عالم اسلام اور سعودی وایرانی تنازعہ
(Muhammad Attique Ur Rehman, Islamabad)
پاکستان اس وقت جس جگہ کھڑا ہے وہ
جگہ اگرچہ پاکستانیوں کے لئے قابل فخر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی
ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔ عالم اسلام کوجس طرح سے سازشوں کے جال بُن
بُن کر باہم دست وگریباں کیا جارہاہے ایسے میں پاکستان کی کوششیں عالم
اسلام کا جھومر ہیں ۔حالیہ سعودی عرب اورایران کے تنازعے میں پاکستان کی
ثالثی کی کوششیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ریاست
ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کو جنگ سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے
۔پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل
شریف سعودی وایران کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور
منگل کو ایران کے دورے پر ہونگے ۔سعودی عرب کی طر ح ہی ایران کے دورے پر ان
کے ساتھ مشیرخارجہ اور معاون خصوصی ساتھ ہوں گے۔اس وقت پوری دنیا جس دہانے
پر کھڑی ہے اس میں صرف ایک انگارہ ہی پوری دنیاکو خاکستر کرنے کو کافی ہے
۔یہ مسلمانوں کی دوراندیشی ہے کہ ظلم وستم سہتے ہوئے بھی امن وآشتی کی
کوششوں میں مصروف عمل ہیں اور دنیا کو امن کادرس دیتے ہیں ۔کیونکہ یہی نبی
محمدکریم ﷺکا درس ہے ۔
پوری دنیا کی نظریں اس وقت اس سفارتی مشن پر لگی ہوئی ہیں ۔پاکستانی
وزیراعظم پہلے سعودی فرماں رواؤں کا موقف جاننے کے بعد ایران کے دورے میں
ان کی وجوہات جانیں گے اور تازہ ترین صورت حال کے حوالے سے دونوں اطراف کا
جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کشیدگی کوکم کرنے کے کوشش کریں گے ۔وطن واپسی پر
اپنے رفقاء سے مشورہ کرنے کے بعد سوئٹرزلینڈ میں عالمی رہنماؤں سے تبادلہ
خیال کریں گے ۔سعودی عرب اور ایران کی حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب
سعودی عرب نے سعودی شیعہ عالم شیخ باقرالنمر کوپھانسی دی ۔جس کے جواب میں
ایران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے اور سعودی مخالف مظاہروں کی وجہ سے
دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگے جس کا اثر دوسرے اسلامی ممالک پر
بھی پڑا ۔پاکستان میں سبھی مسالک کی نمائندگی موجود ہے ۔اگرچہ یہاں بریلوی
طبقہ فکرکی اکثریت ہے تو دیوبندی اور اہل حدیث طبقہ فکر بھی اپنی نمائندگی
لئے ہوئے ہیں اور اہل تشیع کی بھی خاصی تعداد ملک پاکستان میں موجود
ہے۔حالیہ کشیدگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں نے غیر ملکی دشمن عناصر
کایجنڈا پورا کرتے ہوئے شیعہ سنی فسادات کروانے اور انہیں آپس لڑوانے کی
مکمل کوشش کی ۔تاہم حکومت ، سیاسی جماعتوں اور خصوصاََمذہبی جماعتوں کی طرف
سے حوصلہ شکنی کیے جانے کی وجہ سے دشمن عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہ
ہوسکے ۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں اختلاف نہیں پایا جارہا
۔شیعہ حضرات کا خیال ہے کہ باقرالنمرکو فرقہ وارانہ بنیادوں پر پھانسی دی
گئی ہے ۔دوسری طرف کی جماعتوں کاکہنا ہے کہ صرف شیخ نمر کو ہی پھانسی نہیں
دی گئی بلکہ ان کے ساتھ 46افراد اور بھی تھے جن میں سے شیخ نمر کے علاوہ6
افراد کاتعلق صرف اہل تشیع سے تھا جبکہ باقی کے 40سنی مسلک سے تعلق
تھا۔جتنے بھی افراد کو پھانسی دی گئی ان پر القاعدہ ودیگر دہشت گرد تنظیموں
سے تعلق ،بغاوت اورمنافرت پھیلانے کے الزامات کے تحت سعودی عدالتوں میں
باقاعدہ طور پر مقدمات چلائے گئے اور انہیں مقدمات میں ان سب کو سزا سنائی
گئی ۔اس لئے یہ سعودی عرب کااندرونی معاملہ ہے جس میں کسی بھی دوسرے ملک کو
مداخلت کی اجازت نہیں ۔حکومت کا فرض بنتا ہے کہ جب عدالتیں ثبوتوں کی
فراہمی کی بنا ء پر کوئی فیصلہ کریں تو اس پر عمل درآمد کیا جائے ۔یہ مختلف
آرائیں ہیں جو دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں ۔
مندرجہ بالا آراؤں کے ہونے کے باوجودپاکستانیوں کی ایک اکثریت کا اس بات پر
زور تھا کہ پاکستان کوترکی کے ساتھ مل کر کسی کابھی ساتھ دینے کی بجائے غیر
جانبداری سے ثالثی کاکرداراداکرنا چاہئیے ۔کیونکہ یہ معاملہ جتناطول پکڑتا
جائے گا اتنا ہی امت مسلمہ کاشیرازہ بکھرتا چلاجائے گا ۔جس کا سب سے زیادہ
فائدہ اسلام دشمن قوتوں اور ان دوست نما دشمنوں کو ہوگا جو دشمنوں سے بھی
زیادہ خطرناک ہیں ۔اسی لئے پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادتوں نے اس معاملے
کو عمیق نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کوحل کرنے کی ٹھانی تاکہ یہ جلد سے جلد حل
ہوجائے ۔پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف نے دونوں ممالک کی قیادتوں سے
مسلسل رابطے رکھے ۔اسی دوران جب سعودی وزیر خارجہ اور وزیردفاع پاکستانی
دورے پر تشریف لائے تو جہاں پاکستان نے اسلامی ملکوں کے اتحاد میں پاکستان
کی شمولیت اورکردار کے متعلق تفصیلی تبادلہء خیال کیا وہیں ایران کے ساتھ
سعودی کشیدگی کو بھی زیربحث لایا گیا تاکہ اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی حل
نکالا جاسکے ۔سعودی عرب کا پہلے دورہ کرنے کی وجہ میرے خیال سے یہی ہے کہ
سعودی عرب پاکستان کو مسلسل مثبت رسپانس دے رہا ہے۔ اسی وجہ سے خادم حرمین
شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزسے پہلے ملاقات طے کی گئی ۔ویسے بھی سعودی
عرب کی ذاتی کوشش رہی ہے امت مسلمہ کے روحانی مرکز ہونے کے ناطے کسی بھی
اسلامی ملک سے کسی بھی قسم کے تنازعہ کوہوانہ دی جائے اور حتی الامکان صبر
سے کام لیاجائے ۔سعودی عرب اس وقت یمن میں حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے اور
تکفیری وخارجی گروہوں سے نمٹنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔اس لئے
بھی وہ کوئی نیامحاذ نہیں کھولنا چاہتا ۔دوسری طرف تہران میں سعودی سفارت
خانہ جلائے جانے کے واقعہ پر ایران کے صدر نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی
تھی اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا ایرانی دورہ بھی دونوں ملکوں
کے درمیان تنازعے کو کم کرنے معاون ثابت ہوگا ۔میاں نوازشریف سعودی عرب اور
ایران کے دورے کے بعد مصر،انڈونیشیااور ملائیشیاکا بھی دورہ کریں اور انہیں
اعتماد میں لیں گے کیونکہ سعودی سفارت خانہ جلائے جانے کے بعد کچھ اسلامی
ممالک نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرلئے تھے ۔
پاکستانی قیادت دونوں ممالک کو ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے اس بات کا یقین
دلائے گی کہ اس کاجھکاؤ کسی ایک ملک کی طرف نہیں ہے بلکہ وہ اس طرح کے
تنازعات کو امت مسلمہ کے لئے خطرنا ک سمجھتی ہے ۔اس لئے پاکستان خلوص نیت
کے ساتھ اس کشیدگی کوختم کرنے میں کوشاں ہیں ۔اس وقت جہاں عالم اسلام کی
نظریں دونوں ممالک کی طرف اٹھی ہوئی ہیں وہیں دنیا میں اسلامی اتحاد کی داغ
بیل ڈلتی نظر آرہی ہے ۔کیونکہ اس وقت جہاں جہاں بھی ظلم ہورہاہے مظلوم
مسلمان ہی ہے اوربدقسمتی سے ظالم کو بھی مسلمان ہی کہاجارہاہے اور اس ظالم
کوختم کرنے کے بہانے خون پھر اُنہی مظلوم مسلمانوں کابہایاجارہاہے ۔ایسے
حالات میں دواسلامی ملکوں کا باہمی دست وگریباں ہونا امت مسلمہ کو کسی بڑے
خطرے سے دوچار کرنے کو کافی ہے ۔عالم کفر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم
ممالک کے قدرتی ذخائر پرقبضے کے ساتھ ساتھ اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی
کوششوں میں مصروف ہے۔اس وقت عالم اسلام کوایک لڑی میں پرونے کی اشدضرورت ہے
تاکہ دشمن کو ایک کراراجواب دیاجاسکے۔ عالم اسلام میں امن قائم ہوسکے اور
شامی وفلسطینی بچے اپنے گھروں میں چین کی سوسکیں۔یادرکھیں یہ تبھی ممکن ہے
جب عالم اسلام متحد ہوگا ۔ |
|