عوامی امنگیں اور بے اختیار عوامی نمائندے

پاکستان میں کسی جمہوری دور کا ایک اور کارنامہ یہ بن گیا کہ اس کے زیراہتمام اور زیر انتظام پہلی با ر بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے اور باالآخر 14جنوری 2016 ء وہ اہم ترین دن قرار پایا جب بلوچستان ، خیبر پختوان خواہ کے بعد سند ھ اور پنجاب کی یونین کونسلز کے کونسلروں ، ڈپٹی چیئرمین اور چیئرمینوں نے اپنے عہدوں کا حلف اس عزم کے اعادہ کے ساتھ اٹھایا کہ وہ عوام کی بلا متیاز خدمت کریں گے اور اس ذمہ داری کے ساتھ بھرپور انصاف کریں گے جو عوام نے ان پر ڈالی ہے اور وہ اس منصب کو امانت جانتے ہوئے صادق و امین کا کردار ادا کریں گے ۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں موجودہ حکومت کے آنے کے فوراً بعد یعنی دسمبر 2013 ء میں بلدیاتی نظام کی بحالی کیلئے اقدام کا آغاز کیا گیا لیکن کچھ تاخیر سہی بہر کیف دسمبر 2014 ء میں یہاں تمام مراحل مکمل کرلئے گئے جو اس شورش زدہ صو بے میں ہوجانا ایک معجزے سے کسی طور کم نہیں تھا۔ یہ سلسلہ یہیں شاید یہیں ختم ہوجاتا اور ملک کے دیگر صوبوں میں بلدیاتی نظام کی بحالی ایک خواب ہی رہ جاتا لیکن سول سوسائٹی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے مسلسل کوششوں اور عدالت عظمیٰ کی مداخلت سے 2015ء میں کے پی کے کے دہشت زدہ صوبے میں لوکل باڈیز الیکش ہوئے اور پھر سپریم کورٹ کے حکم سے ہی سندھ اور پنجاب نے اس جانب قدم اٹھایا اور دسمبر 2015ء میں ہی ملک بھر میں مرحلہ وار ہی سہی بلدیاتی انتخابات کا پروسس مکمل کرلیا گیا جو مل میں جمہوریت کی بقا اور سلامتی میں سنگ میل ہے ۔

بلدیاتی انتخابات یا لوکل باڈیز الیکشن کے انعقاد کا دنیا بھر ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عوامی مسائل کو کم وقت میں سہل انداز سے ان کی دہلیز پر حل کیا جاسکے تاکہ ان کے روز مرہ کے معاملات میں کوئی خلل واقع نہ ہو ۔ یہ مسائل تب ہی حل ہوتے ہیں جب مقامی لوگ صاحب اقتدار ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ مسائل کہاں ہیں اور ان کا حل س طرح سے کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں بلدیاتی نظام بالکل اسی طرح مفلوج رہا ہے جس طرح ملک کا جمہوری نظام ، البتہ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ اب سے پہلے کبھی بھی کسی جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا ، اگر لوکل باڈیز الیکشن ہوئے ہیں تو آمریت کے ادوار میں ہوئے اور بہت حد تک کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئے ، یہ سلسلہ جاری رہ سکتاتھا لیکن جمہوریت کے دعویداروں کو اقتدار میں آتے ہی عوام کا غم بھول جاتا تھا اور وہ اس تگ میں لگادئے جاتے تھے کہ انہیں جو کرسی ملی ہے وہ کہیں ان سے نہ چھین لی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور حکومت میں ان انتخابات کے انعقاد میں جو وجوہات تھیں وہ اقدار کے نچلی سطح پر منتقل ہونے بھی حائل رہیں اور نواز حکومت نے دل پر پتھر رکھ کر اس جانب قدم بڑھایا ہے لیکن ایک اہم مسئلہ جو درپیش آیا اور آرہا ہے وہ اختیارات کی عدم دستیابی کا ہے ۔ گوکہ بلوچستان میں سب سے پہلے بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے لیکن انہیں سب سے اہم مسئلہ اقتدار کی نچلی سطح پر عدم منتقلی اور اختیارات کی عدم دستیابی ہے ، کے پی کے میں بھی یہی صورتحال ہے اور ان دونوں صوبوں کے منتخب نمائندوں نے اپنے مسائل سے صوبائی حکومتوں کو آگاہ بھی کیا اس کے باوجود اقدامات نہ ہوئے تو انہوں نے بھی احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور وفاق سے عمل درآمد کیلئے اپنے تحفظات ظاہر کئے ۔ اب یہی کیفیت سندھ اور پنجاب کے نو منتخب نمائندوں نے بھی اپنے بے اختیار ہونے کا رونا شروع کردیا ہے ۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں بالخصوص بلدیہ عظمیٰ کراچی سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ء کے تحت اہم اداروں کا اختیار چھین لیا گیا ہے ۔ 18ویں ترمیم کے تحت دفاع ، کرنسی اور خارجہ پالیسی کے علاوہ تمام اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں تاہم سندھ حکومت نے ان اختیارات کو نچلی سطح پر دینے کی بجائے بلدیاتی اداروں کے بنیاد ی اختیارات بھی چھین لئے ہیں ۔ سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی ، 6ضلعی بلدیاتی اداروں کی بنیادی شناخت ، شہر کی شاہراہوں کی صفائی ستھرائی اور لینڈ فل سائیڈ کچرا اٹھانے و ٹھکانے لگانے کے فرائض بھی صوبائی حکومت کے زیر انتظام سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے سپرد کردئے ہیں ۔ اس مؤضمن میں کروڑوں روپوں کی سوئپنگ ، مکینیکل گاڑیوں ، ڈمپر ، لوڈر ، ایکڑوں پر مشتمل اراضی ودیگر اثاثے صوبائی حکومت کو دے دئے جارہے ہیں ۔ اسی طرح سے سندھ حکومت نے اشتہاری بورڈ لگانے کا انتظام اور تعلیم و صحت کا انتظام بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی سے لیکر 6 ڈسٹرک میونسپل کار پوریشنوں کے حوالے کردیا ہے ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی جو پہلے 30اہم سڑکوں کی تعمیر و مرمت کاکام کررہی تھی اسے مزید 57سڑکیں بھی دی جارہی ہیں جبکہ آمدنی کا بڑا ذریعہ یعنی لوکل ٹیکس جو اشتہاری بورڈز کی تنصیب سے ہوتا ہے اس سے بھی اس ادارے کو محروم کردیا گیا ہے ، آمدنی کا دورا بڑا ذریعہ ماسڑ پلان پہلے ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے پاس ہے ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ کراچی ماس ٹرانزٹ سیل نے برسوں محنت کرکے بس رپیڈ ٹرانزٹ اور ماس ٹرانزٹ منصوبہ تشکیل دیا لیکن اب وہ وقت آنے پر جب اس کے ثمرات اسے ملنے چاہئے تھے اس محکمہ کو بھی مرکزیت کرکے صوبائی ٹرانسپورٹ کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق نئے بلدیاتی قوانین کے تحت کراچی کے میئر کے پاس کوئی اختیار نہ ہوگا ۔ ماضی میں میئر یا ناظم کراچی ادارہ نکاسی و فراہمی ٔ آب کا چیئرمین ہوتا تھا ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نگران بھی ہوا کرتا تھا تاہم موجودہ قانون کے مطابق اس کے پاس صرف سڑکوں و فلائی اوورز کی تعمیر و مرمت ، بڑے اسپتال ، راچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ، چڑیا گھر ، سفاری پارک ، ساحل ِ سمندر ، میٹروپولیٹن ، ٹریفک انجینئرنگ ، تجاوزات کا خاتمہ و دیگر امور کا انتظام ہوگا ۔

بلدیہ عظمیٰ آمدنی کا بڑا ذریعہ نہ ہونے ی وجہ سے فنڈنگ کے حصول کے معاملے میں صوبائی حکومت کا محتاج ہے جو ماہانہ آکڑائے ضلع ٹیکس کی مد میں 392ملین اور گرانٹ 500 ملین جاری کرتی ہے ، یہ تمام فنڈز 24ہزار سے زائد ملازمین کی تنخواہوں اور دگر واجبات میں ہی رچ ہوجاتے ہیں ۔ ترقیاتی کاموں کیلئے سندھ حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 5ارب سے زائد مختص کئے ہیں تاہم ان کی تاخیر سے ادائیگی ے باعث اکثر تعمیراتی کام متاثر رہتے ہیں ۔ اب ایسی صورتحال میں کراچی کی عوام کے مسائل کس طرح اور کیونکر حل ہوں گے ، رقم کہاں سے آئیگی یہ اہم سوال بن گیا ہے ۔فراہمی ٔ آب اور نکاسی کے مسائل حل کرنے کے بل بوتے پر جن لوگوں نے ووٹ حاصل کئے تھے وہ اب عوام کوکیا جواب دے پائیں گے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنمااور نامزد میئر کراچی وسیم اختر جب سے چیئر مین منتخب ہوئے ہیں ان کی ایک ہی گردان ہے کہ وہ آرٹیکل 148 پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گئے اور اختیارات کے حصول کیلئے انہیں کسی بھی فورم پر جانا پڑے وہ جانے کو تیار ہیں ۔ اب یہ تو بالکل طے ہوگیا کہ کراچی کے عوام نے جن لوگوں کو اقتدار کا منصب سونپا ہے وہ بے اختیار ہیں اور کوئی بے اختیار آدمی کیا کرسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں ۔

دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کی اولین پہچان صفائی ستھرائی کے نظام سے ہوتی ہے تاہم بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت دیگر بلدیاتی ادارے کچرا اٹھانے و ٹھکانے لگانے سمیت شہر میں جھاڑو دینے کے اختیار سے بھی محروم ہیں کیا وہ عوام کے دیگر مسائل کے حل میں کوئی کردار ادا کرسکیں گے ۔ بلدیاتی امور کے ماہرین کے مطابق ملک میں جمہوری حکومتوں نے کبھی بھی بلدیاتی اداروں کو پنپنے نہیں دیا جس کا ایک واضح ثبوت موجودہ بلدیاتی قانون کا اطلاق ہونا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ صوبوں کو وفاق سے اپنی خودمختاری سے متعلق تحفظات ہیں لیکن یہ کیا کہ وہ خود نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ بن گئی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہی دراصل جمہوریت کا حسن ہے مگر ہمیں یہ حسن موجودہ حالات میں کہیں نظر نہیں آرہا ۔ محسوس کیا جارہا ہے کہ اقتدار کی یہ جنگ عوامی مسائل کے حل میں کوئی مثبت اقدام کرنے سے عاری ہوگی ، شہر شہر ، گلی گلی ، کوچہ کوچہ کچرے کے ڈھیر وں میں مزید اضافہ ہوگا اور عوام اسی طرح گٹر ابلتے ہوئے علاقوں میں پانی کے حصول میں مارے مارے پھرتے رہیں گے ۔

ہم مانتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں جمہوریت کا استحکام اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے وہیں عوامی مسائل کا حل بھی کسی طرح سے غیر اہم معاملہ نہیں ۔ اقتدار کا حصول اور اختیارات کی فراہمی ہی ان سب مسائل کا حل ہے، یہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے عوام بااختیار اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادادکرسکتے ہیں جب ان کے بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے ۔
Mujahid Hussain Shah
About the Author: Mujahid Hussain Shah Read More Articles by Mujahid Hussain Shah: 60 Articles with 49094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.