گر تو برا نہ مانے

محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کا فارمولا دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے ہمیشہ ہی سچائی کا منہ بولتا ثبوت رہا ہے۔ لیکن جدید دنیا نے ان دو میں ایک تیسرا عنصر بھی شامل کر دیا ہے۔ جسے سیاست کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں یونین کونسل کی سیاست سے لیکر بین الاقوامی تعلقات میں سب جائز ہے کی طرز پر کہیں جمہوریت تو کہیں ڈکٹیٹر شپ کی شکل میں عوام الناس پر رقابت اور دشمنی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔

محبت اور جنگ میں سب جائز تبھی ہوتا ہے جب وہ کسی اصول و ضابطے کی بجائے داؤ پیچ پر اختیار کی جاتی ہے۔ اور مد مقابل کے ساتھ کھلی محبت یا نفرت۔ جنگ یا امن کے وعدے یا سمجھوتے رقم ہوتے ہیں۔

لیکن سیاست میں بھی سب جائز ہوتا ہے۔ مگر مد مقابل کوئی رقیب یا فریق نہیں ہوتے۔ بلکہ غریب ہوتے ہیں۔ وہ ان کا حصہ بقدر جُثَّہ ہوتے ہیں۔ جیسے محبت میں چاہت کا جنون، جنگ میں جیتنے کا۔ سیاست میں جنون تو ہوتا ہے مگر نشہ و سرور کا۔ محبت آہ گری، جنگ سپاہ گری کی محتاج ہوتی ہے۔ اور سیاست کو رسہ گیری کہہ لیں یا شیشہ گری دونوں ہی چلیں گے۔ کیونکہ ایک دھونس دھاندلی سے نشہ لیتے ہیں تو دوسرے شیشہ گری کے کمالات سے شیشے میں اتارتے ہیں۔ رہ جاتے ہیں پیچھے بیچارے غریب جو شکر سے ہی شکار ہو جاتے ہیں۔ غریب جن کے پیچھے ہوتا ہے وہ وقت سے بہت آگے چلتے ہیں۔ کسی کو روٹی روزی کے لالے ہیں۔ گھر ان کے اندھیرے، محنت سے پاؤں میں چھالے ہیں۔ کہنے کو وہ بھی جیالے یا متوالے ہیں۔ پروانے اس لئے نہیں کہا جاتا کہ مرنا ان کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ سیاست کے کھیل میں لاشیں تو چاہئے مگر زندہ۔ جو دیکھتی اور سنتی تو ہوں مگر بولنے سے معزور ہوں۔

جنگ میں ڈو اور ڈائی، محبت میں یُو اور آئی، سیاست میں لو اور ہائی ہوتا ہے۔ ان سب میں ایک فارمولا اپنے لئے تو دوسرا مد مقابل کے لئے ہوتا ہے۔ مگر اصول کہیں نہیں ہوتا۔

منیاری کی دوکان اصولوں پر رہ کر چلائی جائے تو بیٹے غلہ سے چوری چکاری سے باز نہیں رہتے۔ سیاست بھی اب کھیل نہیں منیاری کی نہ سہی دوکانداری ضرور ہے۔ جہاں اصول اپنائیں تو بیٹے باپ سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ وراثت اب منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں نہیں سیاسی قول و قرار کی بھی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں سیاسی پارٹیوں میں الیکشن نہ کروانا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دوکان کے غلہ کی طرح سیاسی قیادت پر صرف اولاد کا حق ہی سمجھا جاتا ہے۔ غریب تو سبز باغ سے پیٹ بھر لیتا ہے مگر سیاستدان کی اولاد پارٹی قیادت ہاتھ آئے مرغ کی طرح ٹانگ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔

جو مرغ کی بانگ سے صبح کا آغاز کرتے تھے۔ انہیں گانوں کی لوری پہ لگا دیا گیا۔ گہری نیند سے اُٹھنا اتنا ہی مشکل جتنا مرغ کا اپنی ٹانگ چھڑوانا۔ نہ ٹانگ چھوٹے نہ میاں بانگ دے اور نہ ہی نئی صبح کا آغاز ہو۔ اب تو کان وہی سنتے ہیں جو سنایا جاتا ہے۔ آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو دیکھایا جاتا ہے۔ سمجھ اتنی رہ گئی ہے جتنا سمجھایا جاتا ہے۔

باپ کی جوتی بیٹے کے پاؤں میں پوری آجائے تو ڈانٹنے سمجھانے میں احتیاط کی جاتی تھی۔ مگر اب جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ بنتی بات بگڑ جائے تو افسوس سے ہاتھ ملا جاتا تھا۔ اب بگڑی بات جب تک نشر نہ ہو۔ ہاتھ میں کھجلی رہتی ہے۔

محبت سے لے کر سیاست تک، جنگ سے لے کر امن تک ٹانگ پکڑنے سے بڑھ کر کھینچنے تک جا پہنچے ہیں۔ اپنے ہاتھ شائد کچھ نہ آئے لیکن دوسرے کے ہاتھ میں بیساکھی تو ضرور جائے گی۔ پھر اگر میاں کی بانگ سے جاگ بھی جائیں تو بیساکھی سے سنبھلنے سنبھالنے میں اگلی صبح پھر نئی بانگ کا وقت آ پہنچے گا۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96032 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.