے تبعان حمِیری میں ایک ناموربادشاہ گزرتاہے ۔ سیرت
ابن ہشام میں اس کانام حسان بن تبان ابو کرب اسعد درج ہے ۔ صاحبِ معارف
القرآن حافظ ابن کثیر کے حوالے سے اس بادشاہ کانام اسعد ابو کریب بن ملکیکر
یمانی لکھتے ہیں۔ یہ تبع دنیا ئے آب وگل میں محمد عربی ۖ کی تشریف آوری سے
تقریباًسات سوسال پہلے قبل یمن کا تخت وتاج سنبھالتا ہے ۔ کہاجاتاہے کہ
تبایع وسطیٰ میں طویل عرصہ تک تخت نشین رہتاہے۔ بادشاہ کو ملک گیری کی ہوس
فکرلاحق ہوتی ہے،یہی جوع الارض اسد ابوکرب کویمن سے عراق وسمرقندپہنچاتی
ہے۔بادشاہ جابجابادیگربادشاہتوں کوشکست دیتاہوااپنی مملکت کی توسیع کرتا
جاتاہے،حیرہ نامی ایک بستی بھی اسی کے دم قدم سے آبادہوتی ہے ۔ ملکوں کوفتح
کرتے ہوئے جب وہ یثرب آتاہے تویہاں کے مکینوں سے کوئی تعارض نہیں کرتابلکہ
ان میں اپنے ایک بیٹے کوچھوڑجاتاہےمگر شہزادہ ایک اچانک حملے کی بھینٹ چڑ ھ
کرقتل ہوجاتاہے۔اب بادشاہ انتقام لینے کیلئے یثرب( مدینہ منورہ) پلٹ آتاہے
۔ یثرب میں اوس اورخزرج وغیرہ قبائل آباد ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں
انصارکا وہ قبیلہ متحدہوجاتاہے جس کا سرداربنی نجارعمروبن طلہ ہوتاہے۔
بادشاہِ یمن کا مقصد یہاں اپنا کینہ ورانتقامی کارروائی کرناہوتاہے۔اسی
مقصد کی تکمیل میں یہ مقامی آبادی پرفوج کشی کرکے خون ریزجنگ چھیڑدیتاہے
مگراسے ایک عجیب وغریب صورت حال سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ وہ دنگ بھی رہتا ہے
اوربہت شرمندہ بھی کہ دن کو اہلِ یثرب اس کے ساتھ نبردآزما ہوکردادِشجاعت
دیتے ہیں اوررات کواس کے لاؤلشکر سمیت ضیافت ومہمان داری کرتے ہیں۔ بادشاہ
ایک جانب ان کے حسنِ سلوک سے بہت متاثرہوتاہے اوردوسری جانب جنگ کاپانسہ نہ
پلٹتے دیکھ کرورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے۔ اسی مرحلے سے بادشاہ پرغیرمحسوس
طریقے پرخدائے رحمن کی نوازشیں شروع ہوجاتی ہیں۔قبیلہ بنوقریظہ سے تعلق
رکھنے والے حضرت موسی علیہ السلام کے دوحقیقی ومخلص پیروکار عالم افہام
وتفہیم کے لئے اس کے پاس حاضرہوجاتے ہیں۔وہ جب بادشاہ کایہ قصددیکھ کر کہ
یہ مدینہ کی انیٹ سے اینٹ بجاناچاہتاہے،اسے ازراہِ نصیحت کہتے ہیں اے
بادشاہ!توایسانہ کراوراگرتواپنے غلط عزم وارادے سے بازنہ آیا تواس کے اور
تیرے درمیان کسی نہ کسی قسم کی روک پیدا ہوجا ئے گی، یعنی ا للہ تجھے مدینہ
کی بربادی سے روک دے گا،اور ہم تجھے کسی نہ کسی فوری سزا پانے سے بھی محفوظ
خیال نہیں کرتے۔ اس نے پوچھا: یہ کس بنا پر؟ دونوں یہودی عالم تبع پر یہ
راز افشا کرتے ہیں :عالی جاہ ! آپ یثرب پر قطعی طور تسلط پا ہی نہیں سکتے
کیونکہ یہ نبی آخرالزمانۖ کی ہجرت گاہ ہے جو قریش کے قبیلے میں سے آخر
زمانے کو نکلے گا، مدینہ منورہ اس کی مستقر وجلوہ گاہ ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ
عالم اسے باور کراتے ہیں کہ مدینہ کی سرزمین بادشاہوں کی تلواروں سے فتح ہو
ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے لئے دلوں کی سلطنت پر ہمیشہ ہمیش راج تاج کر نے
والاپیغمبرآخرالزماں ۖ کی مہر عقیدت ومحبت ثبت ہوچکی ہے۔بادشادہِ یمن دین
موسوی کے ان راسخ العقیدہ عالموں کی زبانی نبی اکرم ﷺکی بعثت وبنوت اور آپ
صلعم کے اوصافِ حمیدہ کے بارے میں پیش گوئی سنتاہے تو عقیدتاً و احتراماً
اپنے ہتھیار ڈال دیتا ہے بلکہ یہودی عالموں کا دین قبول کرتاہے۔ تبع کا حال
بالکل اس تاریخی واقعہ سے مشابہ ہوجاتاہے کہ حضرت عمؓر گھر سے نکلتے ہیں
ننگی تلوار لے کر پیغمبر اسلام صلعم کا حساب چکانے مگر راستے میں نعیؓم بن
مسعوؓد سے ان کی مڈبھیڑ ہوتی ہے ، جو ان سے کہتے ہیں ٹھیک ہے جایئے مگر ذرا
پہلے اپنے گھر کی خبر بھی تولیجئے،آپ کی ہمشیرہ ام جمیل اوربرادرِنسبتی کب
کے مسلمان ہوئے ہیں۔ حضرت عمر کے قدم فوراً اپنی ہمشیرہ کی جانب مڑجاتے ہیں
اور یہاں قرآن کریم کی چند ہی آیات سن کر ہی وہ ایمان واسلام کی حقانیت کے
سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ فاروؓق عادل کے قبول اسلام سے تاریخ اسلام
کادھارابدل جاتاہے اور ایمان والوں کانیاانقلابی سفرشروع ہو جاتاہے ۔یہ عزو
شرف ابوجہل کوحاصل نہیں ہوتا گرچہ آپ اس کی ہدایت کے لئے دست بدعا ہوجاتے
ہیں۔ تبع کے الٹ میں یمن کا دوسرا حبشی الاصل بادشاہ ابرہہ ابوجہل کامثیل
بنتاہے۔بہرکیف جب بادشاہِ یمن کواطمینان ہوجاتاہے کہ یہودی عالم صد فی صد
سچ بولتے ہیں تووہ بنی رحمت پرسات صدیاں سے زائد عرصہ قبل ایمان لاتا ہے ۔
تاریخ کا یہ سفر یہی نہیں رکتا بلکہ جب حبشہ کابادشاہ نجاشی جعفر طیارکی
زبانی اپنے شاہی دربارمیں پیغمبر اسلام ۖ کے بارے میں تفصیلات سنتاہے
توبلاچوں وچراآپ پرایمان لاتاہے۔ بہرصورت تبع حِمیری آپ کی شان اقدس میں
ایک قصیدہ لکھ کراہلِ مد ینہ کے ہاں امانتاًرکھ جاتاہے۔ بادشاہ کے ایمان
بالرسالت کی یہ تحریری سند پشت درپشت چلتے چلتے حضرت ابو ایوؓب خالد بن
زؓید انصاری کے پاس من وعن موجود ہوتی ہے۔عالم الغیب وسموات کاغیر معمولی
اہتمام بھی دیکھئے کہ بہ اذنِ خداوندی جب آپ کا ورودِ بامسعود ہجرت کے پس
منظر میں حضرت ابو ایوؓب انصاری کے خوش نصیب مسکن میں ہوتا ہے،تو میزبانِ
رسول فوراً یہ قصیدہ آںجناب ۖ کی جناب میں پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے
سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ قصیدے کے جو اشعار تفسیر ابن کثیر میں درج ہیں، ملاحظہ
ہوں:
میری تہِ دل سے گواہی ہے کہ حضرت احمد مجتبی اس خدا کے سچے رسول ہیں جو
تمام جانداروں کا پیدا کر نے والا ہے۔ اگر میں آپ کے زمانہ تک زندہ رہا
توقسم خداکی آپ کاساتھی اورآپ کامعاون بن کررہوں گااورآپ کے دشمنوں کے ساتھ
تلوار سے جہاد کروں گااورکسی کھٹکے اورغم کوآپ کے پاس پھٹکنے نہ دوں
گا۔۔۔اس اعترافِ حق اورایمانِ بالرسالت کی ادائے جان فزاکاہی یہ بلیغ اشارہ
ہے کہ تبع کے بارے میں حضرت عائشہ رضی للہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ پیغمبر
کریم نے فرمایا کہ تبع کوبرابھلا نہ کہو،وہ صالح شخص تھا۔ ابن ابی حاتم میں
ہے کہ فرمایا رسول اللہ نے کہ وہ مسلمان ہوچکاتھا۔
ملک گیری کی آرزو پوری کر تے ہوئے اب تبع حِمیری کارخ اپنے وطن مالوف یمن
کی جانب ہوتاہے۔ جب سمتِ سفر مکہ مکر مہ بنتا ہے تو راستے میں بمقام غسفان
اس کے پاس مقامی قبیلہ بنی ہذیل کے چند آدمی آکر پٹی پڑھاتے ہیں کہ اے
بادشاہ! کیا ہم آپ کو ایک مخفی خزانے کے بارے میں نہ بتائیں جس میں موتی،
یاقوت ،زمرد،سونااورچاندی کے خزانے ہیں۔ آج تک آپ کے پیش روبادشاہ اس سے
غافل رہے۔ کسی بھی دوسرے بادشاہ کی طرح تبع کی للچاہٹ کو حبِ جاہ وثروت کی
یہ اشتہا ملتی ہے تو پوچھتاہے بتاؤکہاں ہے وہ خزانہ؟یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ
تیرنشانے پرلگ گیاتوسرگوشی کے انداز میں کہتے ہیں کہ مکہ میں ایک گھر(حرم
پاک) ہے،اہلِ شہراس کی پرستش کرتے ہیں،اس کے پاس عبادات کر تے ہیں ،دست
بدعاہوتے ہیں، قربانیاں پیش کرتے ہیں، یہیں پروہ خزانہ ہے ۔ قبیلہ والوں کی
اصل نیت یہ ہوتی ہے کیوں نہ تبع کو حرم کے ذریعے ہی تبا ہ وبرباد کر دیں کہ
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔یہ لوگ جان رہے ہوتے ہیں کہ جوکوئی شاہ وگدا حرم
کی جانب میلی آنکھ سے دیکھتا ہے،یاوہاں سرکشی اوردھماچوکڑی کر نے کاکوئی
ارادہ رکھتاہے،ربِ کعبہ اسے ناسیاًمنسیاً اورذلیل وخوارکرکے چھوڑتا ہے ۔
تبع کوئی مکہ پر جنگی اقدام کر نے سے پہلے اپنے یہودی مشیروں سے کعبہ شریف
کے متعلق ردیافت کر نے لگتا ہے ۔ یہ اسے سمجھاتے ہیں کہ یہ لوگ تجھے اور
تیری قوم کو تباہ کر نے کے ارادے سے یہ غلط مشورہ دے رہے ہیں۔ اس گھر کے
علاوہ روئے زمین پر کوئی گھرنہیں جواللہ نے اپنے لئے بنایاہو۔اگرتم فوج کشی
کربیٹھوتودردانگیزتباہی تمہیں اورجوجوتمہارے ساتھ ہو،کے مقدرہوجائے گی۔ تبع
پوچھتاہے پھرمیں کیا کروں؟یہودی عالم اس سے کہتے ہیں وہاں جاؤاوروہاں کے
لوگ اس گھرکے پاس جوکرتے ہیں توبھی وہی کر،اس کاطواف کر،اس کی تعظیم وتکریم
کر،دعائیں مانگ،سرمنڈواواورجب تک کعبہ میں قیام ہو عجز کالباس
اورانکسارکاگہنہ پہنے رکھ۔ بادشاہ کے ذہن میں ایک اورسوال کلبلاتا ہے پھرتم
ایساکیوں نہیں کرتے؟ وہ جواب دیتے ہیں واللہ یہ ہمارے جد امجد پیغمبر
توحیدحضرت ابراہیم کابنایاہوا گلستان ہے مگرباشندگانِ مکہ نے اس میں لات و
منات وہبل کے بت نصب کئے ہیں،شرک وکفران کی عبادت،رسوماتِ بدان کی
ریاضت،اللہ کوچھوڑکرغیراللہ کے سامنے سرعبودیت خم کرناان کی شناخت بن چکی
ہے، بتوں کے آگے قربانیاں پیش کرتے ہیں،اس طرح کے مشرکانہ اعمال سے ان
لوگوں نے ہمارے اورکعبہ شریف کے درمیان دیوارحائل کردی ہے ۔ تبع حِمیری ان
کی صاف گوئی کادل سے قائل ہوجاتاہے،مکہ پرچڑھائی کرناتوکجااب دیدارِکعبہ
کاشوق اس کی رگ وپے میں انگڑائیاں لیتاہے۔وہ ہذیل قبیلہ کے ان افراد
کوبلاکران کے ہاتھ کاٹ دیتاہے جنہوں نے اس کے ضمیرپرڈاکہ ڈالنے کی ناکام
کوشش کی ہوتی ہے۔وہ اپنے قافلہ سمیت مکہ پہنچ جاتاہے مگرکسی سرکش بادشاہ کے
غروروروعونت اورتکبرکے ساتھ نہیں بلکہ اللہ کی کبریائی کے روبروبندے کی طرح
سرجھکائے ہوئے کعبہ کاطواف کرتاہے،دعائیں مانگتاہے،اونٹ ذبح کر کے قربانی
کافریضہ انجام دیتاہے،اپناسرمنڈاتاہے۔اپنے چھ روزہ قیامِ مکہ کے دوران تبع
اللہ کی خوشنودی میں جانوروں کوذبح کرکے مقامی لوگوں کوکھلاتا اورشہد کے
جامِ شریں پلاتاہے ۔اس بادشاہ پراللہ اتنامہربان ہوجاتاہے کہ خواب میں اسے
ہدایت کی جاتی ہے کہ بیت اللہ پرغلاف چڑھا۔وہ ٹاٹ(خصف)کاغلاف کعبے پرچڑھا
تاہے ، دوبارہ خواب میں بتایاجاتاہے نہیں یہ نہیں۔تبع حِمیری یمن کے ایک
شہر کے نام معافرسے موسوم کپڑے کاغلاف چڑھاتاہے مگریہ بھی مستردہوتا
ہے۔خواب میں اسے بتایاجاتاہے اس سے بہترتووہ یمن کے بہت ہی بیش قیمت ملا
اوروصائل کپڑے کاغلاف کعبہ پر چڑھاتاہے۔( ملااس چادر کو کہتے ہیں جس میں
دوپاٹ ملاکرسیئے گئے ہوں اوروصا ئل بھی یمن میں ایک عمدہ قسم کا کپڑا ہے
۔۔۔ ابن ہشام) ۔
سرسیداحمدخان اپنی شہرہ آفاق کتاب الخطبات الاحمدیہ فی العرب
والسیرالمحمدیہ میں رقم طرازہیں کہ حضرت ابراہیؑم کے وقت میں اوراس کے
بعدکعبے کی دیواریں ویسی ہی دکھائی دیتی تھیں جیسی کہ بنی تھیں مگر سنہ
عیسویں سے چھ سوبرس پیش تراسعدحِمیری نے کعبے کودیواروں پرغلاف چڑھایا۔اس
نے خواب میں دیکھا کہ وہ کعبے کوکپڑاپہنارہاہے۔ جب جاگاتواس نے انطاع
کاغلاف چڑھایا مگرپھراس نے وہی خواب دیکھا،تب اس نے یمن کے کپڑے کاجوعمدہ
ہوتاتھا،کا غلاف چڑھادیا،تب سے کعبے پرغلاف چڑھانے کی رسم جاری ہوگئی اورجس
کے قبضہ اقتدارمیں کعبہ رہتاآیاوہ ہرسال پرانے غلاف پرنیا غلاف
چڑھاتاگیااور اس سبب سے مختلف قسم کا بہت ساکپڑا کعبے کی دیواروں پر چڑھ
گیا تھاا ور اس توبرتوکپڑے کے کئی دفعہ آگ لگ گئی تھی اورکعبہ جل گیا
تھا۔معلوم ہوتاہے کہ عبداللہ بن زبیر کے وقت تک پرانے غلاف پرنیاغلاف
چڑھانے کادستورتھااور اسی سبب سے ان کے عہد میں بھی کعبہ میں آگ لگ گئی
تھی۔اس کے بعد سے پرانے غلاف اتارکرنیاغلاف چڑھانے کی رسم جاتی رہی بلکہ
ہرسال پراناغلاف اتارکرنیاغلاف چڑھایاجاتاہے اور کعبے کے خادم پرانے غلاف
کے ٹکڑے ٹکڑے کرکربطورتبرک کے تقسیم کرتے ہیں۔
شوق کے پنچھی نے کہا دیکھا آپ نے جو بادشاہ خاکم بدہن حرم کوڈھاکراس کے
خزانے لوٹنے کی کمرہمت باندھ لیتاہے،وہ کس طرح اللہ کی جانب سے ہدایتِ ابدی
کاختم نہ ہونے والا خزانہ لوٹ جاتاہے۔ آپ بھی اس خزانے کی تلاش میں رہئے
مگر مکہ معظمہ کے بارے ابھی ایک اور تاریخ سازاورعبرت آموزواقعہ سنتے
جایئے۔ |