سرحدی گاندھی اور بھارت کی آزادی

(تاریخ انتقال ۲۰؍جنوری ۱۹۸۸؁ء کے موقع پر)

ساڑھے چھ فٹ کے قد اورسو کلو سے زیادہ وزن والے شخص خان عبد الغفار خان کی خاندانی حیثیت بھی لمبی چوڑی ہی تھی۔ان کے والد بہرام خان برٹش انڈیا کے اُتمان زعیٔ کے خوش حال زمیندار تھے۔ان کے پر دادا ایک سچے انسان تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ ان کی قبائلیوں کی جنگ جو والی فطرت بھی تھی۔اپنے قبیلے اور بھارت کی آزادی کے لیے انہوں نے بہت لڑائیاں لڑی تھیں۔آزادی کی جنگ کے لیے انہیں پھانسی کی سزا ہوئی۔وہ جیسے طاقتور تھے ویسے ہی وہ سمجھ دار اور ہوشیار بھی تھے۔اسی طرح سے ان کے بیٹے یعنی خان عبدالغفار کے دادا سیف اﷲ خاں بھی بڑے بہادر اور جنگ جو تھے۔انھوں نے ساری زندگی انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔جہاں بھی پٹھانوں پر انگریز حملہ کرتے رہے،سیف اﷲ خان پٹھانوں کی مدد میں انگریزوں کے خلاف لڑنے پہنچ جاتے تھے۔

آزادی کے لیے جدوجہد کا جذبہ ان کا خاندانی تھالیکن ان کے والد ’بیرم خاں‘ کا مزاج کچھ مختلف تھا وہ نرم مزاج اور عبادت گزار شخص تھے۔انھوں نے اپنے بڑے بیٹے عبدالغفار خاں عرف بچہ خاں کو تعلیم کی غرض سے مشنری اسکول میں داخلہ کرایاحالانکہ ان کے قبیلے کے لوگوں نے ان کی بڑی مخالفت کی اس کے باوجود بھی ان کی مشنری اسکول کی تعلیم مکمل ہوئی اور اس کے بعد وہ علی گڑھ گئے لیکن رہنے کی پریشانی کی وجہ سے وہ وہاں ٹھہر نہیں سکے اوراپنے گاؤں واپس چلے گئے اوروہیں مزید تعلیم حاصل کی۔ چھٹیوں میں خدمتِ خلق کرتے تھے اور تعلیم مکمل ہونے کے بعدملک کی خدمت میں لگ گئے۔

۱۹۱۹؁ءمیں پیشاور میں مارشل لا نافظ کیا گیا اس دوران عبدالغفار خاں نے حالانکہ امن کا مظاہرا کیا تھالیکن پھر بھی ان کو گرفتار کر لیا گیا۔انگریز حکومت ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جیل میں بند کرنا چاہتی تھی لیکن ان کے خلاف فرضی گواہی دینے والا کوئی بھی شخص تیار نہیں ہوا لیکن پھر بھی گھیر گھار کر ان کو چھہ ماہ کی سزا دے دی گئی۔

خدائی خدمتگار تحریک:آزادی کی ایک تحریک جو کہ عدم تشدد کے فلسفے پر برطانوی حکومت کے خلاف صوبہ خیبر کے پشتون قبائل نے شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان نے کی ۔اس کا بنیادی مقصدپشتون علاقوں میں تعلیم کے بارے میں شعور اور خوں ریزی کی خلاف آگاہی پیدا کرنا تھا۔سماجی اور فلاحی کاموں کے لیے ترتیب دی گئی لیکن یہ تنظیم وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی رنگ میں ڈھلتی چلی گئی۔ خدائی خدمتگار تحریک کا جو ضابطہ بنایا گیا تھا وہ کچھ اس طرح تھا:
ـ’’میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں خدائی خدمتگار ہوں۔ میں بغیر کسی ذاتی فائدے کے اپنی قوم کی خدمت کروں گا۔ میں اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی ناانصافی کا ذاتی طور پر بدلہ نہیں لوں گا اور اس بات کا پابند رہوں گا کہ میرے فعل کسی کے لیے بھی بوجھ یاتلکلیف نہ بن پائیں۔میں عدم تشدد کا داعی ہوں، اس رستے پر گامزن رہتے ہوئے، میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کو تیار ہوں، میں انسا نوں کی خدمت کروں گا، میری اس خدمت کا دائرہ کارکسی بھی صورت کوئی مذہب یا قبیلہ نہیں ہوگا بلکہ ہر انسان کی خدمت میرا فرض قرار پائگا۔میں یہاں مقامی طور پربنائی گئی اشیا ء استعمال کرنے کا پابند ہوں، میں کسی عہدے کا خواہش مند نہیں ہوں۔‘‘

انھوں نے خدائی خدمتگار کے کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں تم کو ایک ایسا اسلحہ دینے جا رہا ہوں جس کے سامنے پولیس اور فوج قطعاً ٹھہر نہیں سکتی، یہ اسلحہ پیغمبرؐ کا دیا ہوا ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔وہ اسلحہ ہے صبر اور سچائی ،دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ میں نہیں کھڑی ہو سکتی ‘‘۔

۱۹۳۰؁ء میں وہ پھر گرفتار کر لیے گئے اور ان کو گجرات(پنجاب) کی جیل میں رکھا گیا جہاں ان کی ملاقات کئی سیاسی قیدیوں سے ہوئی۔ جیل میں انہوں نے سِکھ گروؤں کے گرنتھ پڑھے اور مقدس گیتا کا بھی مطالعہ کیا۔ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے انھوں نے جیل میں ’گیتا‘ اور ’قرآن‘ کے درجات لگائے اسکے لیے پنڈت اور مولوی کا انتظام کیا تھا۔بادشاہ خان کی کوششوں سے جیل کے قیدیوں نے ’قرآن‘، ’گیتا‘ اور ’گرنتھ صاحب‘ کی تعلیمات حاصل کیں۔

۲۹؍مارچ ۱۹۳۱؁ء کو لندن میں دوسری گول میز کانفرنس سے پہلے اُس وقت کے وائس رائے’لارڈ ارون‘ اور گاندھی جی کے درمیان ایک سیاسی سمجھوتا ہوا جسے ’گاندھی : اِروِن پیکٹ‘ کہتے ہیں۔ اس ’پیکٹ‘ کے بعدخان عبدالغفار خان کی رہائی ہوئی ۔ چھوٹنے کے بعد وہ سماجی کاموں میں لگ گئے۔

گاندھی جی کے لندن سے لوٹتے ہی انگریزی حکومت نے کانگریس پر پابندی لگا دی، ادھر سرحدی صوبوں میں حکومت کی زیادتیوں کے خلاف’مال گزاری تحریک‘ شروع کی گئی اور حکومت نے خان عبدالغفار خان اور ان کے بھائی کوتحریک کا سرغنہ مان کر گھر کے سارے افراد کو قید کر لیا۔

خان عبدالغفار خان نے اپنے آبائی وطن ’اُتمان زعئی‘ میں ایک اسکول کھولاجو بڑ ا کامیاب رہا لیکن بعد میں انگریزوں نے اس اسکول پر پابندی عائد کر دی۔ پختون میں عوام کو بیدار کرنے کے لیے تقریباً پانچ سو گاؤوں کا سفر کیا اس کے بعد ہی ان کام ’بادشاہ خان‘ پڑا۔ ’نمک تحریک‘ کے دوران ’بادشاہ خان ‘ کو گرفتار کیا گیا جس کی وجہ سے پیشاور میں خدائی خدمتگاروں نے اس کی مخالفت میں مظاہرہ کیا۔انگریزوں نے نہتھے اور پُر امن طور سے مظاہرہ کر رہے لوگوں پرگولیاں چلائیں جس کے نتیجہ میں تقریباً ڈھائی سو لوگ مارے گئے۔گڑھوال ریجمنٹ کے کچھ فوجیوں نے نہتھے لوگوں پر گولیاں چلانے سے انکار کیا نتیجتاً ان کو کورٹ مارشل ہوا اور سخت سزائیں ہوئیں۔

بادشاہ خان اور مہاتما گاندھی جی میں بڑے اچھے تعلقات تھے، دونوں ایک دوسرے کی بڑی عزت کرتے تھے۔’خدائی خدمتگار ‘ نے کانگریس کوآزادی کی جد جہد میں بھر پور تعاون دیا یہاں تک بادشاہ خان خود کانگریس کے ممبر بن گئے تھے۔کئی موقعہ ایسے بھی آئے جب کانگریس کے لوگ گاندھی جی کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے تو بادشاہ خان گاندھی جی کے ساتھ ہی کھڑے دکھائی دیتے تھے۔وہ کئی سالوں تک کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے لیکن ۱۹۳۹ میں وہ رکنیت مصتفٰی ہو گئے کیونکہ اس وقت پارٹی کی جنگ کی جوپالیسی تھی اس سے بادشاہ خان کو اختلاف تھا اور جب کانگریس پارٹی نے جنگ کی پالسی کو ، غور فکر کے بعد،تبدیل کیا توبادشاہ خان نے دوبارہ رکنیت اختیار کر لی تھی لیکن انھوں نے صدر بننے سے انکار کر دیا تھا۔ملک کے لیے ان کی خدمات کے مد نظر ہی انہیں ’سرحدی گاندھی‘ کہا جانے لگا۔بھارت کی تقسیم کے وہ سخت خلاف تھے اسی لیے ان پر۱۹۴۶؁ء میں پیشاور میں جان لیوا حملہ بھی ہوا تھا۔پاکستان حکومت کی نظروں میں بادشاہ خان ہمیشہ مشکوک رہے اور اسی لیےپاکستان حکومت نے انہیں باہر کم اور جیل میں زیادہ رکھا۔خدائی خدمتگار پارٹی پر بھی پاکستان کے قیام کے فوراً بعد غیر متوقع طور پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

بادشاہ خان کا انتقال ۲۰؍جنوری ۱۹۸۸؁ء کو پیشاور میں ہوا تھا جہاں وہ نظر بند تھے۔ان کی خواہش کے مطابق ان کو افغانستان میں ان کے گھر میں دفنایا گیا۔کہا جاتا ہے کہ ان کے جنازے میں دو لاکھ سے بھی زیادہ لوگ شامل تھے جو ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ان کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ سب بڑا بیٹاعبدالغنی خان ایک شاعر تھے، دوسرا بیٹا عبدالولی خان ایک سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی قائم کی اورپاکستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ان کا تیسرا بیٹا عبدالعلی خان نے تعلیم کا شعوبہ چنا اور پیشاور یونیورسٹی مین وائس چانسلر بنے۔ان کے ایک داماد محمد یحییٰ وزیر تعلیم رہے۔

بادشاہ خان کو ذیل میں درج تین ایوارڈسے نوازے گئے:
۱۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل پرزنر آف کنسیز سال ۱۹۶۲ ((Awards Amnesty International Prisoner of Conscience of the Year (1962)
۲۔ جواہر لعل نہرو ایوارڈ فار ینٹرنیشنل انڈراسٹینڈنگ (۱۹۶۷) Jawaharlal Nehru Award for International Understanding(1967)
۳۔ بھارت رتن ۱۹۸۷؁ء میں

بھارت کی راجدھانی دلّی کی مشہور بازار’خان مارکٹ‘خان عبدالغفارخان کے بھائی خان عبدالجبّار خان کے نام سے منسوب ہے۔ اسی طرح دلّی کی ہی مارکٹ ’کرول باغ‘میں ایک بازار خان عبدالغفار خاں کے نام سے ’غفّار مارکٹ‘ موجودہے۔

۲۰۰۸؁ء میں بادشاہ خان پرایک ڈاکومنٹری فلم ’بادشاہ خان، دی ٹارچ آف پیس‘ کے نام سے بنی تھی جسے بہترین ڈاکومنٹری فلم کا ایوارڈ بھی ۲۰۰۹؁ء میں مشرقی وسطی فلمی میلے میں ملا تھا۔

امریکہ میں شائع بچوں کی ایک کتاب میں’دنیا میں تبدیلی لانے والی‘ شخصیتوں کی فہرست میں ۲۶؍ویں مقام پرخان عبدالغفار خان کا نام درج ہے۔امریکی مسلمانوں کے ایک جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے اُس وقت کی وزیر خارجہ ’ہلیری کلنٹن‘ نے بادشاہ خان کی اسلامی تعلیم کے فلسفہ کو تسلیم کیا ۔
'ذرا یاد کرو قربانی!
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 66952 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.