اِس سادگی پہ کون مَرنہ جائے اے خُدا !
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہمارے کپتان صاحب بھی اب تھوڑے تھوڑے سیاسی
ہوتے جارہے ہیں اسی لیے اُن کے لہجے میں وہ گھَن گرج باقی رہی نہ بڑھک بازی
۔غیرپارلیمانی زبان کااستعمال بھی اب کم کم ہی نظرآتا ہے۔ شایداُنہوں نے
بھی مصلحتوں کی ’’بُکل‘‘ مارلی اسی لیے اب وہ دھرنوں والے عمران خاں تو
کہیں نظر ہی نہیں آتے جو’’سونامیوں‘‘ کے محبوب ہواکرتے تھے ۔اُنہیں آہستہ
آہستہ اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کا احساس بھی ہوتاجا رہاہے جس کاوہ
بَرملا اعتراف بھی کررہے ہیں۔اُنہوں نے اِنٹراپارٹی الیکشن کے سلسلے میں
بلائی گئی پریس کانفرنس میں اقرارکیا کہ پی ٹی آئی کے پچھلے انٹراپارٹی
انتخابات میں ووٹ خریدے گئے اورہر کسی نے مقدوربھر دھاندلی بھی کی لیکن
چونکہ الزامات ثابت ہونامشکل تھااِس لیے وہ کوئی کارروائی نہ کرسکے ۔عرض ہے
کہ انٹراپارٹی انتخابات کی غیرشفافیت کااعلان توجسٹس (ر) وجیہ الدین کی
سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی بہت پہلے کرچکی تھی ۔ کمیٹی کے فیصلے کے
مطابق عبد العلیم خاں اورجہانگیر ترین کی رکنیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم
کرنے کی سفارش بھی کی لیکن شایداُس وقت ہمارے کپتان صاحب میں علیم خاں اور
جہانگیرترین پرہاتھ ڈالنے کی ہمت تھی نہ سکت ۔یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے تو
اِن دونوں کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے نامزد بھی کیااوراُن کے
حلقوں میں ذاتی طورپر بھرپور کیمپین بھی کی اِس لیے یہ کہنادرست نہیں کہ
’’الزام ثابت نہیں کر سکتے تھے اِس لیے ووٹ خریدنے والوں کے خلاف کارروائی
سے گریزکیا گیا‘‘۔یہ اصحاب آج بھی کپتان صاحب کے دائیں بائیں نظرآتے ہیں
اور اِن جیسے دوسرے بھی ۔وجہ شایدیہ ہوکہ اِن اصحاب کی تجوریاں لبالب ہیں
اور انتخابات کے موجودہ نظام میں پیسوں کے بغیرانتخاب میں کودنے کاتصوربھی
محال ۔
عمران خاں صاحب نے کہاکہ تحریکِ انصاف کی تمام تنظیمیں تحلیل ہوچکیں اب
براہِ راست الیکشن ہوں گے جو 25 اپریل سے پہلے مکمل کرلیے جائیں گے ۔وہ
انتخابات کے سلسلے میں اُسی الیکشن کمیشن سے مددکے طالب بھی ہوئے جس کے
خلاف وہ گرجتے برستے اوراُنہیں خائن وبددیانت قراردیتے نہیں تھکتے تھے ۔اِس
سے بڑا’’یوٹرن‘‘ توشاید خاں صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں لیا ہو گا ۔الیکشن
کمیشن کونا معتبر ٹھہرانے اوراُس کی بددیانتی کاگلی گلی ڈھنڈوراپیٹنے والے
خاں صاحب نے جب اُسی الیکشن کمیشن سے مددکے طلب ہوئے تومعترضین اورمخالفین
نے شورمچا دیاکہ
میر کیا سادا ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
اسی پریس کانفرنس میں ہمارے کپتان صاحب اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں
پہنی انگوٹھی کوبار بارگھماتے نظرآئے توایک’’ شریرصحافی‘‘ نے اُن سے
انگوٹھی کے بارے میں سوال ’’پھڑکا‘‘ دیا۔ شایدوہ ہمارے کپتان صاحب سے کچھ
’’اُگلوانا‘‘ چاہتاہو اوراُس کا مطمح نظریہ ہوکہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہمکلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
لیکن اُس کے سامنے توبدلے ہوئے عمران خاں بیٹھے تھے جنہوں نے پہلے تو یہ
کہا ’’بعدمیں بتاؤں گا ‘‘ لیکن پھرکہا ’’یہ وہ انگوٹھی نہیں جو آپ سمجھتے
ہیں،اتنی جلدی ہیٹ ٹرک نہیں ہو سکتی‘‘۔ گویاتبدیلی اب بھی آنے کے روشن
امکانات باقی ہیں۔دھرنوں کے ایام میں جب خاں صاحب نے کہاتھا ’’میں چاہتا
ہوں کہ جلدنیا پاکستان بن جائے تاکہ میں شادی کرلوں‘‘۔ تو لوگوں نے یہ
جاناکہ خاں صاحب کی حسِ مزاح پھڑک رہی ہے لیکن بعدمیں ثابت ہواکہ خاں صاحب
سنجیدہ تھے، لوگ ہی نہ سمجھ سکے ۔وہ ’’نیاپاکستان‘‘ تونہ بناسکے لیکن شادی
ضرورکر لی ۔شاید اُنہوں نے سوچاہوگا کہ نیاپاکستان بناتے بناتے تووہ بوڑھے
ہوجائیں گے اِس لیے یہ ’’نیک کام‘‘ پہلے کرلینے میں کوئی حرج نہیں ۔دراصل
ہمارے کپتان صاحب کوجلدی ہی بہت ہوتی ہے۔ خاں صاحب کانیاپاکستان بنانے
کاخواب تودُور بہت دُوراُفق کے اُس پارہے اور’’ہیٹ ٹرک‘‘ کی راہ میں کوئی
رکاوٹ نہیں اِس لیے اُمیدِواثق ہے کہ اب بھی قوم عن قریب ہیٹ ٹرک کی
خوشخبری سُن لے گی ۔ویسے بھی کپتان صاحب ’’تبدیلی‘‘ کے داعی ہیں ۔پہلے بھی
اُنہوں نے تبدیلی کانعرہ لگایااور پھرمحترمہ ریحام خاں سے شادی کے بعدکہا
’’کون کہتاہے کہ تبدیلی نہیں آئی ،میرے گھرمیں توتبدیلی آگئی ہے‘‘۔ خاں
صاحب کی بے چین طبیعت چونکہ کسی ایک ’’تبدیلی‘‘ پراکتفانہیں کرسکتی اِس لیے
وہ ایسی تبدیلیاں لاتے ہی رہیں گے ۔یہ اُن کاخالصتاََ ذاتی اورنجی معاملہ
ہے اِس لیے وہ اپنی انگلیوں میں چار ،چار انگوٹھیاں بھی پہن لیں توکسی
کوسوال کرنے کاکوئی حق نہیں۔ اب کیاکیجئے کہ ہمارے صحافیوں کے پیٹ میں
’’ایویں خواہ مخواہ‘‘ مروڑاُٹھتے رہتے ہیں اور وہ خاں صاحب سے ’’پُٹھے
پُٹھے‘‘ سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔
نئے پاکستان کے داعی کپتان صاحب نے اپنے انتخابی منشورکے عین مطابق بے
رحمانہ احتساب کاڈول ڈالااور جب خیبرپختونخوا حکومت کے قائم کردہ احتساب
کمیشن نے حاضرسروس سیکرٹریوں کو گرفتارکیا اوراپنے ہی وزیر ضیاء اﷲ آفریدی
کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجاتوپورے ملک کے ’’سونامیے‘‘ اِس کابھرپور
کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے رہے ۔ تب گلی گلی خاں صاحب کے بے رحمانہ احتساب
کاشور تھالیکن جلدہی خاں صاحب اوراُن کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کوآٹے دال
کابھاؤ معلوم ہوگیا اور اُنہیں ادراک ہوگیا کہ یہ کام اگرنا ممکن نہیں تو
انتہائی مشکل ضرورہے ۔اِس لیے بے رحمانہ احتساب سے بھی ہاتھ کھینچ لیاگیا
۔اب نئے احتساب کے مطابق کسی بھی ایم پی اے کوگرفتار کرنے سے پہلے صوبائی
اسمبلی کے سپیکراور گورنمنٹ ملازم پرہاتھ ڈالنے سے پہلے چیف سیکرٹری کی
اجازت لیناضروری قراردیا گیاہے ۔جوازیہ کہ پہلے طریقۂ احتساب سے عزتِ نفس
مجروح ہونے کاخطرہ تھا ۔ہمیں تو اب پتہ چلاکہ خائنوں،بددیانتوں کی بھی کوئی
عزتِ نفس ہوتی ہے جس کی حفاظت حکمرانوں کا
فرضِ عین ۔ |
|