دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے
والے اتحادی حکمرانوں کو ان کی عوام نے ایک ایک کر کے مسترد کر دیا ہے۔
آسٹریلیا کے جان ہاورڈ سے لے کر پاکستان کے پرویز مشرف، امریکا کے جارج بش
کے بعد اب برطانیہ کے ٹونی بلیئر کی پارٹی کو بھی انتخابات میں شکست کا
سامنا ہے، جب کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی پر دھاندلی کے ذریعے دوبارہ
منتخب ہونے کا الزام ہے۔ ان نتائج کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ تمام بڑے اتحادی حکمرانوں کو لے ڈوبی ہے۔
دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے اور عالمی وسائل پر قبضہ جمانے کے لئے امریکا
نے نائن الیون کی ہوم میڈ فلم چلا کر 7۔ اکتوبر 2001 کو دہشت گردی کے خلاف
جنگ کے نام سے تیسری عالمی جنگ کا آغاز کیا تو برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی
بلیئر، آسٹریلیا کے وزیر اعظم جان ہاورڈ اور پاکستان کے پرویز مشرف امریکا
کے ابتداء ہی میں بڑے اتحادی بن گئے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
جونہی مفادات کی اس جنگ کی قلعی کھلتی گئی یہ حکمران ذلت اور رسوائی کا
شکار ہو کر عالمی منظر نامے سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے امریکا
کی ہاں میں ہاں ملانے والے آسٹریلیا کے وزیراعظم جان ہاورڈ کو الیکشن میں
شکست کا سامنا دیکھنا پڑا۔ جان ہاورڈنے 11مارچ1996 سے لے کر 3دسمبر 2007 تک
اقتدار کے مزے لوٹ کر آسٹریلوی تاریخ میں دوسرے سب سے زیادہ عرصے تک
وزیراعظم رہنے کا اعزاز حاصل کیا، لیکن جونہی عوام نے دہشت گردی کے خلاف
جنگ سے اظہار نفرت کرنا شروع کیا 2007 کے انتخابات میں ان کو لبیر پارٹی کے
کیون روڈkevin Rudd کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف
کا خیال تھا کہ وہ ملکی تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک صدر رہنے والے کا
اعزاز حاصل کر لیں گے۔ وردی کو اپنی کھال قرار دیتے ہوئے کہتے کہ میں اسے
کیسے اتار سکتا ہوں۔ لیکن فروری 2008 کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی مسلم
لیگ ق کی شکست ان کے اقتدار کو بھی لے ڈوبی۔ انہوں نے الیکشن میں کامیاب
ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کی بڑی کوششیں کیں
لیکن ناکام ہوئے، اور مستعفی ہونے کے بعد ملک سے ایسے باہر گئے ہیں کہ واپس
آنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ان کی شکست میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
امریکا کی حمایت، لال مسجد آپریشن، ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کی امریکا کو
فروخت، اور دیگر داخلی بحرانوں نے اہم کردار ادا کئے۔
امریکا کے جنگجو صدر بش کی رپبلکن پارٹی کو امریکا کے 56 ویں صدارتی الیکشن
میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ رپبلکن پارٹی کے رونالڈ ریگن کی 1980 اور 1984
میں لینڈ سلائیڈ وکٹری کی بنیاد پر بش سینئر نے بھی 1988 میں لینڈ سلائیڈ
فتح حاصل کی تھی، مگر پہلی خلیجی جنگ کے فاتح ہونے کے باوجود انہیں بھی
1992 میں بل کلنٹن نے شکست دے کر ثابت کیا کہ امریکی عوام جنگ کے مخالف
ہیں۔ 1996 میں رپبلکن امیدوار باب ڈول کے 159 الیکٹورل ووٹوں کے مقابلے میں
379 ووٹ لے کر کلنٹن نے دوسری مرتبہ صدارت حاصل کر کے اپنے جانشین الگور کی
فتح کی بنیاد بھی رکھ دی تھی، لیکن امریکا کے خفیہ ہاتھوں نے ڈیمو کریٹک
امیدوار البرٹ گور کی فتح کو شکست میں بدلوا کر اپنے امیدوار بش کو جتوا
دیا، تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکیں۔ دھاندلی سے اقتدار میں آنے والے
بش نے 2004 کا الیکشن بھی بڑے ڈرامائی انداز میں اسامہ کی ٹیپ چلوا کر جیت
لیا۔ لیکن اس کے بعد بش کے جانشین جان مکین کو امریکی عوام نے یکسر مسترد
کر دیا۔ اگر بش کی جنگ امریکا میں پاپولر تصور کی جاتی تو اوباما اقتدار
میں نہ ہوتے۔ آسٹریلیا کے جان ہاورڈ کی طرح ٹونی بلیئر برطانیہ کی لیبر
پارٹی کے سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والے وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے
1997 کی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے برطانوی تاریخ کے دوسرے کم عمر ترین
وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے بعد 2001 اور 2005 کے
الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کی، مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی
امریکا کی اندھی حمایت انہیں بھی لے ڈوبی اور اپنی وزارت عظمیٰ کی تیسری
مدت پوری کرنے سے پہلے ہی ان کو اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کے لئے مستعفی
ہونا پڑا۔ بلیئر کی جگہ گورڈن براون وزیر اعظم بنے، مگر حالیہ انتخابات میں
ان کی پارٹی کو متوقع کامیابی نہیں مل سکی۔ لیبر پارٹی کی شکست دراصل ٹونی
بلیئر کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کو شکست ہے۔ الیکشن میں اگرچہ
ٹوری پارٹی کو بھی واضح برتری نہیں مل سکی تا ہم 36 برس بعد برطانیہ میں
ایک بار پھر معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے والی ہے۔ |