نفسِ شاعری احادیث کی روشنی میں
(Moulana Nadeem Ansari, india)
’شاعری‘ اصنافِ سخن کی نہایت مقبول و مشہور
صنف ہے۔اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے، جس میں محض خیالی اور
غیر تحقیقی مضامین بیان کیے گئے ہوں، جس میں کوئی بحر، وزن، ردیف اور قافیہ
کچھ شرط نہیں۔ فنِ منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ’ادلۂ شعریہ‘ اور’ قضایا
شعریہ ‘کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی شعر و غزل میں بھی چوں کہ عموماً خیالات کا ہی
غلبہ ہوتا ہے، اس لیے اصطلاحِ شعرا میں کلامِ موزوں مقفّٰی کو شعر کہنے لگے۔
بعض مفسرین نے آیاتِ قرآن (بل ہو شاعرٌ۔ شاعرٌمجنونٌ، شاعرٌ نتربص بہٖ)
وغیرہ میں شعرِ اصطلاحی کے معنی میں مراد لے کر کہا کہ کفارِ مکہ حضورﷺ کو
وزن دار، قافیہ دار کلام لانے والے کہتے تھیلیکن بعض نے کہا کہ کفار کا
مقصد یہ نہ تھا، اس لیے کہ وہ شعر کے طرز و طریق سے واقف تھے اور ظاہر ہے
کہ قرآن اشعار کا مجموعہ نہیں اس کا قائل تو ایک عجمی بھی نہیں ہو سکتا، چہ
جاے کہ فصیح و بلیغ عرب، بلکہ کفار آپ ﷺکو شاعر شعر کے اصلی معنی یعنی
خیالی مضامین کے لحاظ سے کہتے تھے۔ مقصد ان کا دراصل آپﷺ کو نعوذ باﷲ جھوٹا
کہناتھا، کیوں کہ شعر بہ معنیِ کذب بھی استعمال ہوتا ہے اور شاعر کاذب کو
کہا جاتا ہے، اس لیے ادلۂ کاذبہ کو ادلۂ شعریہ کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ
جیسے موزوں اور مقفیّٰ کلام کو شعر کہتے ہیں، اسی طرح ظنی اور تخمینی کلام
کو بھی شعر کہتے ہیں، جو اہلِ منطق کی اصطلاح ہے۔[۱]
علامہ ابن خلدون شعر کی تعریف و ماہیت یوں بیان کرتے ہیں:
’’شعر ایک ایسا بلیغ کلام ہے، جس کی بنا استعاروں اور اوصاف پر ہوتی ہے۔ اس
کے اجزا وزن میں متفق ہوتے ہیں اور ایک روی رکھتے ہیں اور ہر جزو اپنے
مقاصد و غرض کے لحاظ سے مستقل بالذات ہوتا ہے اور اس کا قبل و مابعد سے
کوئی تعلق نہیں ہوتااوروہ مخصوص اسالیبِ عرب کے مطابق ہوتا ہے۔ شعر ایک
بلیغ کلام ہے۔ یہ ایک جنس ہے جو اوصاف و استعاروں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ فصل
ہے، کیوں کہ جس بلیغ کلام میں استعارے و اوصاف نہ ہوں، وہ اس قید سے نکل
جائے گا، وہ شعر نہیں۔یہ قید کہ اس میں ایسے ٹکڑے ہوں، جو متفق الاوزان
وروی ہوں‘ دوسری فصل ہے۔ اس سے نثر شعر سے الگ نکل گئی، کیوں کہ وہ وہ سب
کے نزدیک شعر نہیں، اس قید میں کہ اس کا ہر جزو اپنے مقصد و مفہوم میں
مستقل حیثیت رکھتا ہے اور اس کا قبل و ما بعد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،
حقیقتِ شعریہ کا بیان ہے، کیوں کہ شعر کی ابیات اسی حقیقت کی حامل ہوتی ہیں،
اس قید سے کسی چیز کو نکالنا مقصود نہیں۔یہ قید کہ وہ عرب کے مخصوص اسالیب
کے مطابق ہو تیسری فصل ہے، اس سے وہ کلام نکل جاتا ہے، جو عربوں کے مخصوص
اسالیب سے باہر ہو، کیوں کہ وہ شعر نہیں ہوتا محض منظوم کلام ہوتا ہے، اس
لیے کہ شعر کے مخصوص اسالیب ہوتے ہیں، جو نثر میں نہیں پایجاتے۔ اسی طرح
نثر کے مخصوص اسالیب ہوتے ہیں، جو شعر میں نہیں پاے جاتے۔ الغرض! جا کلام
منظوم ہو مگر شعر کے مخصوص اسالیب پر نہ ہو وہ شعر نہیں۔[۲]
انسان جس طرح سے جسمانی محنت کے بعد تکان محسوس کرتا ہے اسی طرح ذہنی
مشغولی کے بعد بھی اسے تکان کا احساس ہوتا ہے جسے دور کرنے اور طبیعت میں
نشاط پیدا کرنے کے لیے شعر و سخن کا سہارا لیاجاتا ہے۔ رسول اﷲﷺ کی حدیثِ
قولی، فعلی اور تقریری ہر ایک سے اس کے نہ صرف جواز بلکہ مستحسن ہونے کے
بھی شواہد ملتے ہیں۔ متعدد صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین حضرت نبی کریمﷺ
کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے۔قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی
ہے ان سے مراد ایسے اشعار ہیں جوشریعت و اخلاق کے خلاف ہوں لیکن جو اشعار
مناجاتِ ربانی، نعتِ محمدی اورشانِ صحابہ اور عظمتِ اسلام وغیرہ کے موضوعات
پر مبنی ہوں، ان کا کہنا، پڑھنا اور سننا سب جائز بلکہ مستحسن ہے۔
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اﷲﷺ کی بعثت کے لیے تمام عالمِ رنگ و بو میں سے
جزیرۃ العرب کو منتخب فرمایا اور جس وقت آپﷺکی بعثت ہوئی اس وقت عرب میں
شعر و شاعری بامِ عروج پر تھی اور وہاں اس وقت بڑے بڑے شعرا موجود تھے، حال
یہ تھا کہ بہت سے لوگ آپس میں بات چیت بھی نظم یا شعر میں کیا کرتے
تھے۔ایسے میں آپﷺ کو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے بہ طور معجزہ قرآن مجید عطا
فرمایاتاکہ آپ ﷺان عربوں اور شاعروں کا منہ بند کر سکیں اورتمام کافروں کو
قیامت تک کے لیے چیلنج کر دیا گیا (فأتو بسورۃ من مثلہٖ)نہیں نہیں (وادعوا
شہداء کم من دون اللّٰہ ان کنتم صادقین) پھر کیا تھا، وہ لوگ جوشعر و شاعری
کے دعوے دار تھے، سرنگوں ہو کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور زبانِ حال سے
گویا ہوئے کہ محمد بن عبد اﷲ کے لائے ہوئے کلام سے افصح کلام تاریخِ عرب
میں ملا ہے نہ ملے گا۔
یہ اس وجہ سے تھا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ہر نبی کو اس دور کے مطابق معجزہ
عطافرمایا تھا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سحرکا بول بالا تھاتو
ان کے ہاتھ میں عصا دے دیا گیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طبابت
عروج پر تھی تو ان کو مسیح بنادیا، آپﷺ کے زمانے میں شعر و شاعری کاچرچہ
تھا، اس لیے آپ کو قرآن جیسا فصیح کلام دے کر عرب کے شاعروں و ادیبوں پر
فوقیت دی۔
اس سے ہرگز شبہ یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ قرآن شعر میں ہے،بلکہ اس کے معنی
یہ ہیں کہ اگر تمھیں اس قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں تردد ہے اور تم یہ
سمجھتے یو کہ یہ آپﷺ یا کسی مخلوق کا کلام ہے تو اس قرآن جیسی کوئی چھوٹی
سے چھوٹی سورت بنا کر لے آو۔ولید بن مغیرہ جو عمر اور عقل میں سب سے بڑے
سمجھے جاتے تھے، انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے:
’’خدا کی قسم! تم میں سے کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعارِ عرب سے میرے
برابر واقف نہیں۔ خدا کی قسم! اس کلام میں خاص حلاوت ہے اور ایک خاص رونق
ہے، جو کسی شاعر یا فصیح و بلیغ کلام میں نہیں‘‘۔[۳]
نثر عرب زبان میں شعر سے کم دریافت ہو ئی ہے (اور اس وقت وہ ہمارا موضوع
بھی نہیں)لیکن شعر و شعرا کی بھر مار ہے، عرب نثر سے روگرداں نہ تھے وہ تو
خطابت ، ضرب الامثال ، روایت، قصو ں اور تاریخی خیالات کے مشاق تھے، لیکن
پھر بھی نثرکے مقابلے میں شعر کو ترجیح دیا کرتے تھے اور ان کے ہاں
نثاراتنے مشہور نہیں تھے جتنے کہ شعرا۔
شاعری کا ذوق قومی اعتبار سے عربوں کی فطرت میں شامل تھا۔اس کی وجہ شاید یہ
ہے کہ یہ قوم بدوی زندگی گزارتی اور فطرت کے آغوش میں پروان چڑھتی تھی، جس
کی وجہ سیکھلا صحرا اور تمتماتا سورج، جھلسا دینے والی آندھیاں اور دمکتا
ہواچاند،سہانی صبحیں اور نشیلی شامیں یہ سب ہر وقت ان کے سامنے تھیں۔ چناں
چہ وہ اسی فطرت کی زمین پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے تھے، جیسا
کہ اہلِ علم واقف ہیں کہ زمانۂ جاہلیت کا دست یاب شعری سرمایہ نہایت مؤثر
اور وقیع اور زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔
چوں کہ عربوں میں قبائلی چشمکیں رہتی تھیں اور زمانۂ جاہلیت میں شاعر اپنے
قبیلے کی قصیدے خوانی کیا کرتا تھا، اس لیے ان کے ہاں شاعر کی بڑی قدر و
منزلت تھی۔اس دور میں جب کوئی نوجوان شاعری میں نام پیدا کرتا تو اس کے
قبیلے کو مبارک باد پیش کی جاتی اور خوشیاں منائی جاتی تھیں،اس معاشرے میں
شاعر کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا،اگر کسی قبیلے میں کوئی شاعر نہ ہوتا،
اسے حقیر نگاہوں سے دیکھا جاتاکیوں کہ شاعری کو ایسی طاقت تصور کیا جاتا
تھا جس کے ذریعے دوسرے قبیلوں کے سامنے اپنے قبیلے کی تعریف اور بہادری
بیان کی جا سکتی تھی اور اپنے قبیلے کو دوسرے قبیلے کیسامنے بغیر تیر و
تلوار اٹھاے عزت دلوائی جا سکتی تھی،حال یہ تھا کہ عام طور سے شعرا قوم کے
سردار ہوا کرتے تھے۔
زمانۂ جاہلیت کی اصطلاح سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ عرب ہر قسم کی جہالت میں
مبتلا تھے بلکہ اس وقت کے شعرا کے کلام میں بھی اعلیٰ بدوی اخلاق کی تعلیم،
عمدہ مضامین اور بلند پایہ اغراض و مقاصد کی مثالیں وافر مقدار میں ملتی
ہیں۔ عام طور سے جاہلی شعرا نے حسبِ ذیل اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی
ہے:(۱) فخر و حماسہ (۲) وصف (۳) مدح (۴) ہجو (۵) مرثیہ (۶) غزل (۷) معذرت
اور حکمِ وامثال۔
زمانۂ جاہلیت میں جن شاعروں کو بلند پایا تصور کیا جاتا تھا، ان کے کلام کو
سونے کے پانی سے لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا، جسے ’’مْعلّقہ‘‘ یعنی
خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہوا کہتے تھے،یہ معلقات زمانۂ جاہلیت کی شاعری کی جان
اور اس کا صحیح اور اصل نمونہ ہیں۔
رسول اﷲﷺ جن مقاصد کو لے کر مبعوث ہوئے، ان کی تکمیل کے پیشِ نظر عہدِ
نبویﷺ میں شعر و شاعری پر خاص توجہ مبذول نہیں کی گئی، اس لیے آپﷺ سے قبل
جو حضرات شاعری کرتے تھے وہ جب حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے تو ان میں سے بعض نے
تو شعر گوئی کو بالکل خیر باد کہہ دیا مثلاً لبید بن ربیعہ اور خنسا وغیرہ
اور جن لوگوں نے اپنا سفرجاری رکھا انھوں نے بھی ایک نئی سمت میں طبع
آزمائی کی،اب آپﷺ کی نعت اور کفار کی ہجو اور اسلام کی حقانیت میں شعر کہے
جانے لگے،ان حضرات میں سب سے زیادہ شہرت حضرت حسان بن ثابت ؓ کو حاصل
ہوئی،آپؓ شاعر رسول کہلائے۔
حضرت حسانؓکا پورا نام ابو الولید حسان بن ثابت تھا اور آپؓ قبیلۂ خزرج سے
تعلق رکھتے تھے۔آپؓساٹھ سال کی عمر میں اسلام لائے اور اس کے بعد اپنی
شاعری کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ رسول اﷲﷺ نے نہ صرف آپؓ کے اشعار
کو سراہا بلکہ آپؓکا حجرہ اپنے گھر کے ساتھ بنوایا اور بیت المال سے ان کا
وظیفہ جاری کیا۔آپؓ بھی اسلام قبول کرنے سے قبل عام عرب شاعروں کی طرح اپنے
قبیلے کے دفاع کو اپنا وظیفہ سمجھے تھے۔
خلفاے راشدین کے زمانے میں بھی شعر و شاعری کی تقریباً یہی حالت رہی البتہ
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مذہبی اور سیاسی فرقوں کے پیدا ہونے اور ان کی
آپس کی کشمکش سے فنِ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی ترقی ہوئی جس کے
اثرات صحیح طور پر عہدِ بنی امیہ میں سامنے آئے۔
یہاں تک عہدِ نبویﷺکے قبل و بعد عرب میں شعر و شاعری کے رواج کاذکر ہوا،
آگے ہم چند احادیثِ نبویﷺ نفسِ شاعری کے حوالے سے پیش کریں گے۔
حضرت کعب بن مالکؓ روایت کرتے ہیں:
’’اے اﷲ کے نبی ! اﷲ تعالیٰ نے شعر و شاعری کے حق میں جو حکم دیا، وہ اس
آیت سے ظاہر ہیجو اس نے نازل فرمائی ہے؟ حضرت نبی کریمﷺنے جواباً فرمایا:
حقیقت یہ ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم کافروں کو(ہجو کہہ کر)
اشعار کے ذریعے اسی طرح زخم پہنچاتے ہو جس طرح تیروں کے ذریعے۔ ابن عبد
البرؒ کی کتاب ’الاستیعاب‘ میں یوں ہے کہ حضرت کعبؓ نے عرض کیا: اے اﷲ کے
رسولﷺ! شعر و شاعری کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: مومن
اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔‘‘[۴]
معلوم ہوا اشعار کے ذریعے کافروں کی ہجو کرنا، اسلام کی حقاینت بیان کرنا
اور اعلیٰ اخلاق کے مضمون باندھنابھی جہاد کا سا ثواب رکھتے ہیں۔صدیقہ بنتِ
صدیق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
’’رسول اﷲﷺ حضرت حسان کے لیے مسجدِ نبوی میں منبررکھتے تھے اور وہ اس پر
کھڑے ہو کر رسول اﷲﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والوں کی ہجو بیان کرتے
تھے۔ رسول اﷲﷺ نیارشاد فرمایا: بے شک! روح القدس حسان کے ساتھ ہیں جب تک کہ
وہ رسول اﷲﷺ کی طرف سے دفاع کریں۔‘‘[۵]
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف روایت کرتے ہیں؛
’’ میں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کو قسم دے کر کہہ رہے تھے؛ میں تمھیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں! یہ
(بتاؤ) کیا تم نے نبیﷺ سے یہ سنا ہے کہ آپﷺ (مجھ سے) فرمایا کرتے تھے کہ اے
حسان!اﷲ کے رسولﷺ کی طرف سے (دشمنوں کو) جواب دو، اے اﷲ! حسان کی روح القدس
کے ذریعے مدد فرما۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:ہاں! (میں نے سنا ہے)۔‘‘[۶]
حضرت عمرو بن شرید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں؛
’’ایک دن میں رسول اﷲﷺ کے پیچھے سوار ہوا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: کیا تمھیں
امیہ بن ابی صلت کے اشعار میں سے کچھ یاد ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپﷺ
نے ارشاد فرمایا: سناؤ! میں نے ایک شعر سنایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اور
سناؤ! پھر میں نے ایک اور شعر سنایا۔ آپﷺ نیارشاد فرمایا: مزید سناؤ!حتی کہ
میں نے سو شعر سنائے۔‘‘[۷]
امیہ ابن ابی ا لصلت عرب کا ایک مشہور اور با کمال شاعر تھا ، اس کا تعلق
قبیلۂ ثقیف سے تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے عہدِ جاہلیت میں اہلِ کتاب
سے دین سیکھا تھا اور دین داری کی باتیں کرتا تھا۔ حشر و نشر اور قیامت کے
دن پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اس کے اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح سے
پْر ہوتے تھے، چناں چہ آں حضرتﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا :
امن شعرہ وکفر قلبہ۔
اس کے اشعار سے ایمان جھلکتا ہے، اگرچہ اس کا دل کفر میں مبتلا رہا۔[۸]
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت نبی کریم ﷺسے روایت نقل کرتے ہیں؛
’’ عرب کے کلماتِ شعر میں سب سے عمدہ لبید کا یہ شعر ہے (ألَا کُلُّ شیءٍ
مَا خَلَا اللّٰہ بَاطِلٌ) آگاہ رہو! اﷲ عزوجل کے سوا سب چیزیں باطل
ہیں۔‘‘[۹]
حضرت ابی بن کعب رسول اﷲﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپﷺ نیارشاد فرمایا:
’’بعض شعر حکمت والے ہوتے ہیں۔‘‘[۱۰]
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲﷺ نیارشاد فرمایا:
’’آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے۔‘‘[۱۱]
ابوعلی نے فرمایا؛
’’ مجھے عبید کے واسطے سے یہ بات پہنچی ہے کہ اس قول ’’ اس کا پیٹ شعر سے
بھر جائے‘‘سے مراد وہ شعر ہے جو قرآن سے اور ذکر اﷲ سے غافل کردے اور اگر
قرآن اور ذکر اﷲ شعر گوئی پر غالب ہو تو ہمارے نزدیک وہ پیٹ شعر سے بھرا
ہوا نہیں ہے اور اس وعید میں داخل نہیں اور بے شک! بعض بیان جادو اثر ہوتے
ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اپنے بیان میں اس درجے کو پہنچا ہوا ہو کہ
اگر کسی انسان کی سچی تعریف کرے تو اس انداز سے کرے کہ لوگوں کے دل اس کی
بات کی طرف پھر جائیں اور اگر کسی کی مذمت کرے تو اس انداز سے کرے کہ لوگوں
کے قلوب اس کے اس قول کی طرف پھر جائیں تو گویا کہ اس نے سامعین پر جادو
کردیا۔‘‘[۱۲]
مطلب یہ ہے کہ انسان پر انسان ہونے کے ناطے، مسلمان ہونے کے ناطے غرض کسی
منصب و مقام پر فائز ہونے کے ناطے جو ذمّیداری عائد ہوتی ہے، اس کی ادایگی
میں کوئی حرج واقع نہ ہو اور اگر شعر و شاعری کا ایسا مشغلہ ہو کہ دنیا و
مافیہا سے غافل کر دے تو یہ یقیناً مذموم ہے۔پروفیسر ہارون رشید نے بجا
لکھا ہے:
’’اسلام دینِ فطرت ہونے کی حیثیت سے شاعری کی اہمیت اور انسانی تہذیب و
تمدن میں اس کے مرتبے کو تسلیم کرتا ہے لیکن دوسرے افعال و محرکات کی طرح
اسے بھی ایک خاص حد میں رکھنا چاہتا ہے، اس لیے کہ اچھی سے اچھی چیز بھی جب
اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتی ہے تو اس میں
بھی مضر اثرات پیدا ہو جاتے ہیں، اس لیے اسلام نے ’تمام امور میں میانہ روی
خیر کا باعث ہے‘ کا اصول پیش کیا ہے اور ہمیں اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کے
استعمال میں توازن برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے‘‘۔ [۱۳]
ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک شاعر تھے جو ہر وقت شعر و شاعری میں منہمک رہتے
تھے، نہ دنیا کی خبر نہ عقبیٰ کی فکر۔ اہل و عیال فقر و فاقہ کی زندگی
گذارنے پر مجبور تھے، ایک دن وہ شعر لکھ رہے تھے کہ بیوی نے گھر میں جھاڑو
لگاتے ہوئے عرض کیا باہر جاکر کچھ کماتے کیوں نہیں، بچے بھوکے ہیں؟ انھوں
نے کہا کہ بس یہ شعر پورا ہو جاے تو جاتا ہوں۔ اہلیہ نیکہا لاو مجھے بتاو
پہلا مصرع کیا ہے؟ انھوں نے کہا
اگر آسماں میں ستارے نہ ہوتے
بیوی جلی بھنی کھڑی تھی، جھاڑو کو ہوا میں لہرا تے اور بچوں کی طر ف اشارہ
کرتے ہوئے گویا ہوئی
اگر تو نہ ہوتا یہ سارے نہ ہوتے
خیر یہ تو لطیفہ تھا لیکن آپ نے اوپر جو احادیث ملاحظہ فرمائیں ان میں
بظاہر آپﷺ کے فرامین میں تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں
کوئی تضاد نہیں۔ اس لیے کہ فی نفسہٖ شاعری اپنے جذبات کے اظہار کا مؤثر
ذریعہ ہے اور اگر اسے جائز اور صحیح نیت کے ساتھ صحیح مقصد کے حصول کے لیے
صحیح طریقے سے استعمال کیا جایتو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسا کہ
فرمایاگیا ’’بعض شعر حکمت ہوتے ہیں‘‘ اور اس فن کو غلط طریقے پر، غلط نیت
سے اورغلط مقصد کے حصو ل کے لیے استعمال کیا جائے تو ناجائز اور مذموم ہے،
جیسا کہ فرمایا ’’آدمی کے پیٹ کا پیپ سے بھر جانا شعر سے بھر جانے سے بہتر
ہے‘‘۔
اسی طرح کی توجیہ ’معارف القرآن ‘میں ہے:
’’ابو عمر نے فرمایا ہے کہ اچھے مضامین پر مشتمل اشعار کو اہل علم اور اہل
عقل میں سے کوئی برا نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ اکابر صحابہؓ جو دین کے مقتدا
ہیں، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس نے خود شعر نہ کہے ہوں یا دوسروں کے
اشعار نہ پڑھے یا سنے ہوں اور پسند کیا ہو۔جن روایات میں شعر [و] شاعری کی
مذمت مذکور ہے، ان سے مقصود یہ ہے کہ شعر میں اتنا مصروف اور منہمک ہو جائے
کہ ذکر اﷲ، عبادت اور قرآن سے غافل ہو جائے۔۔۔اگرشعر مغلوب ہے تو پھر برا
نہیں ہے، اسی طرح وہ اشعار جو فحش مضامین یا لوگوں پرطعن و تشنیع یا دوسرے
خلافِ شرع مضامین پر مشتمل ہوں وہ بہ اجماعِ امت حرام و ناجائز ہیں اور یہ
کچھ شعر کے ساتھ مخصوص نہیں، جو نثر [کذا] کلام ایسا ہو، اس کا بھی یہی حکم
ہے۔[۱۴]
خود حدیث شریف سے اس کی شہادت ملتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اﷲ نے ’ادب المفرد‘
میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ روایت کرتے
ہیں؛
’’رسول اﷲﷺ نے ارشد فرمایا: شعر بات کی طرح ہے، اس میں خوبی بھی ہوتی ہے،
جیسے کلام میں ہوتی ہے اور برائی بھی۔ ‘‘[۱۵]
حضرت مقدام بن شریح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں؛
’’میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: کیا رسول اﷲﷺ کبھی شعر (پڑھ کر) مثال دیا
کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: حضرت نبی کریمﷺ کبھی کبھی حضرت عبد اﷲ بن
رواحہؓ کے شعر یا مصرعے سے مثال دیا کرتے تھے۔ مثلاًویاأتیک بالأخبار من لم
تزود۔ اور وہ شخص تم کو خیر پہنچاے گا، جس کے لیے تم نے زادِراہ تیار نہیں
کیا۔‘‘[۱۶]
مطلب یہ ہے کہ بے سان و گمان اچانک اﷲ کا حکم آجاے گا۔اسی لیے حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا فرمایا کرتی تھیں؛شعر ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اچھے ہوں اور ایسے
بھی ہوتے ہیں، جو برے ہوں، لہٰذا جو شعر اچھے ہوں انھیں قبول کر لو اور جو
شعر برے ہوں، ان کو نظر انداز کر دو۔ [۱۷]
آخری بات یہ کہ کیا رسول اﷲﷺ نے از خود کبھی اشعار کہے ہیں تو صحیح بات یہی
ہے کہ بعض موقعوں پر آپ نے بلا تکلف اور فی البدیہہ چند مصرعے اپنی زبانِ
مبارک سے ادا کیے ہی لیکن کبھی اس کا کوئی خاص شغف نہیں رکھا، شاید یہ آپ
کے منصب کے لیے موزوں بھی نہیں تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ کبھی کبھی فی
البدیہہ کوئی شعر کہہ لینا اور باقاعدگی سے شعر کہنادونوں میں فرق ہے، پہلے
شخص کو عرف میں شاعر نہیں کہتیخواہ کلام کتنا ہی معیاری ہو، دوسرے شخص کو
شاعر کہتے ہیں، خواہ اس کا کلام شاعری کے معیار سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ
ہو۔ اسی لیے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(ترجمہ) ’’اور ہم نے آپ(ﷺ)کو شعر گوئی نہیں سکھائی‘‘۔[۱۸]
(ترجمہ)’’شاعروں کی اتباع کرتے ہیں بے راہ چلنے والے‘‘۔[۱۹]
(ترجمہ)’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں اور
ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں‘‘۔[۲۰]
ان آیتوں کے حوالے سے علامہ بدر عالم میرٹھیؒ نے بہت عمدہ بات لکھی ہے، جسے
یہاں نقل کرنے کو جی چاہتا ہے:
’’(اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں) اس رسولِ اْمی کو جو کچھ سکھایا پڑھایا، ہم ہی نے
سکھایا پڑھایا ہے۔ پس پہلی بات تو یہ ہے کہ جو اس کا معلم ہے وہی خود اس کا
اعلان کرتا ہے کہ ہم نے شعر گوئی کی اس کو تعلیم نہیں دی تو پھر یہ شاعر
کیسے ہو سکتے ہیں اور جو بات انسان کو سکھائی نہیں جاتی اگر وہ اس کو نہیں
جانتا تو یہ اس کا کوئی عیب بھی نہیں اور یہاں تو بر عکس اس علم کی تعلیم
ہی ان کے حق میں عیب ہے، کیوں کہ منصبِ نبو ت شاعری سے کہیں بلند تر ہوتا
ہے۔ شاعروں کو دیکھو تو ان کے پیچھے لگنے والے وہ لو گ ہوتے ہیں، جن کو
صحیح اور پر از حقیقت باتوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ شاعر محض مبالغہ
آمیزی، خیال بندی اور بے حقیقت باتوں کو حقائق کے رنگ مین دکھانے کے در پے
ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار دیکھو تو معرفت سے لبریز ، اعمال کا جائزہ لو تو رند
مشرب۔ ادھر انبیاء علیہم السلام کو دیکھو تو ان کے اقوال و اعمال میں سرِ
مو مخالفت نہیں ہوتی، وہ جو بات زبان سے نکالتے ہیں، پہلے اس پر خود عمل
کرتے ہیں۔ ان کے کلام کو دیکھو تو اس کو مبالغے اور خیال بندی سے دور کا
واسطہ بھی نہیں ہوتا، اگر کہیں وہ بھی مبالغہ آمیزی کا مزاج رکھتے تو جنت و
دوزخ، ثواب و عذاب اور اس سے بڑھ کر ذات و صفات کا نازک اور پُر از حقیقت
کارخانہ سب درہم و برہم ہو کر رہ جاتا۔ ان کی زبان سے جو نکلتا ہے، وہ
حقیقت کے کانٹے پر تُلا ہوا نکلتا ہے، رضا و غضب کی بے اختیاری کی حالت میں
بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، حتیّٰ کہ ان کہ کلام میں تشبیہات کا باب بھی اس
معیار سے نہیں اترتا۔ ان کی تشبیہات میں بھی ایک حقیقت اور اس حقیقت میں
صداقت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تشبیہ و استعارات عام محاورات
کے مطابق کثرت سے نہیں ملتے، اس کے باوجود جب اس کو بلاغت کے معیار پر
پرکھا جاتا ہے تو وہ اعجاز کی سرحد سے ملا ہوا نظر آتا ہے، جو تاثیر دوسرے
کے کلاموں میں سو طرح مبالغہ آمیزیوں کے بعد بھی پیدا نہیں ہوتی وہ ان کے
روز مرہ کے کلام میں جلوہ نما ہوتی ہے۔ بس اس تاثیر کو دیکھ کر کافر مجبور
ہو جاتے تھے کہ اس کو سحر کہہ دیں یا شاعر قرار دیں، مگر قرآنِ کریم کا
معقول فیصلہ یہاں بھی یہ ہے کہ آپؓ کی صفات کو دیکھو کیا ان میں شاعروں کی
ایک صفت بھی ہے؟ پھر آپﷺ کے کلام پر بھی غور کرو، اس میں عالمِ غیب اور
انبیاء علیہم السلام کے مقدس گروہ اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے عواقب کے
سوا کہیں شاعرانہ مضامین کا تذکرہ ہے؟ اگر ان کی ذات شاعروں کی صفات سے
منزہ و مبرا ہے اور اسی طرح ان کا کالم بھی شعر وسخن کی خصوصیات سے بالکل
ممتاز ہے تو پھر ان کو شاعر کہنا کتنا نامعقول ہے۔‘‘[۲۱]
اب رسول اﷲﷺکی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئیایک بابرکت شعر کیذکر پر ہی میں
اپنے مقالے کو ختم کرتاہوں۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آپﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کو
یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
نحن الذین بایعوا محمداً
علی الجہاد وما بقینا ابداً
ہم وہ لوگ ہیں، جنھوں نے حضرت محمدﷺسے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہاد پر بیعت کی
ہے تو آپﷺ نے اس رجزیہ شعر پر ارشاد فرمایا:
لا عیش الا عیش الآخرہ
فاغفر للانصار والمہاجرہ
اے اﷲ! آخرت کے سوا کوئی زندگی نہیں، انصار اور مہاجرین کی مغفرت
فرمایجیے۔[۲۲]
٭٭٭
حوالہ جات:
[۱]معارف القرآن[۲]مقدمہ ابن خلدون[۳] معارف القرآن[۴]مشکاۃ المصابیح
[۵]ابو داود[۶]بخاری، مسلم[۷] مسلم[۸]مظاہر حق جدید[۹] مسلم[۱۰]بخاری ، ابو
داود، ابن ماجہ[۱۱]بخاری ،مسلم[۱۲]ابو داود[۱۳]اردو شاعری میں اسلامی
تلمیحات بحوالہ اردو ادب اور اسلام[۱۴]معارف القرآن[۱۵]الادب المفرد،سلسلۃ
الاحادیث الصحیحہ[۱۶]ترمذی [۱۷]الادب
المفرد[۱۸]یٰس[۱۹]الشعراء[۲۰]الشعراء[۱۲] ترجمان السنہ [۲۲] بخاری ۔ |
|