منظر پھلوری کا غیر منقوط نعتیہ مجموعہ۔۔۔ارحمِ عالم ﷺ ۔۔۔اور غیر منقوط نعت کی روایت
(Dr Izhar Ahmed Gulzar, Faisalabad)
نعت وہ صنف ِادب ہے جو بندگانِ خدا کو مدحت
ِ سرور کائنات ﷺ کی توفیق بخشتی ہے۔ نعت ِ رسول ﷺ خدا کو محبوب ہے اور
بندگانِ خدا کو بھی محبوب ہے۔۔۔یہ سنت ِ خداوندی بھی ہے اور خاصانِ خدا کا
افتخار بھی۔ یہ توضیح ہے اُس ذاتِ والا صفات کی جسے محمد و احمد کے مبارک
اسمائے گرامی سے نوازا گیا۔ کتب سماوی میں آپ ﷺ ہی کا نام نامی فارقلیط ،
مخمنا، طالب طاب اور رحمایا کی صورت عالم انسانی کا اعزاز بنا رہا۔ اپنے
اپنے ادوار میں بعثت ِ محمدی کا انتظار کرنے والے انبیاء و رُسل سے لے کر
جو حضور ختمی مرتبت ﷺ کے محامد و محاسن بیان کرتے رہے۔ آج تک بے شمار
مشتاقانِ عظمت مصطفی نے دُنیا کی مختلف زبانوں میں حضور نبی کریم ﷺ کو مدح
و نعت کی صورت میں غیر معمولی خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
قلم کے ہاتھوں میں یہ سوچتا ہوں
محمدؐ کی ثناء لفظوں میں کیا ہے
یہ حقیقت ہے کہ محبوب کی حیثیت جس قدر جامع ہو گی اُس کا تذکرہ بھی اتنا ہی
جمیل ہو گا۔ حضور نبی کریم ﷺ تو ممدوح کائنات ہی نہیں ، ممدوحِ خدا بھی
ہیں۔ مطلوبِ کائنات ہی نہیں، محبوب ملائک بھی ہیں۔ آپ افتخارِ آدم و بنی
آدم ہیں۔ تاجدارِ عرب و عجم ہیں۔ رحمت ِ کل ، ہادیٔ سبل، ختمِ رُسل ہیں۔
صورت وہ پائی کہ ازل سے لے کر ابد تک کی حُسن آفرینی کا مرقع کمبیخ گیا۔
سیرت وہ ملی کہ انسانی سیرت و کردار کی بلندیوں نے معراج کو چھُو لیا۔
۔۔گفتار ایسی کہ اعجاز نطق نے پتھروں کو گویائی ، مردہ دِلوں کو زندگی کی
رعنائی اور محروم اظہار لفظوں کو شان پذیرائی بخش دی۔ کردار ایسا کہ قرآن
کے قدسی زمزموں میں ڈھل کر ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کا خطاب پا کر ابدالآباد تک کے
لیے باعث ِ تقلید قرار پایا۔ شخصیت اتنی جاذب نظر کہ روح ارضی قدموں میں
لوٹ لوٹ جائے۔ سراپا اتنا مطہر و مقدس کہ نہ تو دامانِ تخیل میں سمٹے اور
نہ ہی حدود ادراک میں سمائے۔ مقام اتنا ارفع کہ سب غایتوں کی غایت ِ اولیٰ
کہلائے۔
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کے غایتِ اولیٰ تمہی تو ہو
آج کے دور کا نعت گو شاعر اپنی پلکوں پہ عقیدت کے ستارے سجائے، دربارِ
رسالت مآب ﷺ میں اپنی فکری تشخص اور روحانی تعلق کے حوالے سے مدحت و نعت کے
گلہائے رنگا رنگ نذر کرنے کے لیے بے چین ہے۔ مختلف نظریات کی بھول بھلیوں
میں اُلجھ کر تعلیمات مصطفوی کی ضیاء پاشیوں سے کٹ جانے والا مسلمان ذِلت و
خواری کی انتہائی حدوں کو چھو لینے کے بعد اس احساس سے سرشار ہو کر دربارِ
رسالت مآب ﷺ کی طرف لپک رہا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے دامانِ رحمت سے لپٹ کر ہی
وہ دینی و دُنیاوی سرخروئی کا حق دار بن سکتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اقبالؔ کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رُومی فنا ہوا! حبشی کو دوام ہے
شاعری الفاظ کا فن ہے اور الفاظ اپنے اندر نہ صرف تصورات و معانی کا ایک
عالم رکھتے ہیں بلکہ اور بہت سے امکانات کے حامل ہیں۔ شاعری کا محرک، عنوان
یا مطمع نظر خواہ کچھ بھی ہو، اس کا ذریعہ اظہار الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ شاعری
کے بہت سے روپ اور مدارج ہیں۔ اس میں ہیئت کاتنوع بھی ہے اور مزاج و معانی
کی بوقلمونی بھی۔۔۔مگر شاعری کسی انداز،کسی رنگ اور کسی سطح کی بھی ،
بادقعت اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی تبھی ہو گی جب اُس میں
کمال کا پہلو موجود ہو اور شاعری میں کمال کا پہلو پیدا کرنے کے لیے ہی
شاعر کبھی آتے ہیں ۔ کبھی اس صنعت میں مزید جودت طبع دکھانے کے لیے شاعر
کلام میں بعض اوقات صرف ایسے الفاظ لاتے ہیں جن کے حروف کے اوپر نقطے ہوتے
ہیں اور بعض اوقات صرف ایسے الفاظ لاتے ہیں جن کے حروف کے نیچے نقطے ہوتے
ہیں۔ صنعت منقوط کے برعکس صنعت کو صنعت غیر منقوط ، صنعت مہملہ یا صنعت ِ
عاطلہ کہا جاتا ہ ے۔ اس صنعت میں شاعر کلام میں صرف ایسے الفاط لاتے ہیں جن
کے حروف بغیر نقطوں کے ہوتے ہیں۔
منظر پھلوری کا شمار بھی پاکستان کے اُن چند گنے چُنے شعراء میں ہوتا ہے جن
کو غیر منقوط شاعری پر ملکہ حاصل ہو۔ منظر پھلوری سے میرا تعارف ایم فل کی
کلاس میں بطور کلاس فیلو ہوا۔ ساٹھ طلبا و طالبات کی ایم فل کلاس میں اُس
کی شخصیت جاذب نظر رہی۔ وہ جتنا عمدہ شاعر ہے اُس سے کہیں بڑھ کر ایک
خوبصورت ، نیک دل ، مخلص ، باوفا اور حلیم الطبع انسان ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے
انہیں گداز دل اور عشق رسول مقبول ﷺ کی نعمتوں سے وافر نوازا ہے ۔ ایسی
شخصیت بالآخر نعت ہی کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ کلاس میں آتے ہی وہ مجھے ڈھونڈ
رہا ہوتا۔ بسا اوقات میں پچھلی نشستوں پر براجمان ہوتا تو وہ آگے ہی جگہ مل
جانے پر بیٹھ کر پیچھے مُڑ مُڑ کر مجھے تلاش کرتا اور دیکھتے ہی اُسکا چہرہ
گلاب کے پھولوں کی طرح کھل جاتا۔ ’’ارحم عالم ﷺ ‘‘ اُس کا چھٹا شعری مجموعہ
جبکہ نعت کا دوسرا اور غیر منقوط نعت میں پہلا مجموعہ ہے جو کہ انہوں نے
ایم فل کی کلاس میں اساتذہ کی موجودگی میں فوٹو سیشن کے ساتھ مجھے عطا کیا
تھا۔
منظر پھلوری کا اصل نام عبدالمجید افضل ہے۔ قلمی نام منظر پھلوری سے متعارف
ہیں جبکہ غیر منقوط نعت میں اپنا تخلص ’’سائل‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ سید شبیر
احمد ساجد المعروف ’’ ساجد مہروی‘‘ کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہیں۔ (۱)تعلیمی
مدارج میں ایم اے (اُردو)اور ایم اے (پنجابی ) ، بی ایڈ، ایم فل اُردو اور
پی ایچ ڈی (ریسرچ اسکالر) ہیں۔
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ (پاکستان) سے ملحقہ قصبہ ’’اڈا پھلور‘‘ میں ۱۰ جنوری
۱۹۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ اِسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ پھلور کا لاحقہ استعمال
کرتے ہیں۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں دل کے آنگن میں (شاعری) ، قربان شہہ
والا ؐ(نعتیہ مجموعہ) ، ہم اور لوگ ہیں (شاعری) ، کیسے کہہ دوں مرے وطن میں
امن ہے (طویل نظم ) اور سرابوں کے سلسلے ( شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ (۲)
’’ارحم عالم ﷺ ‘‘ان کا غیر منقوط نعتیہ مجموعہ ہے۔ جن میں ۵۲ غیر منقوط
نعتیں ان کی محبت، الفت، عقیدت، محنت، ریاضت اور فن کی بلندی اور عشق رسول
کریم ﷺ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے یہ حقیقت اپنی جگہ
مسلمہ ہے کہ صنعت ِ غیر منقوط کا التزام کرتے ہوئے کلام موزوں کرنا کچھ
آسان نہیں۔ نثر میں اپنے مفہوم کو ادا کرنا بہرحال نسبتاً آسان ہے کہ
مترادفات کے استعمال سے مشکل آسان ہو جاتی ہے مثلاً دُنیا کی جگہ عالم لکھ
دیا، زمانہ کی جگہ دہر استعمال کر لیا، قبر کی جگہ لحد کا لفظ رکھ لیا، سبز
کی جگہ ہرا اور سُرخ کی جگہ لال لے آئے، خدا اور رب کی جگہ اﷲ اور نبی کی
جگہ رسول کا لفظ رکھ لیا۔ مگر شاعری میں جہاں قدم قدم پر فنی لوازمات اور
شعر گوئی کے مسلمہ اصولوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے، وہاں روایت میں چونکہ
صنائع بدائع کو جلالت سُخن اور قادرالکلامی کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ اور
اِسی قادرالکلامی کی انتہا غیر منقوط شاعری تصور ہوتی تھی کیونکہ اس صنعت
میں دیگر لوازمات کے ساتھ دماغی محنت بھی درکار ہوتی تھی۔ بنابریں گذشتہ
ادوار میں شاعر اپنی اُستادی منوانے اور اپنی قادرالکلامی جتانے کے لیے
دوسری صنعتوں کے ساتھ ساتھ صنعت غیر منقوط میں بھی شعر کہہ لیتے تھے۔ مگر
اُس دور کے بڑے سے بڑے شاعر کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا دیوان بھی صنعت غیر
منقوط میں نہیں ہے۔ کسی کے دو شعر ، کسی کے چار شعر یا زیادہ سے زیادہ ایک
غزل صنعت غیر منقوط مل جائے تو مل جائے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ انشاء اﷲ
خاں انشاء نے اپنی تمام قادرالکلامی کے باوصف یہ کچھ کہا ہے۔
ہو عطر سہاگ لگا کر مسرور
آرام محل رکھ اسم دل کا او حور
وہ طور دکھا ہم کو کہ کل ہو معلوم
موسیٰ کا عالم اور وہ لمحہ طور
میرزا بیر لکھنوی کے مرثیے کا ایک بند ملاحظہ ہو۔
اول سرور دل کو ہو ، اس دم وہ کام کر
ہر اہل دل ہو محو ، وہ مدح امام کر
حاصل صلہ کلام کا دارالسلام کر
کر اس محل کو طور وہ اس دم کلام کر
کہہ آہ ، آہ ، سرور والا گہر کا حال
حال و داع اہل حرم اور سحر کا حال
اسی طرح میر انیس کے مرثیے کا ایک بند دیکھئے۔
اس طرح کا والا ہمم ، اس طرح کا سردار
اس طرح کا عالم کا ممد اور مددگار
وہ مصور الہام احد ، محرم اسرار
وہ اصل اصول کرم داور دوار
حاصل ، اگر اِک مردہ دل آگاہ کو مارا
مارا اگر اس کو اسد اﷲ کو مارا
انشاء اﷲ خاں انشاء ، میرزا دبیر اور میر انیس کی قادرالکلامی میں کسے شک
ہو سکتا ہے مگر اس قادرالکلامی کی بدولت کہے گئے جو اشعار اوپر بطور نمونہ
دئیے گئے ہیں ان سے پڑھنے والا کیا اثر قبول کرتا ہے۔ اُسے الفاظ میں بیان
کرنے کی ضرورت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر اُستاد نے اپنے اُستادی کا حق
ادا کرنے کے لیے دوچار اشعار صنعت غیر منقوط میں کہے اور پھر اِس بھاری
پتھر کو چوم کر چھوڑتے ہوئے اپنے راہوار قادرالکلامی اور اشہب قلم کا رُخ
کسی اور طرف موڑ لیا اور یوں یہ صنعت ایک طویل عرصے تک طاقِ نسیاں کی نذر
ہو گئی۔
اِس وقت میرے مقالے کا عنوان ’’منظر پھلوری کی غیر منقوط شاعری ہے‘‘۔ منظر
پھلوری سے پہلے جن جن حضرات کو یہ توفیق ارزانی ہوئی ہے کہ فیضان سرکار دو
عالم ﷺ کے انوار سے فیض یاب ہو کر غیر منقوط نعتیہ مجموعہ کلام دلداد گان
نعت کے مطالعہ کے لیے پیش کر سکیں۔ ان میں سر فہرست راغب مراد آبادی کا نام
آتا ہے۔ جن کا (۱۸X۲۲ سائز کے ۱۷۶ صفحات پر مشتمل) صنعت غیر منقوط میں
چالیس نعتوں اور تیس رباعیوں پر مشتمل نعتیہ مجموعہ کلام ’’مدح رسول ‘‘
۱۹۸۳ء میں کراچی(پاکستان) سے شائع ہوا تھا۔ (۳)
راغب مرادآبادی کا غیر منقوط نعتیہ مجموعہ کلام ’’مدح رسول‘‘ ۱۹۸۳ء میں
اشاعت پذیر ہوا تھا۔ (۴)اس کے صرف دو سال ۱۹۸۵ء میں باب الہدیٰ فیض آباد،
فیصل آباد(پاکستان) سے صاحبزادہ سید محمد امین علی شاہ نقوی کا غیر منقوط
نعتیہ مجموعہ کلام ’’محمد ہی محمد‘‘ سے شائع ہوا۔
۱۸X۲۲ سائز کے ۲۴۰ صفحات کے اس غیر منقوط مجموعہ کلام میں چار زبانوں میں
عربی، فارسی ، اُردو اور پنجابی میں ۱۱۳ منظومات اور ۱۹ قطعات شامل ہیں۔
حمد ، نعت اور مناقب پر مشتمل ۱۱۳ نظموں کے علاوہ ’’گلہائے معطر‘‘کے تحت جو
۱۹ قطعات درج ہیں وہ بھی نعتیہ قطعات ہی ہیں۔ اس طرح ’’محمد ہی محمد‘‘
نعتیہ غیر منقوط شاعری کا ایسا مجموعہ بن گیا ہے جو کمیت یعنی مقدار کے
لحاظ سے اپنے پیش رو یعنی راغب مراد آبادی کے نعتیہ غیر منقوط مجموعہ کلام
’’مدح رسول‘‘ سے کم و بیش دوگنا ہے۔ (۵)اس کے بعد انہوں نے ’’محمد رسول اﷲ
ﷺ‘‘ کی صورت میں دُنیائے نعت گوئی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ ۱۶۳
صفحات کا مجموعہ کلام جو غیر منقوط اور عربی زبان میں ہے۔ ۳۳ منظومات ، ۳۱۳
اشعار، ۱۲ حمدوں اور ۲۱ نعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ اکتوبر ۱۹۸۹ء میں بزم
باب الہدیٰ فیصل آباد نے شائع کیا تھا۔
اِن کے بعد میاں چنوں (پاکستان ) سے متعلق غیر منقوط نعت کے ایک اور بلند
پایہ شاعر سید مختار گیلانی غیر منقوط نعتیہ کلام’’ محامد ِ وراء المعرآ‘‘
کے نام سے ۱۹۹۳ء میں اس کا پہلا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ ’’محامد ِ وراء
المعرآ ‘‘ ۳۰۴ پر محیط میں سید مختار گیلانی نے چھ زبانوں اُردو، انگریزی،
پنجابی، سرائیکی، عربی اور فارسی میں اپنے فنکارانہ جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی
نعتیں عشق رسول ﷺ کی عظمتوں سے لبریز اور فکر ایمان و یقین کی طلعتوں سے
منور نظر آتی ہیں۔ انہوں نے غیر منقوط فن کی گھاٹیوں پر چلتے ہوئے کہیں بھی
قاری کو مشکلات سے دوچار نہیں ہونے دیا ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ
منقوط نعتوں کا مطالعہ کر رہا ہو۔ حضور ختمی مرتبت ﷺ کا نام اُن کی نوکِ
قلم سے ٹکپتا ہے تو دامانِ قرطاس پر گلزار کھِل اُٹھتے ہیں۔
اُردو میں غیر منقوط نعتیہ شاعری کے ضمن میں ایک اور معتبر اور نمایاں نام
جناب منظر پھلوری کا ہے جن کا ۵۲ غیر منقوط نعتوں کا مجموعہ کلام (22X14)
سائز ’’ارحم عالمﷺ‘‘ کے عنوان سے جنوری ۲۰۱۳ء کو اِس کا پہلا ایڈیشن شائع
ہوا۔ جس پر ۲۰۱۴ء میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر قومی سیرت کانفرنس میں
صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین نے انہیں ۲۰۱۴ء کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔
اِس غیر منقوط نعتیہ مجموعہ کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ پہلا ایڈیشن اہل محبت نے
ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔ اِس کے بعد ۱۱ فروری ۲۰۱۴ء کو ’’ارحم عالم ﷺ ‘‘ کا
دوسرا ایڈیشن منظر پر آیا۔ جس کو احسن پبلی کیشنز فیصل آباد(پاکستان) سے
شائع کیا گیا۔ ’’ارحم عالم ﷺ ‘‘ کو بڑی عرق ریزی اور محبت و الفت سے پڑھتے
ہوئے میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جناب منظر پھلوری نے صنعت غیر منقوط کی
مشکل گھاٹیاں طے کرتے ہوئے موضوع کی بالادستی اور اس کے فطری پن کو کہیں
داغ دار نہیں ہونے دیا۔ ان کی نعتوں کے اکثر اشعار روانی کے اعتبار سے ایسے
ہیں کہ جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ یہ اشعار غیر منقوط ہیں۔ پڑھنے یا سُننے
والے کو یہ احساس نہیں ہوتا مثلاً
کرم کی ردا لے کر سرکار آئے
وہ سرور وہ ہادی وہ سردار آئے
وہ سرور وہ اکرم وہ سردارِ عالم
وہ علم و فضل کے کرم کار آئے(۶)
ہر گُل کدہ کھلا ہے محمدؐ کے واسطے
مالک کی ہر عطا ہے محمدؐ کے واسطے
لاکھوں سلام اور کروڑوں درود ہوں
اﷲ دے رہا ہے محمدؐ کے واسطے
ادراک و آگہی کا مدرس مرا رسولؐ
ہر علم کی گھٹا ہے محمدؐ کے واسطے(۷)
صلِ علیٰ وہ رسول مکرم
مہکے ان کے دم سے عالم(۸)
صلِ علیٰ وہ گُل کی مہک ہے
مہر و ماہ کی اعلیٰ دمک ہے(۹)
مری مراد مرا مُدّعا محمدؐ ہے
کرم کے آسروں کا سلسلہ محمدؐ ہے
سکوں کے واسطے آؤ گداگرو آؤ
ہمارا آسرا اور حوصلہ محمدؐ ہے
اسی کے رحم و کرم سے اماں ہوئی حاصل
دُکھی دلوں کیلئے آسرا محمدؐ ہے(۱۰)
اساسِ دہر ہے روح و رواں ہے
مری سرکار سا کوئی کہاں ہے
اسی کے واسطے عالم ہوا ہے
اے سائل وہ مرا دارلاماں ہے(۱۱)
¸ نعتیہ شاعری کی بنیاد عشق رسولؐ ہے اور عشق کے آداب میں پہلا سبق ہی اپنی
ذات کی نفی کا ہے۔ یہ سپردگی اور کامل سپردگی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک
انسان اپنی انا کا انکار نہ کر دے۔ انا کے انکار ہی سے وہ اقرار پیدا ہوتا
ہے جو عشق کی صورت گری کرتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی ہی سے وہ اثبات ظہور میں
آتا ہے۔ جو عشق کو صحیح معنوں میں عشق بناتا ہے۔ یہ عشق نہ ہوتا تو شاعری
محض ایک طلسم دروغ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔ منظر پھلوری اس راز سے آگاہ
ہیں۔ اِس لئے اُن کی نعتوں میں فخرو نعت، طاقت لسانی اور زورِ خطابت کی
بجائے جذبے کی تہذیب ، عجز و انکسار اور عاجزی و نیاز مندی کے عناصر پائے
جاتے ہیں۔ بھلا جو ہستی عظیم فخر موجودات ہو، باعث ِ تخلیقِ کائنات ہو،
انسانوں تو کیا انبیاء میں بھی سب سے افضل ہو۔ اس کے غلام کا انداز سُخن تو
ایسا ہی ہونا چاہیے۔
ہوں لاکھ آہوں کے ہر سو ہی کارواں سائل
ہمارے روگ کی ہر اک دوا محمدؐ ہے(۱۳)
وہ احساں کو مائل ، کرم کا وہ محور
اسی کی گدائی اسی کے گدا گر(۱۴)
اسی واسطسے اس کے در کا گدا ہوں
وہ سائل کی ساری مرادوں کا گوہر(۱۵)
عالم کے واسطے اُسے ہر آسرا کہو
ہر اک کرم کا ، رحم کا ،ہر سلسلہ کہو(۱۶)
اسی کے ہی دم سے سارے مکمل ہوئے عمل
اور اس کو ہی مداوا ہر اک درد کا کہو(۱۷)
رحم کا ساگر اسم محمدؐ
دہر کا سرور اسمِ محمدؐ(۱۸)
عام شعراء صنعت غیر منقوط میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے بالعموم مندرجہ ذیل
بیس غیر منقوط حروف سے استفادہ کرتے ہیں۔
ا۔ٹ۔ح۔د۔ڈ۔ر۔ڑ۔س۔ص۔ط۔ع۔ک۔گ۔ل۔م۔ں۔و۔ہ۔ء۔ی۔ے
نون غُنہ ’’اور ’’ی‘‘ یا ’’ے‘‘ جب کسی لفظ کے آخر میں آئیں تو بالعموم
ہمارے ہاں اِن پر نقطے لگانے کا رواج نہیں اور اسی بنیاد پر شعراء انہیں
غیر منقوط شمار کرتے ہوئے انہیں اپنے غیر منقوط کلام میں لے آتے ہیں۔ جب کہ
حقیقت یہ ہے کہ محض مقام یا محل وقوع کے بدل جانے سے حرف کی اصل حیثیت نہیں
بدلا کرتی۔ مثلاً آئی۔ آئے۔ کسے اور اُسے میں تو ’’ی‘‘ کو غیر منقوط شمار
کریں اور آیا ، گیا ، کیسا اور ایسا میں اسی ’’ی‘‘ کو منقوط شمار کیا جائے۔
اسی طرح ’’ن‘‘ ہاں ،وہاں ، کہاں وغیرہ میں تو غیر منقوط ٹھہرے اور دُنیائے
پنہاں وغیرہ میں منقوط شمار ہو۔ بانگ اور ٹانگ میں ہے تو نون غنہ ہی مگر
منقوط ہے۔ چونکہ اور کیونکہ میں بھی نون غنہ منقوط ہے اور کیوں کہ میں بغیر
نقطے کے لکھنے کے باوجود اُسے غیر منقوط شمار کیا جائے تو کیوں؟
اسی امر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جناب منظر پھلوری نے نون غنہ اور یائے
معروف و مجہول کو اپنے کلام میں برتنے سے گریز کیاہے اور حروف ۱۷ مسلسل غیر
منقوط حروفِ تہجی کے محدود و مختصر دائرے میں رہ کر بہ توفیق ایزدی مداحی
رسول مقبول ﷺ کا قرض ادا کیا ہے۔
اپنی ایک نعت ’’مدح محمد ؐ‘‘ میں منظر پھلوری اپنی محبت اور اُلفت کا اقرار
یوں کرتے ہیں۔
حدِ ادراک سے ماورائے گماں
وہ وریٰ الوریٰ کوئی اُس سا کہاں
وہ عطائے الہ ، سائر لا مکاں
ہادی ، کل وہی مرسلِ مرسلاں
اس کو لاکھوں کروڑوں درود و سلام
لامکاں اور مکاں کا ہے وہ حکمراں
دل کا وہ آسرا اور مسلسل کرم
در اُسی کا ہمارا ہے دارالاماں
ہے ولائے محمدؐ کی مہر و عطا
عاصی و کم عمل ہو گئے کامراں
آئی ماحول سے ہر کسی کی صدا
سِکہ اسمِ محمدؐ کا ہر سو رواں
سارے عالم کو اس سے مدد ہے ملی
کملی والا ہو ہر اماں کی اماں
آ گئے آ گئے وہ مدد کے لیے
مہکا مہکا ہے سائل دلوں کا سماں(۱۹)
جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ نثر اور نظم زبان کے الگ الگ شعبے ہیں۔ نثر
میں بات آسانی سے ادا ہو جاتی ہے لیکن جب ایک شاعر کو نظم میں اظہار خیال
کرنا چاہیے اور پھر اس کے لیے یہ التزام بھی کرے کہ اس کے کلام میں نقطوں
والے حروف نہیں آئیں گے تو بات کہنا آسان نہیں رہ جاتا اور نعت گوئی کے
حوالے سے تو بات اور بھی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ نعت گوئی بظاہر آسان نظر
آتی ہے لیکن حقیقتاً اس سنت کبریائی پر عمل پیرا ہونا تلوار کی تیز دھار پر
چلنے کے مترادف ہے مگر منظر پھلوری کو عشق رسالت ﷺ کے طفیل بہ توفیق بھی
ارزائی ہوئی ہے کہ غیر منقوط ہونے کے باوجود اشعار میں کہیں بھی منقوط ہونے
کا شائبہ نہیں پڑتا۔ الفاظ و تراکیب ہیں کہ مدحت سرکار ﷺ کا شرف حاصل کرنے
کے لیے سر کے بل چلتے آ رہے ہیں اور دل کی بات محبت کے رنگ میں اور عقیدت
کے ترنگ میں ایسی بے ساختگی سے کہی گئی ہے کہ ایک بہتی ہوئی ندی اور نغمہ
سرائی کرتی ہوئی آبشار کا گمان ہوتا ہے۔
ہر گُل کدہ کھلا ہے محمدؐ کے واسطے
مالک کی ہر عطا ہے محمدؐ کے واسطے
صل علیٰ کا وِرد کلام مدام ہے
ہر دل کی ہر صدا ہے محمدؐ کے واسطے
وہ ہے اساس دہر ، وہ دائم رہِ ہدیٰ
ہر اک ہی سلسلہ ہے محمدؐ کے واسطے
ادراک و آگہی کا مدرس مرا رسولؐ
ہر علم کی گھٹا ہے محمدؐ کے واسطے
ہر سو صدا وہ آ گئے مولا دمِ معاد
سائل گدا کھڑا ہے محمدؐ کے واسطے(۲۰)
اساسِ دہر ہے رواں دواں ہے
مری سرکار سا کوئی کہاں ہے(۲۱)
ہر کوئی اُس کے در کا ہی سائل ہوا
ہر کوئی اس کے در سے ہی کامل ہوا(۲۲)
ممتاز محقق اور نعت گو سید شاہد حسین شاہد رقم طراز ہیں:
’’عبدالمجید افضل المعروف منظر پھلوری ، جس نے اپنی عاجزی کے وسیلے سے
’’سائل‘‘ بن کر جب بارگاہِ نبوی ﷺ میں مدح خوانی کا شرف پایا تو ’’ارحم
عالم ﷺ ‘‘ نے انہیں پذیرائی سے نوازا اور انہیں کلام منظوم معرا یعنی غیر
منقوط کتاب کا مصنف بنا دیا۔ انہوں نے جتنے القاب مداحی رسول ﷺ میں استعمال
کئے ہیں۔ جہاں وہ آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات کی اجہات کثیر کے جمال ذیشان کی
نشاندہی کرتے ہیں۔ وہاں وہ آپ ﷺ کے تصرف کے بھی آئینہ دار ہیں سائل نے حضور
ﷺ کو خراج عقیدت انکساری کے اعلیٰ اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ (۲۳)
اسی در کا ہی گدا ہوں اسی در کی ہے گدائی
وہی در ہی آسرا ہے مری عمر کی کمائی
وہی در ہوا ہے عالی اسی در کا ہوں سوالی
اسی در کا ہو کھڑا ہوں لئے کاسۂ گدائی(۲۴)
ممتاز سکالر سید مختار گیلانی ’’ارحم عالمﷺ ‘‘کے دیباچے میں منظر پھلوری کو
گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے خامہ فرسائی کرے ہیں۔
’’ سائل (منظر پھلوری ) کی مدح سرائی ، ممدوح الہٰی ، ’’ارحم عالم ﷺ‘‘ کہ
کلام معرّا کے طرّہ کمال کی حامل ہے۔ اﷲ کے کرم اور مہر رسول سے ، گل ہائے
مدح ﷺ سے مسکانے مہکانے ہار کے اک گل معطر کے طور ۔۔۔ اور لالی ولائے رسول
ؐ سے مرصع مالا کے اک گوہر لمعہ دار کے طور ، دائم معدود ہوا کرے گی۔ دُعا
ہے کہ اس سعی صالح کے حوالے سے وہ اﷲ و رسول کے ہاں سے مطرِ اکرام و عطاء
کے مورد ہوں۔ ‘‘(۲۵)
اِس نعتیہ مجموعہ میں منظر پھلوری نے اپنا تخلص منظر نہیں بلکہ ’’سائل‘‘
استعمال کیا ہے۔ اس طرح وہ اس اوگھٹ گھاٹی سے بآسانی گزر گئے ہیں۔ (۲۶)جسے
عبور کرنے میں راغب مراد آبادی ناکام رہے تھے۔ راغب مراد آبادی نے اپنے غیر
منقوط مجموعہ نعت میں تخلص ’’راغب‘‘ استعمال کیا تھا اس طرح اُن کا مجموعہ
غیر منقوط کے دائرہ سے نکل جاتا ہے۔ ایک طرف تو منظر پھلوری کی نعتوں میں
عقیدت کے جذبات اور ارادت و محبت کے ارمان مچلتے نظر آتے ہیں دوسری طرف
کوئی زائد ، اجنبی ، نامانوس یا محض بھرتی کا لفظ محسوس نہیں ہوتا بلکہ یوں
معلوم ہوتا ہے جیسے ہر لفظ اپنے اپنے مقام پر نگینے کی طرح یوں جڑا ہے جیسے
وہ اپنے مخصوص انداز کے ساتھ اسی مقصد کے لیے وضع ہوا تھا۔ جس کے لئے اُسے
استعمال کیا گیا ہے۔
ممتاز شاعر حمد و نعت و مدیر ماہنامہ ’’ارمغان حمد‘‘ کراچی جناب طاہر
سلطانی اپنی تقریظ میں منظر پھلوری کے اِس غیر منقوط نعتیہ مجموعہ کو
سراہتے ہوئے یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں۔
’’ ارحم عالمﷺ‘‘ کے سائل کا اصل مُدعا در محمد ﷺ کی گدائی ہے۔ رسول مکرم ﷺ
سے دلِ سائل کا معاملہ ، ردائے کرم و عطا والا ہے۔ مدح سرکارﷺ کہاں اور
کہاں سائل و طاہر، مگر الہٰ العوالم کا کرم ہے کہ سائل (منظر پھلوری) دل کی
گہرائی سے مدح سرکارﷺ کر رہا ہے۔ اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ کی مدح سرائی سے
اُسے آگہی ملی ہے۔ ‘‘(۲۷)
محور مہر کیوں راحم اعدا لکھوں
دہر کے راہ عمل کا اُسے اسوہ لکھوں
اس کو سردارِ رسلؐ ، آسرا عالم کا کہوں
اس کو حکم کہوں اور اسریٰ کا دولہا لکھوں(۲۸)
شوق و ذوق کی دُنیا میں اِس نقش پا کے تمنائی ، اپنی آرزوؤں میں طرح طرح سے
رنگ بھرتے رہے ہیں۔ تمنا اور آرزو کے اس لا تمناہی سلسلے کا آغاز ، اس ساعت
سعید تک جا پہنچا ہے ۔ جب مالک حقیقی نے اس کائنات کی تخلیق کا ارادہ
فرمایا کیونکہ تخلیق کائنات کا مدعا و مقصود آپ ﷺ ہیں۔ آپﷺ ہی عرش کی
رفعتوں، فرش کی حقیقتوں ، زمان کی وسعتوں اور مکان کی رعنائیوں کے نقش مراد
ہیں۔ ظفر عل خاں کے الفاظ میں سب غایتوں کے غایت اولیٰ ہیں۔ آپﷺ ہی صبح ازل
کی مشعل تاباں اور شام ابد کی شمع فروزاں ہیں۔۔۔ایک ایسی روشی جو ضمیر
کائنات میں جلوہ ریز ہے اور مفہوم و معنی کی ایک ایسی بلاغت جوہر صورت وجود
میں ضوفگن ہے۔ گویا کائنات ’’کن فکاں‘‘ سے گزر گئی اور خالق کائنات اس لمحے
کا منظر رہا کہ کب دین تکمیل کو چھوتا ہے۔ انتظار کا یہی وہ سوز اور آرزو
کا یہی وہ گداز ہے جس کی بنا پر حضور ﷺ کو ہر دور میں ، ہر نبی نے اور ہر
الہامی کتاب نے ایک ’’وجود منتظر ‘‘ کے روپ میں پیش کیا۔
روح اور دل کے مددگار رسول اکرمﷺ
سارے عالم کے کرم کار رسول اکرمﷺ
سائل (منظر پھلوری ) نے نعت وہ بھی غیر منقوط کے گلشن میں داخل ہونے سے
پہلے اس امر کا اظہار کیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا اگرچہ یہ ایک کٹھن اور دشوار
راستہ ہے مگر ’’سائل علمی طور سے کم ہے اور اس کو اس کمی کا احساس ہے مگر
ہادی کامل ﷺ کی مہر و عطا سے حوصلہ ملا۔ سائل کا اسم اعلیٰ محمدؐ ہے۔ سائل
کو گدائی کی روٹی درِ رسولؐ سے حاصل ہوئی ہے۔۔۔مرے واسطے ’’ارحم عالمﷺ‘‘ ہر
طرح سے اہم ہے۔ گل کو دم معاد اﷲ کے آگے ’’ارحم عالمﷺ‘‘ ہی کام آئے گی۔ وہ
اس لیے کہ سارے عالم کا ہمدرد وہی اﷲ کا دلدار اور لاڈلہ ہے۔ اﷲ اور اس کے
رسول کی مدد ہمراہ ہے اور سدا رہے گی۔ ‘‘(۳۰)
ہم سے عاصی لوگوں کو آسرا محمدؐ کا
واسطے سہارے کے در کھلا محمدؐ کا
سلسلہ کرم کا وہی مدعا حرم کا وہی
ہر طولِ عالم کر آسرا محمدؐ کا
ہم کو ڈر ہے کاہے کا اور ملال کاہے کا
ورد اک لساں کے واسطے ہے سدا محمدؐ کا
ہر کلام اعلیٰ ہے ہر کلام اکرم ہے
اس لیے کہا کھل کر دل ہوا محمدؐ کا
اُسرۂ محمدؐ کے لوگ مالکِ عالم
ہے رہا مہک ہر دم گُل کدہ محمدؐ کا
مسئلو کا حل ہے وہی اور وہی مکمل ہے
درد کا مداوا ہے واسطہ محمدؐ کا
" معروف نقاد، محقق اور نعت گو ریاض احمد قادری کتاب کے آغاز میں اپنے
دیباچہ میں منظر پھلوری کے فن اور شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’ سائل(منظر پھلوری) مادی اور اصلی دہر اور دور کا کامران آدمی ہے۔ اس کے
واسطے اﷲ کی اور سے ہر سہل آ گئی اور مدح کا کام آسان ہوا اور ہر مرحلہ
آسان ٹھہرا۔ اﷲ کے آگے اس کا رسالہ ’’ارحم عالم ﷺ ‘‘ اس کے لیے کام کرے گا
اور اس کے کام آئے گا اور اس کار مدح کے لیے اﷲ اور اس کے رسول مکرم کی ولا
سدا سائل لکھاری کے ہمراہ رہی ہے اور آگے والے دم کے دوراں رہے گی اس کی
صدائے دل اس کے کام کرے گی اور اس کے کام آئے گی۔ ‘‘(۳۲)
دائم کرم کا مہکا ہوا در کھلا ملا
ہر کوئی ہر سو اس کے ہی در کا گدا ملا(۳۳)
اک وہی اﷲ کا دلدار ہے
اس کا عالم کو کرم درکار ہے(۳۴)
جناب منظر پھلوری کی تمام نعتیں عشق رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے معطر ہیں۔ نعت فی
الواقع انسانی فکر و نظر کی معراج ہے، یہ ایک ایسی نعمت ہے جو تقدس کے گرد
گھومتی ، محبت کے ہار پروتی اور ارادت کے آویزے تیار کتی ہے۔ نعت گو، خدا
اور اس کے فرشتوں کا ہمزباں ہوتا ہے۔۔۔جناب منظر پھلوری اپنی اس سعی و کوشش
اور عقیدت و اُلفت میں یقینا کامیاب و کامران ٹھہرے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس
غیر منقوط نعتیہ مجموعہ میں سلاست اور روانی کو قائم رکھا ہے۔ بارگاہِ
خداوندی میں دُعا ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے طفیل سائل (منظر پھلوری) پر
اپنی نوازشات کے سلسلہ کو دراز فرمائے اور انہیں مدح رسول ﷺ کو گوہر گراں
مایہ سے مزید مالا مال کرے۔ (آمین)
ماخذ/حواشی
۱۔ منظر پھلوری، ارحم عالم ، فیصل آباد: احسن پبلی کیشنز ، ۲۰۱۴ء ، ص ۵
۲۔ ایضاً
۳۔ راغب مراد آبادی ، مدح رسول ، کراچی: ۱۹۸۳ء
۴۔ سید محمد امین علی نقوی، محمد ہی محمد، باب الہدیٰ فیض آباد فیصل آباد،
۱۹۸۵ء
۵۔ سید محمد امین علی نقوی، محمد رسول اﷲ ، باب الہدیٰ فیصل آباد، ۱۹۸۹ء
۶۔ سید مختار گیلانی ، محامد وراء المعرآء ، میاں چنوں ، پاکستان، ۱۹۹۳ء
۷۔ منظر پھلوری، ارحم عالم، ص ۴۵
۸۔ ایضاً، ص ۴۷
۹۔ ایضاً، ص ۷۳
۱۰۔ ایضاً، ص ۷۸
۱۱۔ ایضاً، ص ۸۱
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۴۷
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۴۸
۱۴۔ ایضاً، ص ۸۴
۱۵۔ ایضاً، ص ۹۲
۱۶۔ ایضاً، ص ۸۶
۱۷۔ ایضاً، ص ۸۷
۱۸۔ ایضاً
۱۹۔ ایضاً، ص ۲۷
۲۰۔ ایضاً، ص ۴۱
۲۱۔ ایضاً، ص ۱۴۷
۲۲۔ ایضاً، ص ۱۰۵
۲۳۔ دیباچہ سید شاہد حسین شاہد، ص ۱۵۶
۲۴۔ منظر پھلوری، ارحم عالم، ص ۵۹
۲۵۔ فلیپ سید مختار گیلانی ، ارحم عالم، ص ۱۱
۲۶۔ مدعا ، منظر پھلوری، ارحم عالم ، ص ۲۴
۲۷۔ دیباچہ ، طاہر سلطانی ، ارحم عالم، ص ۲۱
۲۸۔ منظر پھلوری، ارحم عالم، ص ۵۵
۲۹۔ ایضاً، ص ۶۰
۳۰۔ مدعا، منظر پھلوری، ارحم عالم، ص۲۴
۳۱۔ ایضاً، ص ۵۵
۳۲۔ دیباچہ ، ریاض احمد قادری، ارحم عالم، ص ۱۷
۳۳۔ منظر پھلوری ، ارحم عالم، ص ۱۲۳
۳۴۔ ایضاً، ص ۱۱۹ |
|