دفاتر سِیل!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سی ڈی اے نے برق رفتاری سے آپریشن
کیا اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر سیل کردیئے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور
مسلم لیگ ق کے دفاتر سیل کردیئے گئے، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کی
وجہ سے پارٹی کا دفتر سیل نہ ہوسکا۔ البتہ یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان مسلم
لیگ ن اور آل پاکستان مسلم لیگ نے رضاکارانہ طور پر ہی اپنے دفاتر بند
کردیئے۔ ظاہر ہے مسلم لیگ ن حکومتی پارٹی ہے ، وہ خود قانون کی پاسداری کر
کے ہی دوسروں کے لئے مثال بن سکے گی، ورنہ انگلیاں اٹھیں گی، رہ گئی آل
پاکستان مسلم لیگ تواس نے بھی فوری قدم اٹھا کر شہیدوں میں نام لکھوالیا ،
یہی کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے انتظامات چلانے والی
وزارت کے وزیر مملکت نے بتایا کہ یہ کاروائی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل میں
لائی جارہی ہے،دسمبر میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر بند کرنے کا حکم دیا گیا
تھا۔ عدالت کی اگلی پیشی بیس جنوری کے بعد کی تھی، گویا حکومت نے یہ
کاروائی عدالت کو مطمئن کرنے کے لئے کی ہے، تاکہ پیشی کے موقع پر عدالت کے
سامنے کسی بھی پریشانی سے محفوظ رہا جا سکے۔
ملک بھر میں چلنے والے تمام معاملات کی ڈوریوں کے آخری سرے وفاقی
دارالحکومت کے ہاتھ میں ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو تمام
اختیارات کا منبع جانا جاتا ہے۔ تمام وزارتیں یہاں ہیں، جن کی وجہ سے
وزارتوں اور دیگر مسائل سے متاثر ہ لوگ بھی اسلام آباد جاتے اور اپنے کام
نکلواتے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا جب اسلام آباد ایک جنگل ہوتا تھا، ایک سیکٹر
سے دوسرے سیکٹر جاتے ہوئے بھی راستے میں کوئی نالہ اور بہت سا جنگل پڑتا
تھا۔ مکانات سرکاری تھے اور بہت زیادہ منزلوں کو نہیں پہنچے تھے۔ اس لئے تب
کی ایک اہم سیر گاہ ’شکر پڑیاں‘ سے کھڑے ہو کر جب اسلام آباد کا نظارہ کیا
جاتا تو پورا شہر درختوں میں ڈھکا ہوا ہی دکھائی دیتا، بس کہیں کوئی پانی
کی ٹینکی یا کسی مسجد کے مینار ہی نمایاں ہوتے تھے۔ مگر آبادی بڑھتی گئی،
ضرورتوں میں اضافہ ہوتا گیا، درخت کٹتے گئے، سڑکیں بنتی گئیں، عمارتیں
تعمیر ہوتی گئیں، اب شکر پڑیاں میں بھی وہ رونق نہیں رہی، دیگر مقاماتِ
سیروسیاحت تعمیر ہوچکے ہیں، تاہم اب ہر اونچی جگہ سے پورا شہر بھی دکھائی
دیتا ہے، سڑکیں بھی صاف نظر آتی ہیں، البتہ درخت بھی کسی حد تک موجود ہیں۔
فطری طور پر ہر میدان میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں، اسلام آباد صرف
سرکاری بابوؤں کا شہر تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی آتے گئے،
جاگیر داروں ، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں نے بھی وہاں ڈیرے ڈالنے شروع
کردیئے، کاروباری طبقے نے بھی اسلام آباد کا رخ کر لیا۔ یہاں دفاتر تو ہر
طبقے کے تھے، اور حکومت کی ڈوریاں بھی یہیں سے ہلتی تھیں، مگر نہ یہاں
سیاست تھی، نہ کاروبار، نہ یہاں ادبی محفلیں جمتی تھیں او ر نہ ہی فنونِ
لطیفہ کے مناظر تھے۔ آخر سب نے آہستہ آہستہ اِدھر آنا شروع کردیا۔ پھر وقت
آگیا کہ یہاں سیاسی گٹھ جوڑ بھی ہونے لگا، جوڑ توڑ کے میدان بھی سجنے لگے،
تحریکوں کی بنیادیں بھی پڑنے لگیں، ادبی میلے بھی سجنے لگے، اخبارات کے
دفاتر بھی کھلنے لگے۔ رونقیں بڑھ گئیں، یہاں بھی زندہ دلی کے مناظر دکھائی
دینے لگ گئے۔ ہر طرف ہلچل نظر آنے لگی، حتیٰ کہ گزشتہ سے پیوستہ برس یہاں
سیاست نے مسلسل طویل دھرنا دے کر اپنا ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔ اس شہر میں
جسے بعض سنگدل لوگ ’’شہرِ خموشاں‘‘ بھی کہہ دیتے تھے، جلوس برآمد ہونے لگے
اور ریلیاں نکلنے لگیں۔
اب حکومت اگر سیاسی جماعتوں کے دفاتر ختم کررہی ہے، تو یہاں چوہدری شجاعت
حسین کا بیان قابلِ غور ہے، کہ اگر سیاست بھی ’تجارت‘ ہے تو شہر میں بہت سے
مکانات تجارتی استعمال میں لائے جارہے ہیں، ڈاکٹروں نے اپنے گھروں کو کلینک
بنا رکھا ہے، وکلاء نے بھی اپنے گھروں میں اپنے دفاتر بنا رکھے ہیں۔ اگر
چوہدری شجاعت کی بات کو آگے بڑھایا جائے تو کتنی این جی اوز ہیں جو بہت بڑے
گھر کرائے پر لے کر تجارت کر رہی ہیں، بے شمار کاروباری ادارے ہیں، جنہوں
نے آبادیوں میں اپنے دفاتر بنا رکھے ہیں۔ ویسے خود وزراء کی رہائش گاہیں
بھی سیاسی دفاتر سے کم نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں میں سے بہت کم ہیں
جن کے اسلام آباد میں دولت خانے نہیں، ان کی پارٹی کے بڑے اجلاس ان کے
گھروں پر ہی منعقد ہوتے ہیں۔ اگر حکومت نے اس قسم کے اقدامات کرنے ہی ہوتے
ہیں تو یہ قدم اس وقت اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے، جب معاملہ خرابی کی طرف بڑھ
رہا ہوتا ہے، حکومت اس وقت ایکشن شروع کرتی ہے، جب معاملہ آخری سٹیج پر
پہنچ جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر مستقل کاربند رہتی
ہے اورتمام اداروں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے، یا چندروز کے بعد یہ غبار
بیٹھ جائے گا؟ |
|