اسلام امن کا دین ہے دہشت گردی کا نہیں

دور حاضر کے ذرائع ابلاغ دہشت گردی کا لفظ بہ کثرت استعمال کررہے ہیں اور بعض سیاسی عناصر یہ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش بھی کررہے ہیں کہ نعوذ باللہ اس کا رشتہ اسلام سے ہے جب کہ تشدد اور اسلام میں آگ اور پانی جیسا بیر ہے جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جہاں اسلام ہو وہاں تشدد کی ہلکی پرچھائیں بھی نہیں پڑسکتی، اسلام امن وسلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے، جس کی بابت اللہ رب العزت خود فرماتا ہے﴿یا ایہا الذین آمنواادخلو ا فی السلم کافة ولا تتبعوا خطوات الشیطن﴾․

ترجمہ:اے مومنو! امن وسلامتی میں پورے پورے داخل ہوجاوٴ اور شیطان کے قدموں کی تابع داری نہ کرو۔“(البقرة:208)اسی طرح دوسرے مقام پرکچھ یو ں حکم دیتا ہے ﴿ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا﴾․

ترجمہ:اور زمین میں اسکی درستگی کے بعد فساد مت پھیلاوٴ۔(الاعراف (56:

جب کہ تشدد کا خمیر ظلم و جور اور وحشت سے اٹھتا ہے اور خوں ریزی وغارت گری سے اس کی کھیتی سیراب ہوتی ہے، کائنات کے جملہ ادیان ومذاہب میں انسانی جان کے احترام ،وقار اور امن واطمینان کے ساتھ زندگی گذارنے کے حق کو اولیت دی گئی ہے ،ماشاء اللہ اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے﴿ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ذلکم وصاکم بہ لعلکم تعقلون﴾․

ترجمہ:اور جس کا خون کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو،ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ سمجھو۔ (الانعام:151)

ان واضح اسلامی تعلیمات کے فیض سے دنیا میں انسانی جان کے تحفظ کا حیرت انگیز منظر سامنے آیا اور دنیامیں بڑی بڑی سلطنتوں کے اندر انسانی جان کی ناقدری کے خوفناک واقعات اورہول ناک تماشوں کے سلسلے اسلام کی آمد کے بعد موقوف ہوگئے اور دہشت وخوں ریزی سے عالم انسانیت کو نجات ملی، انہیں تعلیمات کے باعث ایک مختصر مدت میں عرب جیسی خوں خوار قوم تہذیب وشرافت کے سانچے میں ڈھل گئی اور احترام نفس وامن و سلامتی کی علم بردار ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی جس کا نقشہ قرآن کریم نے کچھ اس طرح کھینچا ہے ﴿وکنتم علی شفا حفرة من النار فانقذکم منھا﴾․

ترجمہ:اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔(آل عمران:103)

آج انہیں اسلامی اقدار کو بدنام کرنے کی ہر چہار جانب کوششیں جاری ہیں۔مذہب اسلام نے تشدد ودہشت گردی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور امن وسلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے ،اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا ظلم وتعدی کی قطعا اجازت نہیں دیتا، اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کا بدلہ تو لیا جاسکتا ہے لیکن اگر مظلوم تجاوز کرگیا تو وہ بھی ظالم کی صف میں آجائے گاارشاد ربانی ہے﴿وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین﴾․

ترجمہ:اوران سے اللہ کی راہ میں لڑوجو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو نہیں پسند کرتا۔ (البقرة:190)

اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی باخبر کردیا کہ بدلے کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ ارشاد ہے:﴿فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم واتقواللہ واعلموا ان اللہ مع المتقین﴾․

ترجمہ:جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالی پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(البقرة:194)

یعنی بدلہ لیتے وقت یہ بات ملحوظ رہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے ۔

دہشت گردی اور تشدد کے سلسلے میں اسلام کا موقف بالکل صاف اور واضح ہے کہ اسلام قتل ناحق کا مخالف ہے، جس کی وعید قرآن کریم کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ﴿من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا﴾․

ترجمہ:جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو ،قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔(المائدة:32)۔

اسی طرح اللہ کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”اکبر الکبائر عند اللہ الاشراک باللہ وقتل النفس وعقوق الوالدین“․

ترجمہ:اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی کو قتل کرنااور والدین کی نافرمانی کرنا اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے ۔(البخاری)

آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمان پوری کائنات میں اپنی دہشت گردی کے ذریعہ اسلام پھیلانا چاہتے ہیں ،جب کہ قرآن نے خود ان کے ان باطل افکار کی تردید کی ہے﴿لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی﴾․

ترجمہ:دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، سیدھی راہ غلط راہ سے الگ کرکے دکھائی جا چکی ہے۔(البقرة:256)

اسی طرح قرآن کریم دوسرے مقام پرارشاد فرماتا ہے﴿ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ﴾․

ترجمہ:اور جولوگ اللہ کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرتے ہیں انہیں گالی مت دو۔(الانعام:108)

اسلام مذہبی عقائد اور اشاعت دین کے سلسلے میں نہایت انسان دوست اور بردبار ہے، جبرا کسی پر بھی کوئی چیز تھوپنے کی یا حلق سے اتارنے کی کسی کو اجازت نہیں دی ہے، اگر اسلام کا نام لے کر کہیں اور کبھی کوئی بھی دہشت گردی یا تشدد کا مظاہرہ کرتا ہے تو حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مذہب اسلام سے ایک انحراف اور شریعت محمدیہ میں ایک تحریف کا فعل بد ہے، جسے شریعت اسلامیہ کے بدترین استحصال پر محمول کیا جائے گا۔اسلام اذیت پسندی اور فساد انگیزی کا روادار نہیں،اسلام میں صرف مسلم معاشرہ کے اندر کسی بھی اختلاف کو ختم کرنے کے سلسلے میں تشدد سے کنارہ کشی کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح یا ایک خطے یا سرزمین پر رہنے والے مختلف مذاہب وادیان کے لوگوں کے ساتھ بھی اعلی درجے کے حسن اخلاق کی ہدایت دی ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے﴿لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین ﴾․

ترجمہ:جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاوٴ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(الممتحنة8:)

مذ ہب اسلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور ظالم کے روبرو حق کہنے پر زور دیا ہے اور اسے ایک حقیقی مومن کا ضروری وصف قرار دیا ہے اسلام نے جہاں انسانی جان کی حرمت کا اعلان کیا ہے وہیں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ فتنہ وفساد برپاکرنے اور انسانو ں کاخون بہانے والوں کو معاف بھی نہیں کیا جاسکتا، ارشاد ہے ﴿فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ﴾․

ترجمہ:پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لیگا اور جس نے ذرہ برابربرائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔(الزلزال:8/7)

اس کے باوجود دور حاضر میں جب بھی دہشت گردی موضوع بحث بنتی ہے مغربی دانش ور بالعموم اسلامی تحریکوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور بالخصوص فرشتہ صفت علمائے اسلام نشانہ بنائے جاتے ہیں جب کہ قرآن صریح لفظوں میں بیان کرتا ہے ﴿انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ان اللہ عزیز غفور﴾․

ترجمہ:اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، واقعی اللہ تعالی بڑا بخشنے والا ہے۔ “(فاطر28:)

حالاں کہ اس سلسلے میں اب تک کوئی مبینہ ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا ہے اس لیے اسلامی تحریکو ں یا اسلامی بیداری کے مخالفین کا یہ رویہ عدل وانصاف کے قطعی منافی ہے ۔

دہشت گردی ایک وحشیانہ فعل ہے اور اسلام کے تہذیبی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام انسان کو صرف خدا کا خوف دلاتا ہے لہذا وہ کسی انسان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ لوگوں کو اپنا خوف دلائے اور انہیں خوف زدہ کرکے اپنے اغراض و مفادات حاصل کرے ،اللہ رب العزت نے اپنے حبیب محمدا کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا:﴿فذکر انما انت مذکر لست علیہم بمصیطر﴾․

ترجمہ:پس آپ نصیحت کردیا کریں (کیوں کہ)آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں (الغاشیة:22/21)

معاشرے میں کشیدگی اسلام کو گوارا نہیں ،وہ تو ہر قسم کی کشمکش اور چپقلش ختم کرکے ایک پر امن ماحول میں افراد کے درمیان الفت وموٴدت اور فلاحی کاموں میں اشتراک وتعاون کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ ارشادہے :﴿واذکروا نعمة اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا﴾․

ترجمہ:اور اللہ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔(آل عمران :103)

تا کہ بندگان خدا یکسوئی کے ساتھ اپنی اور کائنات کی تخلیق کے مقاصد کی تکمیل میں بے روک ٹوک مشغول ہو جائیں، دنیا میں اخلاص اور خدا ترسی کے ساتھ نیک اعمال کرکے آخرت کی کام یابی کا سامان مہیا کریں اور اللہ تعالی کی اس بشارت کے مستحق قرار پائیں ﴿فمن تبع ہدای فلا خوف علیم ولاہم یحزنون﴾․

ترجمہ:تو جو میری راہ پر چلا تو ان پر کوئی ڈر یا غم نہیں۔ (البقرة:38)

حاصل کلام یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ،روایات اور مزاج اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے کبھی دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دی ہے اور دنیامیں جو اس نے عظیم انقلاب برپا کیا وہ اپنے اخلاق حسنہ کے زور پر کیا ہے، جسے ہم صالح اور پر امن انقلاب کا عنوان دے سکتے ہیں ۔
محمد خان
About the Author: محمد خان Read More Articles by محمد خان: 11 Articles with 74709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.