رونمائی کے بعد

رخصتی کاعالم بھی عجیب ہوتاہےخواہ کسی کومکان یامحل چھوڑکرجاناپڑے،کسی مرتبے یاکسی مقام سے ہٹناہویااس عالم سےدوسرے عالم کی طرف کوچ کرناہو۔وہ جن کے دامن میں خیر،نیکی،بھلا ئی،رواداری،حسن سلوک اورانسا نوں پررحم و فلاح کی سوغاتیں بھری ہوتی ہیں وہ دامن جھاڑکرمسکراتے ہوئے اس عالم رخصت سے یوں گزرتے ہیں کہ خلقت آہوں، آنسوں،سسکیوں سے انہیں رخصت ہوتے دیکھتی ہے تودعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھادیتی ہے،سجدے میں پڑجاتی ہے،اس کی ہچکیاں نہیں رکتیں۔مدتوں ان کے جا نے کے بعدبھی ان پرایک عالم یاس طاری رہتا ہے۔ کسی قیمتی متاع کے کھوجا نے کااحساس ان کی آنکھوں کواشکبار رکھتاہے۔ دوسری جا نب ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے حصے میں جبر،ظلم،ناانصافی، نامہربانی،بدخلقی اورخلق خداسے بدسلوکی آتی ہے،جن کے دامن میں نہ لوگوں کی دعائیں ہوتی ہیں اورنہ ہی نیک اعمال کی خوشبو،توان کے جانے کاعمل بھی عبرتناک ہوتا ہے۔

لوگ ان کے جلدسےجلدرخصت ہونے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں،وہ بسترِمرگ پرہوں،ان کے مرض الموت میں طوالت آ جائے تودعائیں بھی عجیب سی ہوجاتی ہیں ۔اللہ اس کی مشکل آسان کردے۔ایسے لو گوں پرجب اس عالم سے رخصت کا وقت آتاہوتوانہیں اپنی کل متاع چھن جا نے کارنج بے چین کردیتا ہے۔انہیں رہ رہ کریہ خیال ستانے لگتاہے کہ ابھی توانہوں نے بہت سے کام کرنے تھے،ابھی تو کتنے پراجیکٹ پرکام کاآغازہی ہوسکاتھا۔وہ توان کے ذہن کے گوشوں میں تکمیل کی خواہش لئے ہوئے تھے۔پھریہ سوچ سوچ کران کی راتوں کی نیندحرام ہوجاتی ہے کہ ان کے بعدآنے والے ان کی بنی بنا ئی ہوئی سلطنت کوتباہ وبربادکردیں گے۔ ان کےجانشین نااہل ہیں ۔پھروہ چپ چاپ اس خوف کوسینے میں لئے حسرت سے پھیلی ڈبڈبائی آنکھوں سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔چندلمحے سناٹایاسوگ،پھردنیااپنے کاموں میں مگن ہوجاتی ہے۔

اقتدارکی رخصتی ہویادنیاسے رخصتی،دونوں انسانوں کے اعمال کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ظالموں،جابروں، آمروں اورفرعونوں کے جانے کے مناظربھی آج کی تاریخ کے صفحات پرموجودہیں اورجولوگوں کے دلوں میں زندہ تھے،ان کی دھڑکنوں میں بستے تھے،ان کاوقتِ رخصت آج بھی تاریخ کے صفحات پر روشن ہے۔ایک زمانہ تھاجب بادشاہ صرف مرتے یامارے جاتےتھے، فرعون غرق ہوتے یاقتل ہوتے تھے لیکن زمانہ بدلا،وقت نے کروٹ لی،عوام کے غیض و غضب سے بپھرے ہجوم نکلنے لگے اوراب حکمران ڈوبتے دل اورٹوٹتی امیدوں ،اشکبارآنکھوں سے رخصت ہونے لگے۔کوئی تہران کے مہرآبادایئر پورٹ سے جہازپرسوارہواتوآنسوچھپانے کیلئے چہرہ باربارموڑتارہا،ہاتھ ملا تے ہوئے اپنی کپکپاہٹ پرقابو نہ پاسکا۔جہازاڑاتونیچے تہران شہرمیں لاکھوں کاہجوم اس کے جا نے پرخوشی سے دیوانہ وارناچ رہاتھااور کچھ اس طرح بغیر کسی حساب کی رخصتی پرملول تھے کہ بغیر سزا پائے بچ نکلا۔کوئی فلپائن کے منیلاایئر پورٹ سے نکلاتولوگوں نے منیلاایئرپورٹ کومکمل طورپرگھیررکھاتھاکہ کسی طرح اندر داخل ہوکرجہازکے سامنے بندھ باندھ کراس کوروک لیں اوربرسوں کاحساب چکتاکریں۔جہازکی پروازکے ساتھ ہی میٹرومنیلا، حکا تی اورپاسگ کے علا قے جشن کاسماں پیش کررہے تھے۔ادھرجہازکاپائلٹ بتاتاہے کہ وہ اپنی کرسی سے متصل کھڑکی سے نیچے ہجوم کودیکھ رہا تھااورآنسواس کی آنکھوں سے رواں تھے۔

لیکن ایسے بھی لوگ تھے جب انہوں نے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کافیصلہ کیاتوچیخیں مارتاہوا ہجوم ان کے پاؤں میں پڑ گیا۔منتوں اورزاریوں سے اس کو روکنے لگا۔۲۵سال تک لوگوں کے ووٹوں سے اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے والا ملائشیاکامہاتیرمحمدجس نے اپنی انتھک محنت سے اس پسماندہ ملک پر خوشحالی کے دروازے کھولے۔جب اس نے خودہی اقتدارکی راہداریاں چھوڑنے کافیصلہ کیاتوشہروں کے مناظردیدنی تھے۔آنکھوں کے آنسواور دلوں سے نکلتے مطالبے پکارپکارکرکہہ رہے تھے کہ تم ہماری ضرورت ہو،خدارا!تم رک جاؤ۔فرانس کے ڈیگال نے اقتدارکے محل کوخیربادکہنے کافیصلہ کیاتوپیرس کی گلیوں میں ہجوم امڈپڑا،اس کے صدارتی محل کے اردگردلوگ جمع ہوگئے اورساری رات جاگ کراس کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔کون تھاجویہ نہیں سمجھتاتھا کہ فرانس ڈیگال سے ہے اورڈیگال فرانس سے۔

لیکن رخصتی کے بعدایک دوسراعالم بھی قوموں پرگزرتاہے۔ لوگوں کوکسی آمر ،ڈکٹیٹریاسویلین جابرکی شکل سے نفرت نہیں ہوتی،اسے اس کی طرزِ زندگی، بولنے کے اندازیابودوباش سے چڑنہیں ہوتی بلکہ وہ اس کے افعال سے،اس کی پالیسیوں سے اوراس کی بدعنوانیوں سے نفرت کرتے ہیں۔اسی طرح جن رہنماؤں سے وہ محبت کرتے ہیں اس کی وجہ بھی ان کی خوبصورتی ،خوش پوشی یارہن سہن اورتقریر نہیں بلکہ ان کی لوگوں سے محبت،ان کاکردار اوران کی پالیسیاں ہوتی ہیں۔جس سے نفرت ہوتی ہے اس کے رنگ ڈھنگ سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں اورجس سے محبت ہوتی ہے اس کے لباس اور پہناوے کوبھی مقبولیت کادرجہ حاصل ہوجاتاہے۔اسی لئے رخصتی کے بعدلوگوں کے دلوں میں صرف ایک خواہش جا گتی ہے،آنے والا،اس کی جگہ لینے والا،اس صدارتی محل کا مکین اس شخص سے بالکل مختلف ہوجس سے وہ نفرت کرتے تھے اوراسی طرح چلے جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔جس کے جانے پروہ خوشیاں منا تے ہیں،جشن برپا کرتے ہیں توان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کاہرنقش کھرچ کھرچ کرمٹادیاجائے،اس کی پالیسی،اس کے اندازِ حکمرانی کی جھلک بھی آنے والے میں نظر نہ آئے۔

تا ریخ بہت حیرت انگیزمناظرپیش کرتی ہے جب انہیں نئے آنے والے میں بھی کوئی فرق محسوس نہیں ہوتاتو ان کاغصّہ اورنفرت بھی اس نئے آنے وا لے کے حصے میں آجاتا ہے۔جیمز اوّل انگلستان کا بادشاہ تھا،مطلق العنان۔لوگ اس سے بیزاراورنفرت کرتے تھے ۔اس سے نجات پرانہوں نے خوشیاں منائیں اورآنے وا لے چارلس اوّل سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ ۲فروری۱۶۲۶ء کوبادشاہ بننے والا چارلس اوّل بھی ویساہی بادشاہ ثابت ہوا۔ نہ کوئی پالیسی بدلی اورنہ ہی جبرو تشدد میں کوئی کمی ہوئی۔یوں گزشتہ سالوں کاغصّہ جوجیمز اوّل کے خلاف تھا وہ جمع ہوتاہواچارلس اوّل کے حصے میں آتاگیا۔جیمز اوّل تولوگوں کے غیض و غضب سے بچ گیااورپرسکون طریقے سے رخصت ہوگیاتھالیکن چارلس اوّل تک پہنچتے پہنچتے غصہ اس قدربڑھ گیاکہ ۳۰ جنوری۱۶۴۹ء کوایک عوامی عدالت بیٹھی اوراسے گیلوسٹین سے ذبح کرنے کاحکم دے دیا گیا۔نفرت اورغصہ بادشاہ کی گردن کاٹنے پرختم نہیں ہوابلکہ اس مقام پرپارلیمنٹ سے اعلان کروایاگیاکہ وہ تمام اختیارات اورپا لیسیاں کالعدم ہیں جواس دورکی پیداوارتھیں۔نفرت سے تاج وتخت چھوڑنے والوں کے بعد آنے والے اس پُرخارراستے پرچلتے ہیں کہ جس میں کانٹے جانے وا لے کی پالیسیاں ہوتی ہیں،اگرلوگوں کوان پالیسیوں کے بدلنے کااحساس نہ ہو،تبدیلی کی ہوامحسوس نہ ہوتووہ گزرے سالوں کاغصہ،گناہوں کی کالک اورنفرت بھی آنے والے کے حصّے میں ڈال دیتے ہیں اورپھرانجام بھی زیادہ سخت،دردناک اورعبرتناک!

جنرل راحیل جواس سال کے آخرمیں اپنے منصب سے ریٹائرہوجائیں گے،نے اپنی حالیہ تقریرمیں اعلان کیاہے کہ۲۰۱۶ء میں ملک سے نہ صرف ہرقسم کی دہشتگردی اورکرپشن کاخاتمہ کردیاجائے گابلکہ ان کے سہولت کاروں کوبھی کیفرکردارتک پہنچایا جائے گاگویاملک موجوداور مفرور،ان تمام بدعنوان افراد پر ہاتھ ڈالنے کاکھلاپیغام ہے ۔اب دیکھیں ملک بھر سے اورلیاری کے عذیر بلوچ کی رونمائی کب ہوتی ہے؟
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.