اندھیروں سے روشنی تک کا سفر۔۔۔۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
سرمایہ کاری اور کاروبار سرگرمیاں بڑھانے
کے لئے امن پہلی شرط ہے ،بدامنی اور معاشرتی انتشار سرمایہ کاری کے لئے زہر
قاتل ہے،جہاں لوٹ مار ہو رہی ہو ،لوگوں کی جان ومال عزت وآبرو محفوظ نہ ہو
وہاں کوئی سرمایہ کار اپنا سرمایہ سامنے لانے اور کاروبار میں لگانا کسی
طور پر پسند نہیں کرتا ،پاکستان بد قسمتی سے گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کی
گرفت میں چلا آرہا ہے کراچی کے صنعت کاروں نے اپنے کارخانے ،فیکٹریاں اور
سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا تھا 2015ء میں وزیر اعظم نے تمام
سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا اجلاس بلوایا اور امن کی کی زبوں حالی پر غور
کیا گیا جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی کراچی میں امن آپریشن کی منطوری دی
گئی ۔۔۔۔۔بھتہ خوروں ،ٹارگٹ کلرز اور مارکیٹں بند کرانے والوں کے خلاف
رینجرز کا آپریشن جاری ہے اور جس کے اب تک نتائج حوصلہ افزاء ہیں ،اب
مارکیٹں وقت پر کھلتی ہیں کسی کا خوف یا ڈر نہیں ۔۔۔۔جبکہ اب ڈر اور خوف
’’بھتہ خوروں ‘‘ کو ہے ۔۔۔۔۔اب غیر ملکی بزنس مین کاروباری بات چیت کے لئے
دئبی نہیں بلاتے بلکہ بلاخوف وخطر کراچی آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جو کہ بے شک سول و
ملٹری قیادت کا آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے جس کے
دور رس نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔۔۔۔2015ء لورڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں گزر
گیا 2016ء میں بھی کیا ہو گا پیش گوئیاں اور قیاس آرئیاں کے سوا کچھ نظر
نہیں آتا ہے ،دیامر بھاشا ڈیم کب بنے گا ۔۔۔؟ سرکاری رپوٹیں کہتی ہیں کہ
آبی وسائل سے برقی رو حاصل کرنے میں دس سال تو لگ ہی جاتے ہیں ۔۔۔مجموعی
طور پر قومی آمدنی کا 68فیصد حصہ پنجاب کا ہے بجلی کا استعمال بھی پنجاب
میں اسی تناسب سے ہو گا لیکن آئینی ترمیم اور اقدامات کے نتیجے میں پنجاب
بالخصوص ’’تخت لاہور‘‘ کو ان کے کوٹے سے نسبتا کم بجلی اور گیس ملتی ہے
بلکہ سی این جی تو کئی کئی ماہ ملتی ہی نہیں ہے پنجاب میں 9893میگا واٹ کے
بجلی گھر کام کر رہے ہیں ہائیڈل ذرائع سے1697میگا واٹ جنکیوز سے 1995میگا
واٹ 650میگا واٹ ایٹمی ذرائع سے 5581میگا واٹ آئی پی پیز سے حاصل کئے جار
ہے ہیں اب پنجاب حکومت نے اپنی معیشت کا پہیہ چالو رکھنے کے لئے چھوٹے بجلی
گھر بنانے کی ٹھان لی ہے ۔۔۔یہاں گیارہ مقامات پر ڈیڑھ سو سے دو سو میگا
واٹ کے ’’گیارہ بجلی گھر‘‘ لگائے جائیں گے ۔۔۔۔چار بجلی گھر پنجاب حکومت
خود بنائے گی جبکہ سات بجلی گھروں کے لئے نجی شعبے کی خدمات حاصل کی جائیں
گی ،میاں شہباز شریف نے چیف سیکرٹری کی قیادت میں ایک سٹیرنگ کمیٹی تشکیل
دی تھی جس نے ایک ٹیکنکل کمیٹی بنائی جس نے لاہور ،شیخوپورہ،گوجرانوالہ،گجرات،سرگودھا،فیسل
آباد ،بہاولپور اور سیالکوٹ میں مختلف جگہوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔اس بارے میں
راقم کی بات معروف بزنس مین اور سیاسی و سماجی شخصیت خلیل الرحمن خان کاکڑ
سے ہوئی تو انہوں نے برملا کہا کہ گزشتہ سال لورڈشیڈنگ ختم نہ ہونے سے
معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے مہنگی بجلی کے باعث سرمایہ تو ایک طرف خود
حکومت کے اہداف بری طرح متاثر ہوئے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو ہماری
برآمدات میں خاصی کمی کا ندیشہ ہے ۔۔۔۔دنیا چالیس فیصد بجلی کوئلے سے بنا
رہی ہے ہمارے ہاں سندھ میں کوئلے کے ذخائر کا حجم 185ارب تن اور پنجاب میں
تقریبا 60کروڑ ٹن ہے لیکن یہ دونوں ذرائع بیکار پڑے ہیں ،پاکستان بھر میں
صرف ایک فیصد بجلی کوئلے سے بنائی جا رہی ہے ۔۔۔۔پاکستان میں اب بجلی گھروں
کو گیس اور کوئلے پر منتقل کیا جارہا ہے جبکہ دنیا بھر میں صرف چھ فیصد
بجلی آئل سے تیار کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں آئل سے تیار ہونے والی بجلی
کا تناسب66فیصد تک رہا ہے جس کے باعث عوام کو اور سرمایہ کاروں کو مہنگائی
کا سامنا کرنا پڑا ہے خلیل الرحمن خان کاکڑ نے مزید کہا کہ پانی کے بعد
سستی بجلی کا ماخذ گیس ہے جس کا ایک یونٹ تقریبا چار روپے میں پڑتا ہے
کوئلے کا ایک یونٹ 1.27نگل ڈیم کا ایک یونٹ 32پیسے ہائی سپیڈ ڈیزل کا ایک
یونٹ 5روپے اور ایل این جی سے ایک یونٹ پونے چھ روپے کا فرنس آئل کا ایک
یونٹ کی لاگت16سے18روپے بنتی ہے ۔جبکہ شمسی توانائی اوردوسرے زرائع سے پیدا
شدہ بجلی فرنس آئل سے کہیں سستی پرتی ہے اس لئے حکومت کو چائیے کہ اب کالا
باغ ڈیم پر توجہ مرکوز کرنا چاہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ خوشحالی جادو کی چھڑی سے نہیں آتی ،خوشحالی صنعت کاری اور
کاروباری سرگرمیاں بڑھانے سے آتی ہے جب کہ ایک فیکٹری یا کارخانہ چلتا ہے
تو کم از کم دو سو افراد کو روز گار مل جاتا ہے بعض دوست ملکوں کے اشتراک
سے میگا پراجیکٹس شروع ہو چکے ہیں یا شروع ہونے والے ہیں ۔۔۔۔جس میں خاص
طور پر 32ارب ڈالرز کی کطیر رقم چین بجلی کے خارخانوں میں انوسٹمنٹ کر رہا
ہے جس سے یقنینا اندھیروں سے روشنی تک کا سفر زیادہ دور نہیں ہے جس سے دنیا
پاکستان کے مستقبل پر رشک کرے گی ,راقم پاکستان کے ماتحت عدالتی نظام پر
خصوصی طور پر لکھنا چاہ رہا ہے تا کہ فاضل چیف جسٹس صاحب ہائی کورٹ اور خاص
طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں تحریر ہو گا اور ان دنوں راقم خود
اس اذیت سے گزر رہا ہے انشاء اﷲ آئندہ کالم ’’پاکستان میں ماتحت عدلیہ ۔۔۔اور
اس کی کارکردگی ‘‘ہو گا قارئین اگر رابطہ کرنا چائیں تو 0302-3330225کرسکتے
ہیں۔ |
|