مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی لہر کی اصطلاح تو
میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچی لیکن" لیاری میں تبدیلی کی لہرـ" کی اصطلاح
ہم خود ہی گڑ رہے ہیں، کیوں کہ ہم بذات خود اس کے چشم دیدگواہ ہیں۔ گزشتہ
چند برسوں کے دوران ہم نے ماہی گیروں کی اس پرامن بستی کو خون میں رنگتے
بھی دیکھا اور پھر دھیرے دھیرے ان سُرخ دھبوں کے صاف ہونے کا نظارہ بھی کر
رہے ہیں۔ مورخہ 23 اکتوبر 2015کو اپنے کالم "بھٹو کے گڑھ سے" میں راقم نے
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ پاک پروردگار کے
فضل سے بڑی حد تک سچ ثابت ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کو اُس طرح سے کامیابی نہیں مل
سکی جو کبھی اس علاقے میں اُس کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج میرا
موضوع یہ نہیں، میں علاقے میں آنے والی خوشگوار تبدیلی کا ذکر کر رہا ہوں۔
گزشتہ دنوں ہمارے ایک ساتھی دبئی سے تشریف لائے۔ پہلے تو اُنہیں کراچی
بلانے میں کافی دیر لگ گئی۔ موصوف کراچی کا نام سُنتے اور کانوں کو ہاتھ
لگاتے، سونے پہ سہاگہ یہ کہ جب اُنہیں بتایا جاتا کہ اُن کا قیام لیاری میں
ہوگا تو ویسے ہی اُن کے پسینے چھوٹ جاتے۔ خیر معاملہ کاروبار کا تھا تو دل
پر ہاتھ رکھ کر اور گھر والوں سے چھپ چھپا کر بالآخرکراچی اور پھر لیاری
پہنچ ہی گئے۔
ہم روزانہ حسب روایت رات دس بجے کھانے کے بعد کھڈہ مارکیٹ کے پرہجوم بازار
میں پہنچتے، کبھی چائے پراٹھہ تو کبھی افغانی قہوہ کا دور چلتا۔ اُن کے
بہانے ماڑی پور روڈ کے کڑاہی گوشت پر بھی ہاتھ صاف کرنے کاموقع مل جاتا،
بارحال دیر تک گپیں لگانا اور پھر رات گئے وہاں سے واپسی اُنہیں خوب بھایا۔
کہنے لگے واقعی کراچی وہ نہیں رہا جیسا ہم سُنتے آرہے تھے۔
اس دوران اُنہیں پانچ دسمبر کے بلدیاتی انتخابات کو بھی قریب سے دیکھنے کا
موقع ملا۔ کارکنوں سے کھچا کھچ بھرے انتخابی دفاتر، کارنر میٹنگز، ریلیاں ،
اور پھر ووٹرز کا بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلنا، یہ
سب کچھ اُن کے دل سے خوف نکالنے کے لیے کافی تھا۔ اس دوران ہم پیپلزاسٹیڈیم
بھی گئے جہاں دو روزہ باکسنگ ایونٹ میں باکسنگ کنگ عامر خان کی آمد اور اُن
کا والہانہ استقبال بالخصوص بلوچ نوجوانوں کا ڈھول کی تھاپ پر لیوا رقص اُن
کے لیے خوشگوار تجربہ تھا۔ ہم حال ہی میں یونیورسٹی کا درجہ پانے والی شہید
بے نظیربھٹو یونیورسٹی بھی گئے۔ معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کی عمارت جس قدر
پُرشکوہ ہے اس میں تعلیمی سلسلہ اُتنا ہی قابل رشک۔ لیاری والوں کی قسمت ہے
کہ اُنہیں پروفیسر اختربلوچ جیسا وائس چانسلر میسر آیا، موصوف کا تعلق خود
بھی لیاری ہے، اپنی قابلیت سے اوپر آئے ہیں، پہلے جامعہ کراچی میں بطور
لیکچرار فرائض انجام دیتے تھے، اب وائس چانسلر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا
رہے ہیں۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ لیاری کا درد رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے
ساتھی کو بتایا کہ یہ وہی چاکی واڑا کا علاقہ ہے جہاں سے گینگ وار نے جنم
لیا تھالیکن آج یہاں نوجوان بچے اور بچیاں تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہے
ہیں۔ صحت کی بات کی جائے توقریب ہی واقع شہیدبے نظیربھٹو میڈیکل یونیورسٹی
اور حال ہی میں بننے والا سول اسپتال کا بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر اہلیان
لیاری کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ جدید سہولتوں سے آراستہ اس ٹراما سینٹر
کا افتتاح گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری نے کیا، لیکن معصوم بسمہ کی ہلاکت
کے باعث ٹراما سینٹر کے افتتاح کی خبر دب کر رہہ گئی۔
بلاشبہ لیاری میں امن وامان میں بہتری کے بعد معمولات زندگی معمول کی طرف
آرہے ہیں، لیکن سب سے اہم تبدیلی یہاں کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی
کے رویے میں نظر آ رہی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ لیاری کے منتخب نمائندے
کتنے دودھ کے دھلے ہیں لیکن وہ عوام کے سامنے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے لاکھ
اختلاف کے باوجود اُنہیں یہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ مشکل ترین حالات کے باوجود
اُنہوں نے علاقہ نہیں چھوڑا۔ جاوید ناگوری کئی جان لیوا حملوں اور ایک
بھائی کیشہادت کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ شام کو نیاآباد میں واقع
اپنے دفتر میں حاضری دیتے ہیں جہاں کوئی بھی شخص اُن سے مل سکتا ہے۔ ایم پی
اے ثانیہ ناز، ایم این اے شاہجہان بلوچ اور سابق ٹاؤن ناظم ملک فیاض بھی
جان کو لاحق شدید خطرات کے باوجود علاقے میں موجود رہے۔ حالیہ بلدیاتی
انتخابات میں تمام منتخب نمائندوں نے بھرپور مہم چلائی ۔ انتخابی نتائج نے
ہمارے اس خیال کو غلط ثابت کیاکہ پیپلزپارٹی کا وجود اس علاقے سے مٹ چکا
ہے۔ پیپلزپارٹی نے لیاری سے چیئرمین کی پندرہ نشستوں میں سے پانچ پر
کامیابی حاصل کی لیکن یہ کافی نہیں، ماضی میں چیئرمین تو دور پیپلزپارٹی کے
کونسلر کو ہرانا بھی جوئے شیر لانے کم نہیں تھا۔
بلاشبہ اس بار مقابلہ بہت سخت تھا۔مسلم لیگ ن کو بھی بھرپور پذیرائی ملی۔
مکینوں کا خیال ہے کہ علاقے میں امن لانے کا سہرا پاک فوج اور رینجرز کے
علاوہ وزیراعظم نواز شریف کو بھی جاتا ہے۔ بظاہر مسلم لیگ ن چیئرمین کی چار
نشستوں پر کامیاب ہوئی لیکن اکثر نشستوں پر اسے بہت کم ووٹوں سے شکست ہوئی۔
اُدھر تحریک انصاف نے بھی علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ بظاہر
پی ٹی آئی چیئرمین کی صرف ایک ہی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اگر
حلقے میں ووٹوں کا مجموعی تناسب دیکھا جائے تو وہ اتنا ہے کہ عام انتخابات
میں کسی بھی جماعت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی
اس لیے بھی کامیاب ہوتی رہی، کیوں کہ اُسے کبھی مضبوط اپوزیشن کا سامنا
نہیں پڑا۔ مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں گتھم گتھا ہوتیں ، جس کی وجہ سے ووٹ
تقسیم ہوتا اور پیپلزپارٹی آسانی سے جیت جاتی لیکن آئندہ انتخابات میں ایسا
ہونے والا نہیں۔ پیپلزپارٹی کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اب لوگ صرف زندہ
ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے، اور بجاں تیر بجاں کا گیت سُن کا اسے ووٹ نہیں
دیں گے ۔ گینگ وار کی وجہ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جن کے
عزیزواقارب اس میں جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں، جن کے کاروبار تباہ ہوئے اور
جن کے گھروں کو نقصان پہنچا ہے، اُنہیں اتنی آسانی سے رام نہیں کیا جاسکتا،
تاہم محنت شرط ہے۔ علاقے کے دیرینہ مسائل جن میں سیوریج، پانی، لوڈشیڈنگ
سرفہرست ہیں، کو حل کرکے پیپلزپارٹی بڑی حد تک اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔ |